خبریں

چنئی، پونے، چنڈی گڑھ، دہلی: وزیر اعظم کے ادارے میں بھرتی امتحان پر ملک بھر میں لگے نئے الزام

مراکز پر اجتماعی طور پر نقل کا ماحول تھا۔ نگراں اور ممتحن کہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ حکومت ہند کے ایک بڑے سائنسی ادارے میں بھرتی امتحان ہو رہا ہے۔ گجرات کی کمپنی ایڈوٹیسٹ کے ذریعے کرائے گئے امتحانات پر ملاحظہ کیجیے دی وائر کی تفتیش کی یہ تیسری قسط۔

 (فوٹو: امتحان کے دن دہلی میں غازی پور اگزام سینٹر کا ماحول؛ ایکس/انکت راج/دی وائر)

(فوٹو: امتحان کے دن دہلی میں غازی پور اگزام سینٹر کا ماحول؛ ایکس/انکت راج/دی وائر)

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی والی  کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (سی ایس آئی آر) میں سیکشن آفیسر (ایس او) اور اسسٹنٹ سیکشن آفیسر (اے ایس او) کی بھرتی کا پورا عمل دھاندلی اور بے ضابطگیوں کی بھینٹ چڑھتا نظر آرہا ہے۔

اس بھرتی کے لیے فرسٹ لیول کے امتحان کی جانچ پہلے ہی مختلف ریاستوں کی پولیس کر رہی ہے ، اب 7 جولائی کو ملک کے بڑے شہروں میں ہوئے لیول-2 کے امتحان میں بدانتظامی اور بے ضابطگیوں کے تمام طرح کے الزام سامنے آرہے ہیں۔

دی وائر کی تفتیش میں انکشاف ہوا  ہےکہ کئی اگزام  سینٹر  پر امیدوار اپنے فون اور دیگر الکٹرانک آلات کے ساتھ گئے تھے اور دھڑلے سے ویڈیو بنا رہے تھے۔ ان مراکز پر شوروغل اور ہنگامہ برپا تھا۔ اس قدر ہجوم تھا کہ اجتماعی طور پر نقل کا ماحول معلوم ہو رہا تھا،مرکز کے نگراں اور دیگر ملازمین کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔

سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی تصویروں اور ویڈیو کو دیکھ کرکہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ یہ حکومت ہند کے کسی بڑے سائنسی ادارے میں بھرتی امتحان کا مرکز ہے۔

دہلی کے ونائک ڈیجیٹل زون مرکز کی حالت (اسکرین گریب/ویڈیو)

دہلی کے ونائک ڈیجیٹل زون مرکز کی حالت (اسکرین گریب/ویڈیو)

بتایا گیا ہے کہ کچھ مراکز پر حالات اتنے خراب ہوگئے کہ پولیس کو بلانا پڑا۔ سی ایس آئی آر، جو اب تک اس امتحان میں دھاندلی کے الزامات سے انکار کرتی رہی ہے، اسے بھی دوسرے مرحلے کے بعد نوٹس جاری کرنا پڑا۔

سی ایس آئی آر کے ڈپٹی سکریٹری کی جانب سے 9 جولائی 2024 کو جاری نوٹس میں کہا گیا ہے، ‘کمپیوٹر پرفیشینسی ٹیسٹ (سی پی ٹی) کی تکمیل کے بعد، سی ایس آئی آر کو کچھ مراکز پر تکنیکی خرابیوں، فائلوں کو اپ لوڈ کرنے، اپ لوڈ کی گئی فائلوں کا پرنٹ آؤٹ لینےکے  سلسلے میں کچھ امیدواروں کی طرف سے شکایتیں موصول ہوئی ہیں۔ سی ایس آئی آر سی پی ٹی کے ان تمام پہلوؤں پر غور کر رہا ہے۔ ان شکایتوں کی جانچ پڑتال کے بعد، فیصلے سے صحیح وقت پر ویب نوٹس کے ذریعے امیدواروں کومطلع کیا جائے گا۔‘

