خبریں

سپریم کورٹ نے ’ہمارے بارہ‘ اور گجرات ہائی کورٹ نے ’مہاراج‘ فلم کی ریلیز پر روک لگائی

ہمارے بارہ 14 جون کو سینما گھروں میں ریلیز ہونے والی تھی اور یش راج فلمز کی مہاراج او ٹی ٹی پلیٹ فارم نیٹ فلکس پر۔ ان دونوں فلموں پر اسلام اور ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام ہے۔

ہمارے بارہ اور مہاراج کے پوسٹر۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

ہمارے بارہ اور مہاراج کے پوسٹر۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

نئی دہلی: بالی ووڈ کی دو فلمیں اس وقت سرخیوں میں ہیں۔ پہلی سنیما گھروں  میں ریلیز ہونے والی انو کپور کی ‘ہمارے بارہ’ ہے، جبکہ دوسری او ٹی ٹی پلیٹ فارم نیٹ فلکس پر دکھائی جانے والی ‘مہاراج’۔ ان دونوں فلموں پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام ہے اور اب ان کی ریلیز سے قبل عدالتوں نے پابندی عائد کر دی ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی خبر کے مطابق ، سپریم کورٹ نے جمعرات (13 جون) کو فلم ‘ہمارے بارہ’ کی ریلیز پر روک لگاتے ہوئے بامبے ہائی کورٹ سے اس پٹیشن پر جلد فیصلہ کرنے کو کہا جس میں فلم میں اسلامی عقیدے اور شادی شدہ مسلم خواتین کے حوالے سے توہین کا الزام لگایا گیا ہے۔ یہ فلم جمعہ (14 جون) کو ریلیز ہونے والی تھی۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس سندیپ مہتہ کی بنچ نے کہا کہ ‘ہم نے صبح فلم کا ٹریلر دیکھا ہے اور ٹریلر میں تمام قابل اعتراض مکالمے برقرار ہیں۔’

بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس فلم کی نمائش اس وقت تک ملتوی  رہے گی جب تک کہ بامبے ہائی کورٹ میں دائر عرضی کو نمٹا نہیں دیا جاتا۔مزید کہا کہ ، ہائی کورٹ اس پٹیشن کو جلد نمٹا ئے۔

معلوم ہو کہ سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن (سی بی ایف سی) کی جانب سے فلم کو پاس کرنے کے خلاف بامبے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔ اس درخواست میں ‘ہمارے بارہ’ کو دی گئی سرٹیفیکیشن کو منسوخ کرنے اور اس کی ریلیز پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اسلامی عقائد اور شادی شدہ مسلم خواتین کی توہین کا الزام

درخواست گزار نے الزام لگایا  ہےکہ فلم کا ٹریلر سنیماٹوگراف ایکٹ 1952 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ اسلامی عقائد اور شادی شدہ مسلمان خواتین کی توہین کرتا ہے۔ اگر فلم ریلیز ہوتی ہے تو یہ آئین کے آرٹیکل 19(2) اور آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہوگی۔

اس سے قبل، بامبے ہائی کورٹ نے اس وقت فلم کی ریلیز کی اجازت دے دی تھی جب پروڈیوسرز نے فلم سے دو قابل اعتراض ڈائیلاگ ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ تاہم، فلم کے ریویو سے متعلق کیس ابھی بھی ہائی کورٹ میں چل رہا ہے۔

وکیل فوزیہ شکیل نے عدالت عظمیٰ میں درخواست گزار اظہر باشا تمبولی کی پیروی  کی۔ شکیل نے دلیل دی کہ ہائی کورٹ نے اپنے’غیر معقول فیصلے’ کے ذریعے فلم کی ریلیز پرلگی  پابندی  کو ہٹا دیا ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ ہائی کورٹ سی بی ایف سی کو کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت نہیں دے سکتی  تھی کیونکہ سی بی ایف سی خود اس مقدمے میں ایک فریق ہے۔

فوزیہ شکیل کے دلائل سننے کے بعد عدالت عظمیٰ نے بامبے ہائی کورٹ کی جانب سے عرضی کو نمٹانے تک فلم کی نمائش پر روک لگا دی اور ہائی کورٹ سے درخواست پر جلد فیصلہ کرنے کو بھی کہا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ کمیٹی کا انتخاب کرنے  کے لیے سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن (سی بی ایف سی) کو ہدایت سمیت تمام اعتراضات کو فریقین ہائی کورٹ کے سامنے اٹھانے کے لیے آزاد ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ  14 جون کو ریلیز ہونے والی اس فلم پر کرناٹک میں پہلے ہی پابندی لگا ئی جا چکی  ہے۔

