دیگر رپورٹس بھی بتاتی ہیں کہ اگنی پتھ اسکیم کے تحت منتخب ہونے والے بہت سے نوجوانوں نے ٹریننگ کے درمیان ہی نوکری چھوڑ دی تھی۔ یہ نوجوان فوج کی نوکری میں جانا تو چاہتے ہیں، لیکن اگنی پتھ نے ان کے جذبے پر پانی پھیر دیا ہے۔
سارن/ آرا/ پٹنہ (بہار): اگنی پتھ اسکیم کے لاگو ہونے کے بعد پہلی بھرتی میں 23 سالہ انوپ یادو کو تقرری نامہ مل گیا تھا۔ لیکن اہل خانہ کی ہدایت پر انہوں نے اسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا اور فوج کی نوکری پر کبھی نہیں گئے۔
فوج میں بھرتی ہونا میرا اور میرے والدین کا خواب تھا۔ اس لیے میں نے ساتویں کلاس سے ہی فوج کی تیاری شروع کر دی تھی۔ لیکن جب اگنی پتھ کے تحت نوکری لگی، تو والد نے کہا کہ چھ سال کی تیاری کے بعد چار سال کی نوکری کا کوئی مطلب نہیں ہے،’ انوپ نے کہا۔
گریجویشن کر رہے انوپ بہار اور جھارکھنڈ پولیس میں سب انسپکٹر (ایس آئی) کی بھرتی کی تیاری کر رہے ہیں اور اپنے مستقبل کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں۔
‘اگر اگنی پتھ اسکیم نہ آئی ہوتی تو میں فوج میں خدمات انجام دے رہا ہوتا کیونکہ میں دوڑنے میں بہت اچھا تھا۔’ وہ سال 2022 میں بحالی کی دوڑ میں 220 بچوں میں پانچویں نمبر پر تھے۔ ‘میری زندگی بدل چکی ہوتی، لیکن اگنی پتھ نے میرا مستقبل غیر یقینی بنا دیا،’ وہ کہتے ہیں۔
بہار کے بانکا ضلع کے رہنے والے انوپ یادو کی اگنی پتھ اسکیم میں نوکری پکی ہونے کی تصدیق ان کے ٹرینر اور دیگر ساتھیوں (نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر) نے بھی دی وائر سے کی۔
ان کے ٹرینر رہے مونو رنجن نے دی وائر کو بتایا، ‘انوپ واحد امیدوار نہیں ہے، جس نے اگنی پتھ اسکیم کی وجہ سے فوج کی نوکری چھوڑ دی ہے۔ کئی ایسے امیدوار ہیں جو تقرری حاصل کرنے کے بعد بھی اگنی ویر بننے نہیں گئے اور اب کہیں اور نوکری کی تیاری کر رہے ہیں۔’
سال 2023 کی ایک میڈیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگنی پتھ اسکیم کے تحت نوکریاں حاصل کرنے والے بہت سے نوجوانوں نے ٹریننگ کے درمیان ہی نوکری چھوڑ دی تھی۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق، ایک فوجی افسر نے بتایا کہ اگنی ویر کے پہلے بیچ میں 50 سے زائد جوان ٹریننگ درمیان میں ہی چھوڑ کر چلے گئے۔
جذبہ نہیں، مجبوری
تاہم، کچھ نوجوان اب بھی اگنی پتھ کی طرف امید لگائے ہوئے ہیں، لیکن ان کے لیے یہ جذبہ نہیں مجبوری ہے۔
‘فوج میں اب سوکھ (شوق) سے تھورے (تھوڑے ) جاتا کیہو(کوئی)، مجبوری میں جاتا (اب فوج میں کوئی شوق سے تھوڑے جا رہا ہے، مجبوری میں جا رہا ہے)’۔
یہ تبصرہ صوبے کے سارن ضلع کے دھرم پورہ گاؤں میں داخل ہوتے ہی آم کے باغ میں آرام کر رہے ایک ادھیڑ شخص نے کیا۔ اگنی پتھ اسکیم کے اعلان کے بعد سارن میں سب سے بڑا اور پہلا مظاہرہ ‘فوجیوں کے گاؤں ‘ کے نام سے معروف دھرم پورہ اور اس کے آس پاس کے گاؤں کے فوجی امیدواروں نے ہی کیا تھا۔