سی ایس آئی آر کا نوٹس

سی ایس آئی آر کا نوٹس

لیکن سی ایس آئی آر اس بات کو نظر انداز کر رہا ہے کہ یہ امتحان گجرات کی وہی کمپنی کروا  رہی ہے جسے اتر پردیش سرکار  بلیک لسٹ کر چکی ہے۔ اتر پردیش حکومت کی طرف سے بلیک لسٹ کیے جانے کے باوجود، سی ایس آئی آر احمد آباد کی ایڈوٹیسٹ سالیوشنز پرائیویٹ لمیٹڈ کی خدمات لے رہی ہے۔

دی وائر نے گجرات کی اس کمپنی اور بی جے پی کے ساتھ اس کے تعلقات کی تفتیش  کی ہے۔ ہم نے اپنی پہلی قسط میں بتایا تھا کہ ایڈوٹیسٹ کے بانی سریش چندر آریہ ایک ہندو تنظیم کے صدر ہیں، پی ایم مودی ان کے پروگراموں میں شرکت کرتے رہتے ہیں۔ کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر ونیت آریہ کو پیپر لیک کے الزام میں جیل ہو چکی ہے، لیکن پھر بھی اسے بی جے پی حکومتوں کی جانب سے امتحانات کے ٹھیکے ملتے رہتے ہیں۔

آریہ سماج کے ایک پروگرام کے دوران ایڈوٹیسٹ کے بانی اور سارودیشک آریہ پرتینیدھی سبھا کے صدر سریش چندر آریہ کے ہمراہ وزیر اعظم نریندر مودی ۔ (اسکرین گریب: یوٹیوب/نریندر مودی)

آریہ سماج کے ایک پروگرام کے دوران ایڈوٹیسٹ کے بانی اور سارودیشک آریہ پرتینیدھی سبھا کے صدر سریش چندر آریہ کے ہمراہ وزیر اعظم نریندر مودی ۔ (اسکرین گریب: یوٹیوب/نریندر مودی)

دوسری قسط میں بتایا گیا تھاکہ ایڈوٹیسٹ کی طرف سے کرائے گئے سی ایس آئی آر لیول-1کے  امتحان میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزام لگے  تھے اور کئی ایف آئی آر درج کی گئی تھیں۔نقل  کے الزام میں جیل میں بند امیدواروں کا نام کامیاب امیدواروں کی فہرست میں بھی آگیا تھا۔ یہ معاملہ فی الحال سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل (سی اے ٹی) میں ہے۔

اب لیول 2 کے امتحان پر ہماری تیسری قسط۔

لیول  ٹو میں کیا ہوا؟

سات  جولائی کو دوسرے مرحلے کا امتحان ملک کے 10 شہروں دہلی، چندی گڑھ، کولکاتہ، لکھنؤ، پونے، بھوپال، حیدرآباد، بنگلورو، چنئی اور گوہاٹی کے 33 مراکز پر لیا گیا۔ امتحان دو شفٹوں میں ہونا تھا- پہلے ڈسکرپٹیو پیپر، پھر کمپیوٹر پرفیشینسی ٹیسٹ (سی پی ٹی)۔ دوسرے مرحلے میں صرف وہی امیدوار بیٹھ سکتےتھے، جنہوں نے پہلے مرحلے کا امتحان پاس کیا ہو۔

دہلی میں ایک اگزام سینٹر، غازی پور میں واقع ونائک ڈیجیٹل زون بنایا گیا تھا۔ یہاں امتحان دینے والے جئے پور کے ایک امیدوار نے دی وائر کو بتایا،’ صبح 10 بجے سے ڈسکرپٹیو پیپر شروع ہونا تھا، جو 11:40 پر شروع ہوپایا ۔ ہم نے اپنا احتجاج درج کروایا۔ امتحان دینے سے انکار کیا۔ ہم مرکز سے باہر آنا چاہتے تھے لیکن پولیس اہلکاروں نے ہمیں باہر نہیں نکلنے دیا۔ مرکز کی مالکن چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی— ہماری طرف سے کوئی دقت نہیں ہے۔ سی ایس آئی آر والوں نے پیپر کیوں نہیں دیا، ہمیں نہیں پتہ۔‘

