چونکہ مودی نے یہ الیکشن صرف اپنے نام پر لڑا تھا، صرف اپنے لیے ووٹ مانگے تھے، بی جے پی کے منشور کا نام بھی ‘مودی کی گارنٹی’ تھا۔ یہ ہار بھی صرف مودی کی ہے۔ ان کے پاس اگلی حکومت کی سربراہی کا کوئی حق نہیں بچا ہے۔
یہ ایودھیا کا سوریہ تلک ہے۔ یہ مندر کی گھنونی سیاست کی نفی ہے۔ یہ اتر پردیش کے لوگوں کا نریندر مودی کے نام پیغام ہے۔
جس ریاست نے مودی کو گزشتہ دو انتخابات میں دہلی بھیجا تھا، اسی ریاست نے مودی کو اپنی زندگی کی بدترین انتخابی شکست کا مزہ چکھا دیا ہے۔
چونکہ مودی نے یہ الیکشن صرف اپنے نام پر لڑا تھا، صرف اپنے لیے ووٹ مانگے تھے، بی جے پی کے منشور کا نام بھی ‘مودی کی گارنٹی’ تھا۔ یہ ہار بھی صرف مودی کی ہے۔ اب ان کے پاس اگلی حکومت کا سربراہ بننے کا کوئی حق نہیں ہے۔
اگر وہ سیاسی اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہیں، تو انہیں وارانسی کے رکن پارلیامنٹ رہنے پر ہی قناعت کرنی پڑےگی۔
مودی کی جیت کا سفر دس سال پہلے اتر پردیش سے شروع ہوا تھا، اور اتر پردیش میں ہی اس کا اختتام ہوگیا۔
اتر پردیش نے مودی کو کیوں مسترد کیا؟
اس شکست کو کئی طرح سے دیکھا جا سکتا ہے۔
پہلا، اسمرتی ایرانی، کوشل کشور، مہندر ناتھ پانڈے، اجئے مشرا اور سنجیو بالیان جیسے ان کے وزراء ہار گئے۔
دوسرا، امیٹھی سیٹ پر جب کانگریس اپنے امیدوار کے اعلان میں تاخیر کر رہی تھی، مودی نے راہل گاندھی کو طنز کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا، ‘ڈرو مت’۔ کانگریس نے بالکل آخری لمحے میں کشوری لال شرما کو نامزد کیا تھا۔ انہوں نے بی جے پی لیڈر اسمرتی ایرانی کو عبرتناک شکست دی۔
تیسرا، مودی خود 152513 ووٹوں سے جیتے ہیں۔ یہ مارجن کشوری لال کی 167196 ووٹوں سے ہوئی جیت سے بھی کم ہے۔
چوتھا، جس ایودھیا کے نام پر بی جے پی نے ہندوتوا کی تحریک شروع کی، اور مودی نے جہاں اس سال جنوری میں آدھے ادھورے مندر کا افتتاح کر دیا، اس لوک سبھا حلقے میں بی جے پی کو ہار کا منھ دیکھنا پڑا ہے۔
اس شکست کی بہت سی وجوہات ہیں۔ گزشتہ ماہ دی وائر نے مغربی اتر پردیش کے کچھ اہم علاقوں کا دورہ کیا تھا اور لکھا تھا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بی جے پی کے کارکن وزیر اعظم سے ناراض ہیں ۔ وہ اس قدر ناخوش ہیں کہ پارٹی کی انتخابی مہم تک کے لیے نہیں گئے۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے کئی روایتی ووٹر بھی پارٹی کی موجودہ انتخابی مہم سے خوش نہیں ہیں۔ ہندوتوا سیاست کے تئیں ان کے اندر جوش نظر نہیں آ رہا ہے۔ وہ اب حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔
سماج وادی پارٹی کی اسٹریٹجک کامیابی
اگر یہ بی جے پی کی شکست ہے تو یہ اکھلیش یادو کی انتخابی حکمت عملی کی کامیابی بھی ہے۔
حال ہی میں دی وائر نے لکھا تھا کہ اس بار ایس پی نے ٹکٹوں کی تقسیم میں ذات پات کی ایک دانشمندانہ ایکویشن بنائی ہے ۔ اب تک یہ مسلمانوں اور یادووں کو ٹکٹ دیتی رہی ہے، لیکن اس بار اس نے ان دونوں برادریوں کو بہت کم ٹکٹ دیے اور ان امیدواروں کا انتخاب کیا ہے جن کی ذات اس علاقے میں اکثریت میں تھی۔ اس طرح ایس پی نے بی جے پی سے اور بی ایس پی سے دلت ووٹ کھینچ لیے۔
دریں اثنا اتر پردیش نے تمام ایگزٹ پول کو مسترد کرتے ہوئے مودی کے سیاسی کیریئر کو ایک زبردست چیلنج پیش کر دیاہے۔
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر