الیکشن نامہ

لوک سبھا انتخابات 2024 میں خواتین امیدوار 10 فیصد سے بھی کم

لوک سبھا انتخابات 2024 کے کل 8337 امیدواروں میں سے صرف 797 خواتین ہیں، جو سات مرحلوں میں لڑنے والے کل امیدواروں کا محض 9.5 فیصد ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر/تصویر: پی ٹی آئی)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر/تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ہندوستان میں انتخابات اور سیاسی جماعتوں پر نظر رکھنے والی تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کی جانب سے شیئر کیے  گئے اعداد و شمار کے مطابق، موجودہ لوک سبھا انتخابات میں خواتین امیدواروں کی تعداد 10 فیصد سے بھی کم ہے۔

لوک سبھا انتخابات 2024 کے کل 8337 امیدواروں میں سے صرف 797 خواتین ہیں، جو سات مرحلوں میں لڑنے والے کل امیدواروں کا محض 9.5 فیصد ہے۔

ستمبر 2023 میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کو 33 فیصد ریزرویشن دینے کے لیے مرکزی حکومت نے پارلیامنٹ کے خصوصی اجلاس میں ناری شکتی وندن بل کے نام سے ایک قانون بنایا تھا۔ قانون بننے کے بعد سے یہ پہلا عام انتخاب ہے۔ تاہم، قانون ابھی لاگو نہیں ہوا۔

ہر مرحلے کا ایک جیسا حال

انتخابات کے پہلے مرحلے میں 1618 امیدواروں میں سے صرف 135 خواتین تھیں۔ یہ پیٹرن بعد کے مراحل میں بھی جاری رہا، جس میں خواتین امیدواروں کی تعداد امیدواروں کی کل تعداد انتہائی کم رہی۔

دوسرے مرحلے میں امیدواروں کی کل تعداد 1192 تھی جن میں سے 100 خواتین تھیں۔

تیسرے مرحلے میں 1352 امیدوار تھے جن میں سے 123 خواتین امیدوار تھیں۔

چوتھے مرحلے میں 1710 امیدواروں میں سے 170 خواتین تھیں۔

پانچویں مرحلے میں سب سے کم 695 امیدوار تھے جن میں سے 82 خواتین تھیں۔ چھٹے مرحلے میں 869 امیدواروں میں سے 92 خواتین ہوں گی۔

وہیں، ساتویں اور آخری مرحلے میں 904 امیدوار ہوں گے جن میں صرف 95 خواتین ہوں گی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کی تشویش

میڈیا رپورٹ کے مطابق، سیاسی تجزیہ کاروں نے انتخابات میں اتنے بڑے پیمانے پر صنفی عدم توازن پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ تجزیہ کاروں نے سوال اٹھایا ہے کہ ‘سیاسی جماعتیں خواتین کو ٹکٹ دینے کے بجائے خواتین ریزرویشن بل کے نفاذ کا انتظار کیوں کر رہی ہیں؟’

دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر سشیلا راماسوامی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو خواتین کی امیدواری کو بڑھاوا دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘سیاسی جماعتوں کو زیادہ سرگرم ہونا چاہیے تھا اور زیادہ خواتین امیدوار کو میدان میں اتارنا چاہیے تھا۔’

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد انصاری نے کہا، ‘ہندوستان کے ووٹروں میں تقریباً نصف خواتین ہیں، لیکن امیدواروں میں ان کی کم نمائندگی ان مسائل پر سوال اٹھاتی ہے جو خواتین کی سیاسی میدان میں مکمل شرکت میں رکاوٹ ہیں۔’

انہوں نے زور دے کر کہا، ‘سیاسی جماعتوں کو امیدواروں کے انتخاب میں صنفی توازن کو ترجیح دینی چاہیے اور خواتین امیدواروں کو خاطرخواہ حمایت دینی چاہیے۔

اس کے ساتھ ہی اے ڈی آر رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ لوک سبھا 2024 کے کل 8337 امیدواروں میں سے 1644 کے خلاف مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔ ان میں سے 1188 کے خلاف سنگین مجرمانہ الزام ہیں، جن میں قتل، اقدام قتل، خواتین کے خلاف جرائم اور ہیٹ اسپیچ سے متعلق الزامات بھی شامل ہیں۔