اس شخص نے تو گاؤں کے نوجوانوں کے فوج کے تئیں بدلتے ہوئے رویے پر تبصرہ کر دیا، لیکن نوجوان بولنے سے انکار کرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر وہ اس پر بات کرتے ہیں تو پولیس مظاہرین کے طور پر ان کی نشاندہی کر سکتی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں کے راجپوت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ووٹر ہیں، اس لیے اگنی پتھ اسکیم سے ناراض ہونے کے باوجود وہ بی جے پی کے خلاف بات نہیں کرنا چاہتے۔ ایک راجپوت نوجوان رمیش (تبدیل شدہ نام) نے کہا کہ اگنی پتھ اسکیم نے اس گاؤں کے 80 فیصد نوجوانوں کے اندر فوج میں بھرتی ہونے کا جوش ختم کر دیا ہے۔
گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ اگنی پتھ اسکیم سے پہلے ہر سال اس گاؤں کے کم از کم 10 لوگ فوج میں بھرتی ہوتے تھے، لیکن پچھلے دو سالوں میں صرف 3-4 لوگ ہی فوج میں شامل ہوئے ہیں۔ ‘گاؤں کے نوجوانوں میں اب فوج میں بھرتی ہونے کا جوش و جنون نہیں رہا۔ ایک فوجی گاؤں کے طور پر دھرم پورہ کی منفرد شناخت آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی،’ رمیش نے بتایا۔
شادی اور سماجی بحران
بہار میں نوجوانوں کی شادی کا رشتہ ان کی نوکری پر منحصر کرتا ہے۔ لڑکیوں کے والدین کی پہلی ترجیح سرکاری نوکری والے نوجوان ہوتے ہیں اور اگر لڑکا فوج میں ہو تو اور بھی اچھا۔ ‘لیکن، اگنی پتھ اسکیم کے تحت فوج میں جانے والے نوجوانوں پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے،’ رمیش کہتے ہیں، ‘اگنی پتھ اسکیم کے تحت فوج میں شامل ہونے والے نوجوانوں کو شادی کے رشتے نہیں آ رہے۔ لڑکی والے کہتے ہیں کہ چار سال کی نوکری والے سے بیٹی کی شادی نہیں کر سکتے۔’
دھرم پورہ سے ملحق بریجا گاؤں کے یادو برادری کے نوجوانوں نے اگنی پتھ اسکیم پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ 21 سالہ امت کمار یادو گزشتہ چار سالوں سے فوج کے لیے تیاری کر رہے تھے۔ اس سال ان کی عمر کی حد ختم ہو گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘پہلے جب گاؤں کے نوجوان فوج میں بھرتی ہونے کے بعد واپس آتے تھے تو لوگ انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، لیکن اب گاؤں والے طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ دیکھو اگنی ویر آرہا ہے۔ سماج پہلے کی طرح فوج میں بھرتی ہونے والے نوجوانوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ اور تو اور لوگ اگنی ویر کو فوجی ماننے سے ہی انکار کرتے ہیں۔’
والدین کے حوصلے بھی ٹوٹ چکے ہیں، وہ اب فوج کی تیاری کرنے کی بات کہنے پر خوش نہیں ہوتے۔ امت پوچھتے ہیں، ‘آپ ہی بتائیے کہ لوگ 15 سال نوکری کرنے والے کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے یا 4 سال کی نوکری والے کو؟’
