لوک سبھا میں اکثریت سے بہت دور کھڑی بی جے پی کے لیے تیلگو دیشم پارٹی کی حمایت انتہائی اہم ہے۔ این چندر بابو نائیڈو بی جے پی کے ساتھ بات چیت کے لیے پوری طرح تیار بتائے جا رہے ہیں اور انہوں نے مختلف وزارتوں مثلاً فنانس اور وزارت زراعت کے ساتھ لوک سبھا اسپیکر کے عہدے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
نئی دہلی: 18 ویں لوک سبھا کے لیے ہوئے عام انتخابات میں ملک میں گزشتہ دس سال سے حکمراں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کو سب سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ وہ حکومت سازی کے لیے تیار ہے۔
تاہم، گزشتہ دو انتخابات کے برعکس اتحاد کی کلیدی پارٹی، بی جے پی، اس بار اکثریت کے اعدادو شمار (272) سے بہت دور 240 پر کھڑی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت سازی کے لیے اسے اپنے اتحادیوں – بالخصوص تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) اور جنتادل یونائٹیڈ (جے ڈی یو) پر انحصار کرنا پڑے گا۔
ٹی ڈی پی کو آندھرا پردیش اسمبلی میں واضح اکثریت کے ساتھ لوک سبھا کی 16سیٹوں پر کامیابی ملی ہے، جبکہ جے ڈی یو نے 12 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد سے ہی یہ قیاس آرائیاں تھیں کہ بی جے پی کے اتحادی اس بار اس کے سامنے کچھ خاص شرائط رکھ سکتے ہیں۔
انڈین ایکسپریس نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ دونوں پارٹیوں نے پہلے ہی بی جے پی قیادت کو اشارہ دے دیا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ لوک سبھا اسپیکر کا عہدہ اتحادی پارٹیوں کو دیا جانا چاہیے۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ قدم مستقبل میں اتحادکو کسی بھی ممکنہ انتشار سے ‘بچانے’ کے لیے ہے۔ معلوم ہو کہ اینٹی ڈیفیکشن لا (فلور کراسنگ کے خلاف قانون) میں لوک سبھا کے اسپیکر کا رول بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ حتمی فیصلے کا وقت اور نوعیت پوری طرح سے ان کے فیصلے پر منحصر کرتا ہے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ٹی ڈی پی سربراہ این چندر بابو نائیڈو اور جے ڈی یو کے سربراہ اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اس سلسلے میں بی جے پی کے کچھ دیگر حلیفوں سے بات چیت کی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 1990 کی دہائی کے اواخر میں جب اٹل بہاری واجپائی کی مخلوط حکومت بنی تھی تو ٹی ڈی پی کے جی ایم سی بال یوگی لوک سبھا کے اسپیکر تھے۔
آئینی طور پر، لوک سبھا کے اسپیکر کا عہدہ عام طور پر حکمراں جماعت کو جاتا ہے، جبکہ ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ روایتی طور پر اپوزیشن پارٹی کے اراکین کے پاس ہوتا ہے۔ تاہم، لوک سبھا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ گزشتہ 17ویں لوک سبھا میں کوئی ڈپٹی اسپیکر نہیں تھا۔
نائیڈو کی شرائط
جہاں ایک طرف نتیش کمار بار بار پالا بدلنے کے لیے بدنام ہیں، وہیں دوسری طرف چندربابو نائیڈو سال 2018 میں این ڈی اے سے الگ ہو گئے تھے، حالانکہ انہوں نے موجودہ عام انتخابات سے پہلے بی جے پی سے دوبارہ ہاتھ ملا لیا تھا۔
نائیڈو نے بی جے پی اور جن سینا پارٹی (جے ایس پی) کے ساتھ مل کر آندھرا پردیش کے اسمبلی انتخابات لڑے تھے، جس میں کل 175 میں سے 134 سیٹیں پر جیت حاصل کرنے والی ٹی ڈی پی کو ریاستی حکومت بنانے کے لیے بی جے پی کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم یہ اگلی مرکزی حکومت کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔
انتخابی نتائج آنے کے بعد نائیڈو بدھ کو دہلی پہنچے ہیں اور ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے این ڈی اے کی حمایت کی بات کہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جمعرات 7 جون کو این ڈی اے کے جیتنے والے اراکین پارلیامنٹ ہاؤس کے سینٹرل ہال میں ملاقات کریں گے اور مزید حکمت عملی طے کی جائے گی۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق ، نائیڈو بی جے پی کے ساتھ مختلف سطحوں پر بات چیت کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور انہوں نے لوک سبھا اسپیکر کے عہدے کے علاوہ مختلف وزارتوں کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
TDP seeks plump posts in Modi 3.0. @PoulomiMSaha with more detail.#News #ITVideo @snehamordani pic.twitter.com/1fOI4V4kKP
— IndiaToday (@IndiaToday) June 5, 2024
انڈیا ٹوڈے نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ چندر بابو نائیڈو نے خزانہ، سڑک ٹرانسپورٹ، دیہی ترقی، صحت، ہاؤسنگ اور شہری امور، زراعت، جل شکتی، آئی ٹی اور مواصلات کے ساتھ ساتھ تعلیم کی وزارتیں انہیں دینے کو کہا ہے۔ سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ ٹی ڈی پی نے داخلہ اور دفاع کی وزارتیں بھی مانگی ہیں ۔
اس کے علاوہ انہوں نے ٹی ڈی پی کے پانچ تا چھ رہنماؤں کو کابینہ میں وزرائے مملکت کے طور پر شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری طرف، بتایا جا رہا ہے کہ جے ڈی یو نے وزارت داخلہ اور مالیات کے ساتھ ریلوے کی وزارت مانگی ہے۔
نائیڈو کئی حکومتوں میں فیصلہ کن رول میں رہے ہیں
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب چندرا بابو نائیڈو اس پوزیشن میں ہیں۔
سال 1996 کے لوک سبھا انتخابات میں منقسم مینڈیٹ کے بعد نائیڈو نے کانگریس یا بی جے پی سے قطع نظر دیگر جماعتوں کے اتحاد ‘یونائٹیڈ فرنٹ’ کے کنوینر کے طور پر کانگریس کو باہر سے حمایت دی تھی، جس کے بعد ایچ ڈی دیوے گوڑا کی قیادت والی سرکار بنی تھی۔ انہوں نے اسی لوک سبھا میعاد کے دوران اندر کمار گجرال کی قیادت میں مرکزی حکومت بنانے میں بھی مدد کی تھی۔
سال 1999 میں نائیڈو نے بی جے پی کے ساتھ مل کر لوک سبھا کا الیکشن لڑا اور متحدہ آندھرا پردیش میں 29 سیٹوں پر جیت حاصل کی ۔ انہوں نے اس وقت کی اٹل بہاری واجپائی حکومت کی حمایت کی جو کہ اکثریت کے اعدادوشمار سے دور تھی۔ ان کی پارٹی 29 سیٹوں کے ساتھ بی جے پی کی سب سے بڑی اتحادی تھی، لیکن وہ حکومت میں شامل نہیں ہوئی۔
سال 2014 میں بھی نائیڈو نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں الیکشن لڑا تھا اور مودی حکومت میں شامل ہوئے تھے۔
Categories: الیکشن نامہ, خبریں