‘مہاراج’ کی کہانی مہاراج لبل کیس 1862 پر مبنی ہے

اپنی ریلیز کے حوالے سے تنازعات میں گھری دوسری فلم یش راج فلمز کی پروڈیوس کردہ ‘مہاراج’ ہے، جس پر گجرات ہائی کورٹ نے روک لگاتے ہوئے یش راج فلمز، نیٹ فلکس انڈیا اور دیگر متعلقہ لوگوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔

یہ فلم 14 جون سے نیٹ فلکس پر اسٹریم ہونی تھی۔ اس فلم پر ہندو مذہب کے خلاف تشدد بھڑکانے کا الزام لگایا گیا ہے۔

فلم میں اداکار جنید خان نے کرسن داس نامی ویشنو کا کردار ادا کیا ہے جو  علاقے کے سب سے بڑے مٹھ کے مہاراج کو ان کی  بداعمالیوں کی وجہ سے عدالت میں گھسیٹتا ہے۔

درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ  یہ فلم مبینہ طور پر 1862 کے ہتک عزت کے مقدمے پر مبنی ہے، جس میں ہندو مذہب، بھگوان کرشن اور بھکتی گیتوں اوربھجن کے بارے میں گستاخانہ تبصرے شامل ہیں، جیسا کہ بامبےکے سپریم کورٹ کے انگریز ججوں نے فیصلہ سنایا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، یہ فلم نوآبادیاتی دور میں برطانوی ججوں کے ذریعے پیش کردہ   1862 کے مہاراج لبل کیس پر مبنی ہے اور اس پر پابندی ویشنو پشٹی مارگی فرقے کے متعدد پیروکاروں کی درخواست کے بعد لگائی گئی، جو خود کو بھگوان کرشن کا بھکت  مانتے ہیں ۔

درخواست گزاروں نے اس بنیاد پر اعتراض کیا ہے کہ فلم کے کچھ حصوں میں ‘قابل مذمت اور توہین آمیز زبان ہے، جو پورے پشٹی مارگی فرقے کو متاثر کرتی ہے’۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فلم سے اس فرقے کے خلاف نفرت اور تشدد کے جذبات بھڑکنے کا امکان ہے، جو کہ انفارمیشن ٹکنالوجی (انٹرمیڈیری گائیڈ لائنز اینڈ ڈیجیٹل میڈیا ایتھکس کوڈ) رول، 2021 کے تحت ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوگی۔

معلوم ہو کہ یہ فلم 1862 کے ہتک عزت کے مقدمے پر مبنی ہے، جس میں صحافی اور مصلح کرسن داس مول جی پر مذہبی رہنما جادوناتھ جی برج رتن جی مہاراج نے ہتک آمیز مضمون لکھنے پر مقدمہ دائر کیا تھا۔ مضمون میں ولبھ چاریہ فرقہ کے خلاف قابل اعتراض ریمارکس تھے، جو ایک ہندو فرقہ تھا جس کے مہاراج ایک رکن تھے۔ مضمون میں کہا گیا تھا کہ جادوناتھ جی کے مبینہ طور پر خواتین پیروکاروں کے ساتھ جنسی تعلقات تھے اور مردوں سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ اپنی بیویوں کو جسمانی تعلقات کے لیے پیش کرکے اپنی عقیدت کا اظہار کریں۔ مول جی نے یہ کیس جیت لیا تھا۔

درخواست گزاروں نے عدالت کو بتایا کہ اپریل میں یش راج فلمز اور نیٹ فلکس کو ایک اور ادارے کے ذریعے نجی اسکریننگ کی درخواست کی گئی تھی، جسے پروڈیوسر اور او ٹی ٹی پلیٹ فارم نے قبول نہیں کیا اور نہ ہی کوئی وضاحت جاری کی۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کی رسائی پوری دنیا میں بہت وسیع ہے اور بعد میں اس سے ہونے والے نقصان کی تلافی کرنا ناممکن ہو جائے گا، اس لیے فلم پر پابندی لگا ئی جائے۔