قریب ہی بیٹھے ایک ادھیڑ کہتے ہیں، ‘چر سلوا نوکری کے کیہو کچھ نہ بوجھیلا، بولے لا تے ت اگنی ویر باڑے (چار سال کی نوکری والے کوئی کچھ نہیں سمجھتا، بولتا ہے کہ تم اگنی ویر والے ہو)۔’
اسی گاؤں کے راہل کمار (19) فوج کی تیاری سے زیادہ گریجویشن کرنے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘اب فوج میں شامل ہونا ترجیحات میں نہیں ہے۔’
بریجا گاؤں میں ایک بڑا گراؤنڈ ہے۔ راہل ہمیں گراؤنڈ پر لے جاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس میدان میں صبح دوڑنے کے لیے تقریباً 100 لوگ آتے تھے، لیکن آج ان کی تعداد گھٹ کر 20 سے بھی کم ہو گئی ہے۔
سمت یادو (20) کہتے ہیں، ‘بہار میں پہلے کہا جاتا تھا کہ ایک سرکاری نوکری ایک خاندان کی سات نسلوں کی زندگی کو بہتر بنا دیتی ہے۔ لیکن، اگنی پتھ نے نوجوانوں کو پوری طرح سے مایوس کردیا ہے۔’
پیریوڈک لیبر فورس سروے کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، بہار میں 15 سے 29 سال کی عمر کے لوگوں میں بے روزگاری کی شرح 18.7 فیصد ہے جبکہ قومی سطح پر یہ شرح 16.5 فیصد ہے۔
بہار میں پرائیویٹ سیکٹر میں نوکریوں کے بہت کم مواقع کی وجہ سے یہاں کے نوجوان سرکاری نوکریوں کی تیاری کرتے ہیں۔ دی ہندو کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ 2022 تک بہار میں ہر سال فوج میں بھرتی کی ریلی ہوا کرتی تھی اور 2022 سے پہلے کے تین سالوں میں ریاست سے 10000 فوجی بھرتی کیے گئے تھے۔ لہذا، 2022 میں اگنی پتھ اسکیم کی سب سے زیادہ پرتشدد مخالفت صرف بہار میں دیکھی گئی ۔
بکسر، سارن، بھوجپور، مظفر پور، بیگوسرائے، پٹنہ اور دیگر اضلاع کے ہزاروں نوجوانوں نے زبردست مظاہرہ کیا۔ کئی ٹرینوں کو جلا دیا گیا اور ریل اور سڑک جام کر دیے گئے۔ پولیس نے ان مظاہروں کے حوالے سے 145 ایف آئی آر درج کی تھیں اور 804 افراد کو گرفتار کیا تھا ۔
پرتشدد مظاہرے کے گواہ بنے بھوجپور ضلع کے آرا شہر میں اگنی پتھ کے حوالے سے کوئی خاص ہلچل نہیں ہے۔ شہر کا جین کالج گراؤنڈ فوج میں نوکری کی خواہش رکھنے والے نوجوانوں سے کھچا کھچ بھرا رہتا تھا، لیکن 28 اپریل کی صبح گراؤنڈ نسبتاً خالی تھا۔ گراؤنڈ کے ایک کونے میں دو درجن کے قریب نوجوان مرد و خواتین فزیکل ٹریننگ سے فارغ ہو کر گھر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ انہیں ریٹائرڈ فوجی چندن پانڈے ٹریننگ دیتے ہیں۔
چندن پانڈے کہتے ہیں، ‘بہار میں بے روزگاری ہے اور ایسے میں آپ فوج کی نوکری کو چار سال کر دیں گے، تو نوجوان سڑک پر اتریں گے ہی۔ چونکہ یہاں سے بہت زیادہ نقل مکانی ہوتی ہے، زیادہ تر بچوں کے والد باہر تھے، اس لیے بچے بے لگام ہو کر مظاہرے میں شامل ہوئے۔’
وہ گزشتہ 4 سالوں سے نوجوانوں اور خواتین کو فوج میں بھرتی ہونے کی تربیت دے رہے ہیں، وہ کہتے ہیں، ‘پہلے ہمارے ادارے میں جتنے بچے تربیت کے لیے آتے تھے، ان میں غضب کا جذبہ ہوتا تھا۔ ٹانگوں میں پھوڑےآجا تے تھے، منہ سے خون آ جاتاتھا، لیکن تیاری میں لگے رہتے تھے۔ اب جو بچے آتے ہیں، ان میں جوش ہوتا ہی نہیں ہے۔’
