الیکشن نامہ

دہلی لوک سبھا انتخابات: کیا ’انڈیا‘ الائنس بی جے پی کی جیت کی مہم کو روک پائے گا؟

اگرچہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی قومی راجدھانی میں ایک ساتھ ہیں، لیکن کئی پارلیامانی حلقوں کا دورہ کرنے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ لوگ اروند کیجریوال اور ان کی پارٹی کو ہی بی جے پی کے لیے اہم چیلنج کے طور پر دیکھتے ہیں۔ دہلی میں 25 مئی کو ووٹنگ ہونی ہے۔

اروند کیجریوال چاندنی چوک لوک سبھا سیٹ سے کانگریس امیدوار جے پی اگروال کے لیے مہم چلاتے ہوئے۔ (تصویر بہ شکریہ: AAP/Facebook)

اروند کیجریوال چاندنی چوک لوک سبھا سیٹ سے کانگریس امیدوار جے پی اگروال کے لیے مہم چلاتے ہوئے۔ (تصویر بہ شکریہ: AAP/Facebook)

نئی دہلی: گزشتہ کچھ دنوں میں دہلی کا انتخابی منظرنامہ تیزی سے بدلا ہے۔ سب سے پہلے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو رہا کیا گیا اور عام آدمی پارٹی کے اندر خوشی کا ماحول بنا، اس کے فوراً بعد سواتی مالیوال کے واقعہ نے پارٹی پر سوال کھڑے کر دیے۔

اس کے باوجود یہ دلچسپ ہے کہ دہلی کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کیجریوال کو ‘انڈیا’ الائنس کا نمایاں چہرہ مانتی ہے۔ دی وائر نے دارالحکومت کے کئی پارلیامانی حلقوں کا دورہ کیا، جس میں یہ سامنے آیا کہ اگرچہ دہلی میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کا اتحاد ہو گیا ہے، لیکن راجدھانی کے لوگ کیجریوال اور ان کی پارٹی کو ہی بی جے پی کے لیے اہم چیلنج کے طور پر دیکھتے ہیں۔

سیلم پور کی رہنے والی سونیا کہتی ہیں، ‘کیجریوال کی طرف سے جو بھی کھڑا ہوگا، ہمارا ووٹ اسی کو جائے گا۔’

سونیا نے مزید کہا، ‘کجریوال غریبوں کے لیے کام کرتے ہیں، انھوں نے خواتین کے لیے بس سروس مفت کر دی ، بجلی اور پانی فری کر  دیا، غریبوں کے مفاد میں اور بھی بہت سے کام کیے ہیں۔ مودی کے راج میں مہنگائی بڑھ گئی ہے، بے روزگاری بڑھ گئی ہے، اس لیے میرا ووٹ کیجریوال کو جائے گا۔’

سونیا (تصویر: شروتی شرما)

سونیا (تصویر: شروتی شرما)

سیلم پور کی نجمہ نے بھی کہا کہ ان کا ووٹ کیجریوال کو جائے گا۔ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ بھی نہیں جانتی تھیں کہ کیجریوال کی پارٹی اس سیٹ پر الیکشن نہیں لڑ رہی ہے، لیکن انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ کیجریوال جس کے لیے انتخابی مہم چلائیں گے وہ اسے ووٹ دیں گی۔

سیلم پور شمال—مشرقی دہلی کے پارلیامانی حلقے کے تحت آتا ہے، جہاں سے جے این یو کے سابق اسٹوڈنٹ لیڈر کنہیا کمار انتخاب لڑ رہے ہیں۔ وہیں ، بی جے پی کی طرف سے یہاں سے دو بار ایم پی رہ چکے منوج تیواری میدان میں ہیں۔

‘انڈیا’ لائنس سے دہلی کی بقیہ نشستوں کے لیے امیدواروں کے نام درج ذیل ہیں—

چاندنی چوک – کانگریس – جے پی اگروال

نئی دہلی – عآپ – سومناتھ بھارتی

مغربی دہلی – عآپ – مہابل مشرا

جنوبی دہلی – عآپ – سہیرام پہلوان

مشرقی دہلی – عآپ – کلدیپ کمار

شمال—مغربی دہلی – کانگریس – ادت راج

شمال-مشرقی دہلی کے رہنے والے کرشن کمار بھی ان انتخابات کو کیجریوال بمقابلہ مودی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس کے کنہیا کمار کو یہاں سے ٹکٹ ملنے کے باوجود لوگ کیجریوال کو اہم چہرے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

دی وائر نے ایسے کئی  دوسرے ووٹروں سے ملاقات کی جو نہیں جانتے تھے کہ ان کے علاقے میں ‘انڈیا’ الائنس سے کس پارٹی کا امیدوار کھڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں کیجریوال ہوں گے وہیں ان کا ووٹ جائے گا۔

آر کے پورم میں اپنا کاروبار چلانے والے جتیندر چودھری کا بھی کہنا ہے کہ ان کا ووٹ عام آدمی پارٹی کو جائے گا۔

