خبریں

گجرات: احمد آباد میں پیرانہ درگاہ میں قبریں مسمار کرنے پر کشیدگی، 37 گرفتار

پیرانہ درگاہ طویل عرصے سے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے مقدس جگہ رہی ہے۔ اس کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ریاست میں 7 مئی کو ووٹنگ کے تیسرے مرحلے کی تکمیل کے بعد اسی رات وہاں دو گروپوں کے درمیان جھڑپ ہوگئی تھی، جس میں پتھراؤ اور توڑ پھوڑ کے دوران کچھ قبروں اور مورتیوں کو نقصان پہنچا۔

(تصویر بہ شکریہ: X/@tarushi_aswani)

(تصویر بہ شکریہ: X/@tarushi_aswani)

نئی دہلی: احمد آباد پولیس نے جمعرات کو 600 سالہ پرانی پیرانہ درگاہ پر پتھراؤ اور توڑ پھوڑ میں ملوث ہونے کے الزام میں 37 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق، ریاست میں 7 مئی کو ووٹنگ کے تیسرے مرحلے کی تکمیل کے بعد رات کو دو گروپوں میں جھڑپ  ہوگئی تھی۔ پیرانہ درگاہ ہندو اور مسلمان، دونوں کے لیے مقدس جگہ ہے، جسے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

احمد آباد (دیہی) کے پولیس سپرنٹنڈنٹ اوم پرکاش جاٹ کے مطابق، کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب ایک گروپ نے الزام لگایا کہ قبروں میں توڑ پھوڑ کے علاوہ مزار کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ پتھراؤ اور توڑ پھوڑ کے دوران کچھ قبروں اور مورتیوں کو نقصان پہنچا اور تقریباً چھ پولیس اہلکاروں کو معمولی چوٹیں بھی آئیں۔

پیر امام شاہ بابا ٹرسٹ کی نگرانی میں چلائے جا رہے صوفی بزرگ پیر امام شاہ بابا کی درگاہ کے احاطے میں کے ان نام سے منسوب ایک مسجد ہے۔جس میں ان کے خاندان کی قبریں بھی ہیں۔ پیرانہ درگاہ طویل عرصے سے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے مقدس جگہ رہی ہے۔ اس کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

تاہم، پچھلے کچھ وقتوں سے درگاہ کی کی پہچان کو لے کر ہوئے تنازعہ کی وجہ سے حالات کشیدہ تھے۔

گزشتہ سال اگست میں پیر امام شاہ بابا کے ہندو پیروکاروں نے صوفی بزرگ کا نام بدل کر ‘سدگرو ہنس تیجی مہاراج’ کر دیا تھا۔ اس قدم پر صوفی کے مسلمان وارثین نے سخت اعتراض کیا تھا، جن کا تعلق مقامی سید برادری سے ہے۔

وہ ہندوؤں پر درگاہ کے ‘بھگواکرن’ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے تھے۔ ہندو ٹرسٹیوں نے دلیل دی تھی کہ ‘ہنس تیجی مہاراج’ کا نام 4000 سال سے زیادہ عرصے سے دھرم گرنتھوں میں سنت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

کورٹ میں  چل رہا ہےکیس

قابل ذکر ہے کہ 30 جنوری 2022 کو تقریباً 200 مزدور پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ مبینہ طور پر کمپلیکس پہنچے اور درگاہ، قبرستان اور مسجد کو تقسیم کرتے ہوئے کمپلیکس میں ایک دیوار کی تعمیر شروع کر دی۔

امام شاہ بابا روضہ ٹرسٹ کے مسلم ٹرسٹیوں نے درگاہ کو ہندو مذہبی مقام میں تبدیل کرنے کی مبینہ کوششوں پر اعتراض کرتے ہوئے حکام کے سامنے ایک درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ درگاہ کو مندر میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مسلم ٹرسٹیوں نے بتایا کہ درگاہ کے احاطے میں دیوتاؤں کے پوسٹر چسپاں کیے گئے ہیں اور ایک ہورڈنگ بھی لگائی گئی ہے، جس پر لکھا ہے – اوم شری سدگرو ہنس تیجی مہاراج اکھنڈ دیویہ جیوتی مندر۔

یہ تنازعہ 2022 میں گجرات ہائی کورٹ تک پہنچا، جہاں سنی عوامی فورم نے ‘ عبادت گاہ ایکٹ، 1991’ کا حوالہ دیتے ہوئے مفاد عامہ کی عرضی (پی آئی ایل) دائر کی۔ عرضی میں الزام لگایا گیا کہ درگاہ کو ٹرسٹ کے منصوبے اور ایکٹ کی دفعات کے خلاف مورتیوں کی تنصیب کے ساتھ مندر میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

امام شاہ بابا روضہ ٹرسٹ کی منتظمہ کمیٹی میں اکثریت رکھنے والے ست پنتھی (ہندو) ٹرسٹیوں پر مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق سے محروم کرنے اور پیر امام شاہ بابا کو ایک ہندو سنت کے طور پر پیش کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