کیا اگنی پتھ انتخابات کو متاثر کرے گا؟
اگنی پتھ اسکیم کو لے کر نوجوانوں اور ان کے والدین میں ناراضگی ہے، لیکن ان کا غصہ کس صورت میں نکلے گا اس کو لے کر مختلف ذاتوں کا ردعمل مختلف ہے۔
دھرم پورہ میں اگنی پتھ اسکیم سے ناراضگی کے باوجود راجپوت برادری بی جے پی کے لیے ہمدرد نظر آتی ہے۔ اس کی ایک جھلک آم کے باغ میں بیٹھے درمیانی عمر کے لوگوں کی بات چیت میں بھی مل جاتی ہے، جنہوں نے بی جے پی کے موجودہ رکن پارلیامنٹ جناردن سنگھ سگریوال کے بارے میں شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ نریندر مودی کے لیے بی جے پی کو ووٹ دیں گے نہ کہ سگریوال کے لیے۔
بریجا گاؤں کے یادو نوجوان بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کی بات کرتے ہیں، جبکہ چندن پانڈے کا کہنا ہے کہ اس اسکیم سے ناراضگی کی وجہ سے نوجوان ووٹ ڈالنے میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ‘جب نوجوان اگنی پتھ اسکیم کے خلاف احتجاج میں سڑکوں پر تھے، نہ تو راہل گاندھی اور نہ ہی تیجسوی یادو ان کے ساتھ کھڑے ہوئے، لیکن اب انتخابات میں وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ان کی حکومت بنی تو وہ اس اسکیم کو رد کردیں گے۔ نوجوان اب مایوس ہیں اور کسی کو ووٹ نہیں دینا چاہتے۔’
دھرم پورہ اور بریجا گاؤں مہاراج گنج لوک سبھا حلقہ میں آتے ہیں، جہاں سے بی جے پی نے دو بار کے ایم پی جناردن سنگھ سگریوال کو ٹکٹ دیا ہے اور انڈیا الائنس کی طرف سے کانگریس بہار کے صدر اکھلیش سنگھ کے بیٹے آکاش سنگھ میدان میں ہیں۔
اس لوک سبھا حلقے میں راجپوت اور بھومیہاروں کی زیادہ آبادی ہے، جو انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ 1957 سے اب تک ہونے والے تمام انتخابات میں راجپوت ذات کے لیڈروں نے 13 بار اور بھومیہار ذات کے لیڈروں نے تین بار کامیابی حاصل کی ہے۔ دونوں ذاتوں نے گزشتہ دو انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ دیا تھا لیکن اس بار وہ موجودہ ایم پی سے ناراض ہیں۔
وہیں بی جے پی نے آرہ لوک سبھا حلقہ سے دو بار کے ایم پی رہے بیوروکریٹ آر کے سنگھ پر ایک بار پھر اعتماد ظاہر کیا ہے۔ سی پی آئی (ایم ایل) لبریشن ایم ایل اے سداما پرساد کو انڈیا الائنس نے ٹکٹ دیا ہے۔
آرا سیٹ پر یادو اور راجپوت ووٹر فیصلہ کن کردار کرتے ہیں۔ بی جے پی راجپوت اور غیر یادو او بی سی اور ای بی سی ووٹروں پر نظریں جمائے ہوئے ہے، جبکہ سی پی آئی (ایم ایل) لبریشن یادو اور دلت ووٹروں کے بھروسے میدان میں ہے۔
(امیش کمار رائے آزاد صحافی ہیں۔)
( اس سیریز کی تمام رپورٹس پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )
Categories: الیکشن نامہ, گراؤنڈ رپورٹ