قابل ذکر ہے کہ عام آدمی پارٹی اب تک کانگریس کی مخالفت کرتی رہی ہے، لیکن اس الیکشن میں دونوں پارٹیاں  ساتھ آ گئی ہیں۔

اس اتحاد پر عام آدمی پارٹی کے کارکن انجنی کمار مشرا کہتے ہیں، ‘آپس میں لڑنے سے بہتر ہے کہ متحد ہو کر لڑیں۔ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی ہمیشہ دوسرے تیسرے نمبر پر رہی ہیں۔ اس بار دونوں ساتھ ہیں اس لیے امید ہے کہ پہلے نمبر پر آئیں گے۔’

اتحاد کے معاملے پر پارٹی کی خواتین کارکنان کا کہنا ہے کہ جب جمہوریت اور آئین کی حفاظت کی بات آتی ہے تو اس میں یقین رکھنے والے ہر ہندوستانی کو متحد ہوکر لڑنا ہی پڑے گا۔

سیلم پور کے کپڑا بازار میں لگے بھگوا جھنڈے۔ (تصویر: شروتی شرما)

سیلم پور کے کپڑا بازار میں لگے بھگوا جھنڈے۔ (تصویر: شروتی شرما)

سواتی مالیوال ایپی سوڈ اور عام آدمی پارٹی

دہلی ویمن کمیشن کی سابق چیئرپرسن اور عام آدمی پارٹی کی راجیہ سبھا کی رکن سواتی مالیوال نے سی ایم کی رہائش گاہ پر کیجریوال کے پرسنل سکریٹری بیبھو کمار پر مار پیٹ کا سنگین الزام لگایا ہے۔ اس کے بعد سے دارالحکومت دہلی کی سیاست یہاں کے موسم کی طرح گرم ہو گئی ہے۔

دی وائر نے اس معاملے کے زمینی اثرات کو سمجھنے کے لیے کئی لوگوں سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ کیا سواتی مالیوال کے الزامات کے بعد دہلی کے ووٹر عام آدمی پارٹی سے دور ہو رہے ہیں؟

مالویہ نگر کے رہنے والے انجینئر راکیش کمار کہتے ہیں، ‘اس طرح کے معاملات کسی بھی شخص کی شبیہ کو داغدار کرتے ہیں۔ اروند کیجریوال جیل سے باہر آنے کے بعد فرنٹ فٹ پر کھیل رہے تھے، لیکن ان الزامات نے انہیں پیچھے دھکیل دیا ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا، ‘اگرچہ میں ان الزامات پر آنکھیں بند کرکے یقین نہیں کروں گا، لیکن میں انتظار کروں گا کہ اس کیس میں مزید کیا پیش رفت ہوتی ہے۔ انتخابات قریب ہیں، اپوزیشن جماعتیں انتخابی برتری حاصل کرنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے اپنا سکتی ہیں۔’

اس کے برعکس دہلی یونیورسٹی کی طالبہ گارگی کا کہنا ہے کہ ‘کیجریوال نے سواتی مالیوال کے ساتھ جو کیا وہ بہت غلط ہے۔ اس کے بعد پوری عام آدمی پارٹی سواتی مالیوال کو جھوٹا قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں ‘انڈیا’ اتحاد سے یہ سوال پوچھنا چاہوں گی کہ کیا آپ حکومت میں آنے کے بعد خواتین کے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں گے؟ تحقیقات میں سواتی مالیوال کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ اور کیا ثبوت چاہیے؟’

اسی طرح گول مارکیٹ میں واقع کلیوا ریستوران میں کھانا کھانے والے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اس واقعہ سے اروند کیجریوال کی شبیہ کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ کیجریوال کی جیل سے رہائی کے بعد انتخابات ‘انڈیا’ الائنس کی طرف جا رہے تھے، جو اب تبدیل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ دی وائر کوکئی ایسے لوگ بھی ملے جو اس ایپی سوڈ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ جس مسئلے کے بارے میں لوگ جانتے تک نہیں وہ انتخابات کے نتائج کو متاثر نہیں کر سکتے۔

شاہدرہ کے رہنے والے آٹو رکشہ ڈرائیور سریندر سنگھ نے بتایا کہ انہیں اس معاملے کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔ ‘اروند کیجریوال دہلی کے بڑے لیڈر ہیں۔ نریندر مودی چاہے انہیں پھنسانے کی کتنی ہی کوشش کریں، میرا اور میرے خاندان کا ووٹ اروند کیجریوال کو ہی جائے گا۔ کیجریوال غریبوں کے مسیحا ہیں۔’

اب یہ دیکھنا دلچسپ  ہوگا کہ آنے والی 25 تاریخ کو عوام کا جھکاؤ کس کی طرف ہوتا ہے۔ کیا ضمانت پر رہا ہوئے اروند کیجریوال عوامی ہمدردی حاصل کر پائیں گے یا سواتی مالیوال کے واقعہ کی وجہ سے ‘انڈیا’ الائنس کو ووٹوں کا نقصان ہو گا۔

(سونیا یادو کے ان پٹ کے ساتھ)