الیکشن نامہ

ہندوستانی جمہوریت اور انتخابات کا مثبت پاکستانی کنکشن

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق، رام مندر کی تعمیر کا ایشو کچھ زیادہ ووٹروں کو لبھا نہیں پا رہا ہے۔ ہندو ووٹر خوش تو ہیں کہ رام مندر بن گیا، مگر یہ اس کے ووٹ کرنے کی وجہ نہیں بن پا رہا ہے۔ ہاں ان جائزوں کے مطابق جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ ووٹروں پر یقینا اثر انداز ہو رہا ہے۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

گو کہ پاکستان میں تو خود جمہوریت اور انتخابات کا سسٹم ستر سال گزرنے کے باوجود مضبوطی کے ساتھ پٹری پر جم نہیں پا رہا ہے، مگر شاید کم افراد کو پتہ ہوگا کہ ہندوستان اپنی جمہوریت کی بنیاد یعنی آئین اور پھر انتخابات میں استعمال ہونے والی ایک اہم چیز کے لیے پاکستان کا مرہون منت ہے۔

دسمبر 1946 کو جب متحدہ ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی وجود میں آئی، تو ہندوستانی آئین کے خالق معروف دلت راہنما ڈاکٹربھیم راوؑ امبیڈکر ممبئی سے انتخابات ہار گئے تھے۔ان کو ہروانے میں سردار ولبھ بائی پٹیل نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ مگر ایک اور اہم دلت راہنما جوگندر ناتھ منڈل اور حسین شیہد سہروردی کی ایما پر انہوں نے مسلم لیگ کی حمایت سے جسور۔کھلنا سیٹ (حال بنگلہ دیش) سے ضمنی انتخاب لڑا اور کامیاب ہوکرآئین ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔

امبیڈ کر کوجتوانے کے لیے مسلم لیگ نے اپنے ممبر سے استعفیٰ لے کر اس سیٹ کو خالی کرواکے ضمنی انتخابات کروائے تھے۔ اس کے بعد ہی ان کو دستور ساز کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا۔ چھ ماہ بعد جب ریڈ کلف ایواڑ کے تحت جسور۔کھلنا کو مشرقی پاکستان میں شامل کیا گیا تو کانگریس نے بطور مجبوری ممبئی سے سیٹ خالی کروا کے وہاں دوبارہ انتخابات کروائے اور اس طرح امبیڈکر کی رکنیت اور دستور ساز کمیٹی کی چیئرمین شپ بچ گئی۔

آئین مکمل ہونے اور اس کے نفاذ کے بعد ہونے والے پہلے جنرل الیکشن میں امبیڈکر پھر انتخابات ہار گئے۔ اس کے بعد ایک ضمنی انتخاب میں بھی انہوں نے قسمت آزمائی کی، مگر اس میں بھی ان کو شکست ہوئی۔ دوسرے جنرل الیکشن تک وہ دوسری دنیا سدھار چکے تھے۔

ہندوستان میں کامیابی کے ساتھ ہونے والے متواتر انتخابات کا ایک اور پاکستانی کنکشن یہ ہے کہ ووٹنگ کے وقت ووٹر کی انگلی پر جو انمٹ سیاہی لگائی جاتی ہے، اس کے موجد ایک پاکستانی سائنسدان ہیں۔ یہ سیاہی بوگس ووٹوں کی حوصلہ شکنی کرنے اور دوبارہ ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے انگلی پر لگائی جاتی ہے اور کئی دن تک اس کو مٹانا مشکل ہوتا ہے۔

پاکستان کی نیشنل سائنس کونسل کے بانی چیئرمین سلیم الزماں صدیقی اس کے موجد ہیں۔ وہ مسلم لیگ کے اہم رہنما چودھری خلیق الزماں کے برادر تھے اور تقسیم سے قبل کونسل آف سائنٹفک انڈسٹریل ریسرچ (سی ایس آئی آر) میں کام کرتے تھے۔

سلیم الزّماں صدّیقی، فوٹو: wikipedia

سلیم الزّماں صدّیقی، فوٹو: wikipedia

سابق گورنر اور بیورکریٹ گوپال کشن گاندھی، جو مہاتما گاندھی کے پوتے بھی ہیں کا کہنا ہے کہ آئین ساز اسمبلی کے انتخابات سے قبل ہی اس وقت کے برطانوی افسران نے کونسل کے سربراہ شانتی سروپ بھٹناگر سے استدعا کی تھی کہ ایسا کوئی طریقہ ڈھونڈ نکالیں جس سے پتہ چلے کہ کس ووٹر نے اپنا ووٹ کاسٹ کر دیا ہے۔

انہوں نے یہ ذمہ داری اپنے نائب سلیم الزماں کے سپرد کردی۔ بھٹناگر خود بھی ایک معروف کمیسٹ تھے۔ انہوں نے سلیم الزماں کو سلور کلورائیڈ پر تجربات کرنے کی ہدایت دی۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا تھا کہ کمیکل انسانی جلد کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ بتایا جاتا ہے کہ سلیم الزماں نے سلور کلورائیڈ اور سلور برومائیڈ پر مشتمل کوئی نیا محلول تیار کیا اور تجرباتی مراحل میں معلوم ہوا کہ اس کا نشان خاصا دیرپا ہوتا ہے اور یہ جلد کو کوئی نقصا ن بھی نہیں پہنچاتا ہے۔

اس طرح یہ انتخابی سیاہی تیار ہوگئی۔ تقسیم کے بعد سلیم الزماں تو پاکستان چلے گئے، مگر یہ سیاہی ہندوستان میں چھوڑ کرگئے، جہاں 1951میں منعقد ہوئے پہلے جنرل الیکشن میں اس کا استعمال کیا گیا اور تب سے اس کا استعمال ہر انتخابات میں ہوتا ہے۔

پولنگ بوتھ میں جہاں اب بیلٹ پیپر کی جگہ الکٹرانک ووٹنگ مشین ہوتی ہے، اس سیاہی کا ابھی تک کوئی متبادل مل نہیں پایا ہے۔ ہندوستان میں اب اس سیاہی کو بڑے پیمانے پر صنعتی طور پر تیار کیا جاتا ہے اور کئی درجن ممالک کو برآمد کی جاتی ہے۔

دنیا بھر میں 31 ترقی پذیر جمہوری ممالک میں اس سیاہی کو انتخابات کے وقت استعمال کیا جاتا ہے۔ ترکیہ میں بھی 2009 تک اس کا استعمال کیا جاتا تھا۔

گوپال کشن گاندھی نے تجویز دی ہے کہ اس سیاہی کا نام صدیق انک رکھا جائے، تا کہ اس کے موجد کا نام اس کے ساتھ منسلک رہے۔ مگر موجودہ ہندوستانی سیٹ اپ میں شاید ہی ان کی تحویز پر کوئی کان دھرے گا۔

کیا پتہ پاکستانی حکمران اس تجویز کو قبول کرکے اپنے ہاں اس کا نام صدیق اینک رکھیں۔

ہندوستان میں سات مرحلوں پر محیط انتخابات کے مراحل یکم جون کو ختم ہوں گے۔ اس بار انتخابی مہم کی خاص بات ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران نے ابھی تک اکا دکا بیانات کے علاوہ 2019 کے برعکس پاکستان کا زیادہ استعمال نہیں کیا ہے۔

اس بار ان کو امید ہے کہ رام مندر کی تعمیر اور جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور اس ریاست کو دولخت کرنے کے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کو عوام پذیرائی بخش کر ان کو تیسری بار مسند اقتدار تک پہنچائیں گے۔

مگر رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق رام مندر کی تعمیر کا ایشو کچھ زیادہ ووٹروں کو لبھا نہیں پا رہا ہے۔ ہندو ووٹر خوش تو ہیں کہ رام مندر بن گیا، مگر یہ اس کے ووٹ کرنے کی وجہ نہیں بن پا رہا ہے۔ ہاں ان جائزوں کے مطابق جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ ووٹروں پر یقینا اثر انداز ہو رہا ہے۔

چونکہ اس کی کچھ اس طرح پبلسٹی کی گئی ہے کہ عام ووٹر کو لگتا ہے کہ شاید جموں و کشمیر پاکستان کے پاس تھا، اور وزیر اعظم نریندر مودی نے اس کو پاکستان کے قبضہ سے آزاد کراکے ہندوستان میں شامل کروا دیا۔

میرے ایک دوست ممبئی کے مشہور ٹاٹا میموریل کینسر انسٹی ٹیوٹ میں اپنے ایک قریبی رشتہ دار کا علاج کروارہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ایک بزرگ خاتون کو پتہ چلا کہ وہ کشمیر سے آئے ہیں، تو اس نے ان سے ہمدردی جتائی اور ان کو بتایا کہ مودی نے آپ لوگوں کو پاکستان سے نجات دلوائی۔

وہ انتہائی معصومیت کے ساتھ ان کو ناشتہ پانی پیش کرکے، ان کو جتاتی تھی کہ اس کو مودی کا یہ قدم پسند آگیا کہ اس کے کشمیر کے معصوم عوام پر ہو رہی زیادتیوں کو ختم کرواکے ان کو ہندوستان کے ساتھ ملادیا۔

یہ تو ممبئی جیسے شہر کی بڑی بی کا حال ہے، مگر جو ساتھی ملک کے طول و عرض میں انتخابات کی کوریج کے سلسلے میں سفر کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اسی طرح کا پروپیگنڈہ دیہی علاقوں میں بھی وہاٹس ایپ یونیورسٹیوں کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔

ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے، جیسے 1971میں اندرا گاندھی نے پاکستان کو دولخت کرکے بنگلہ دیش بنا لیا تھا۔ عوام کو بتایا جاتا ہے کہ پہلے ان کا کشمیر جانا ناممکنات میں سے تھا، جس کو مودی نے ممکن بنا دیا۔

بی جے پی نے پورے ملک میں 30 ہزار کال سینٹر قائم کیے ہیں، جہاں سے اسی طرح کا سبق ووٹروں کو پڑھایا جا رہا ہے۔ سرینگر کے لال چوک پر کسی کو کھڑا کرکے اس کے ہاتھ میں ترنگا جھنڈا دے کر کیپشن لگائی جاتی ہے کہ کیا یہ اگست 2019 سے پہلے ممکن تھا؟

اسی طرح ایک ایپ سنگھٹن رپورٹنگ اینڈ اینالیسس (سرل) کے ذریعے ہر روز 58 لاکھ افراد کی برین واشنگ کی جا رہی ہے۔ 370 ایسے کال سینٹر پارٹی نے قائم کیے گئے ہیں، جہاں عوا م کو نظریاتی طور پر انگیج کیا جاتا ہے۔

و زیر اعظم تو خود انتخابی تقاریر میں مسلم حکمرانی کے دوران ہندوؤں کے ساتھ ہونے والی مبینہ ناانصافیوں کو اجاگر کر مذہبی پولرائزیشن کو ہوا دے کر ایک طرح سے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف انتقام لینے پر اکساتے ہیں۔ 12 ویں اور 16 ویں صدی کے درمیان ہندوستان پر حملوں، اور 1947 میں ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم، ملکی تاریخ کے اہم واقعات ہیں۔ ہندو قوم پرست انہیں تاریخی صدمات کے طور پر بیان کرتے ہیں، اور ہندو اکثریت میں غصے، خوف اور اضطراب کی داستانیں پیدا کرنے کے لیے ان کا انتخابات میں کھل کر استعمال کیا جا رہا ہے۔

بی جے پی کے جاری کردہ انتخابی منشور میں ہندو مذہب کی قدیم عظمتوں اور اقدار کو بحال کرنے کے علاوہ بھگوان رام اور اس سے منسلک رامائن کے پیغام کو عام کرنے کاوعدہ کیا گیا ہے۔

رام کو بطور ایک آئیکن دنیا کے سامنے پیش کرنا اور ہندوستانی ہندو تہذیب سے متعلق دنیا بھر میں جو وراثتیں ہیں ان کی حیثیت کو بحال کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔

یعنی اس بار عوام سے قدیم ہندوستان کی شان کو بحال کرنے کے وعدے پر ووٹ لئے جار ہے ہیں۔

ہندوستانی سفارت کاری کے اخلاقی آئیکن یا مورال کمپاس کے بطور مہاتما گاندھی اور مہاتما بدھ کو استعمال کیا جاتا تھا۔ بی جے پی کے منشور کو پڑھ کرمحسوس ہوتا ہے کہ ان کی پاور میں واپسی کے بعد یہ جگہ بھگوان رام کو دی جائے گی۔