امیدوار نے مزید بتایا، ‘سی پی ٹی  3 بجے شروع ہونا تھا، جو 4 بجے شروع ہوا۔ اکثر سرور کام نہیں کر رہا تھا۔ کچھ کمپیوٹر کا ماؤس اور کچھ کا کی—بورڈ کام نہیں کر رہا تھا۔ سافٹ ویئر بہت خراب تھا۔ اس کے بعد فائل بھی اپ لوڈ نہیں ہو رہی تھی۔ امتحان کے اختتام پر امیدواروں کو دستخط کرنے ہوتے ہیں ، وہ بھی نہیں ہوا۔ سی پی ٹی کا پرنٹ آؤٹ بھی نہیں نکلا۔‘

امیدوار کا الزام ہے کہ وقت ختم ہونے کے بعد کچھ لوگ آئے اور ایک خاتون امیدوار کی مدد کرنے لگے۔ ویڈیو میں بھی ایسا ہی نظر آتا ہے۔

اسی مرکز پر امتحان دینے والے ایک اور امیدوار نے تصدیق کی کہ ‘پیپر دس بجے نہیں ملا تھا۔ مرکز کی مالکن سی ایس آئی آر کو قصوروار ٹھہرا رہی تھی، اور وہ  لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ سینٹر والوں کی غلطی ہے۔‘

دی وائر نے مرکز کی مالکن ریتو سنگھ سے بات کی۔ انہوں نے کہا، ‘اگر ہمارے مرکز میں کوئی مسئلہ ہوتا تو مسئلہ صرف ہمارے مرکز میں ہوتا۔ لیکن امیدواروں کو ملک کے تقریباً ہر مرکز پر مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیب کا سرور روم، جہاں ہر چیز کو کنٹرول کیا جاتا ہے، ایک دن پہلے (سی ایس آئی آر کی طرف سے) سیل کر دیا گیا (اور اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا) تھا۔‘

ونائک ڈیجیٹل زون۔ (تصویر: انکت راج/دی وائر)

ونائک ڈیجیٹل زون۔ (تصویر: انکت راج/دی وائر)

ریتو مزید کہتی ہیں، ‘امتحان 10 بجے شروع ہونا تھا۔ سی ایس آئی آر والوں کو یہ تک پتہ  نہیں تھا کہ سیٹنگ ارینجمنٹ  کیا ہے۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق سیٹنگ کرا رہے تھے۔ بچے اس بات پر بھڑک  گئے تھے۔ بچوں نے مجھ سے ساڑھے دس بجے پیپر  دینے کو کہا۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ میرے ہاتھ میں نہیں ہے، آپ کمپنی والوں اور سی ایس آئی آر کے لوگوں سے بات کیجیے۔ پھر کچھ بچے سرور روم میں پہنچے اور گیٹ کھلوایا۔ گیٹ کھلتے ہی جواب ملا کہ پیپر دینے کے لیے اوپر سے کال آئے گی تو پیپر مل جائے گا۔ بچے بہت غصے میں تھے۔ 11:40 پر میں نے مداخلت کی اور پیپر شروع کروایا۔‘

ریتوبتاتی ہیں کہ ‘کچھ امیدوار سی ایس آئی آر والوں کے جاننے والے تھے جن سے وہ بات  چیت کر رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ آپ کے جاننے والے ہیں۔ انہوں نے کہا- ہاں۔ میں نے کہا کہ مرکز میں بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ مداخلت نہ کریں۔‘

ہنگامہ بڑھنے کے بعد ریتو نے ہی پولیس کو بلایا۔ وہ کہتی ہیں، ‘سی ایس آئی آر والے بچوں کے ساتھ گالی گلوچ کر رہے تھے۔ بعد میں معاملہ بگڑتا دیکھ کر انہوں نے خود کو سرور روم میں بند کر لیا تھا۔‘

سی پی ٹی  کے دوران فائل اپ لوڈ کرنے کی تصویر

سی پی ٹی  کے دوران فائل اپ لوڈ کرنے کی تصویر

امتحان میں افراتفری صرف اسی مرکز تک محدود نہیں تھی۔

لکھنؤ کے رجت ویمن کالج انسٹی ٹیوٹ آف کمپیوٹر سائنس میں لیول -2 کے امتحان میں شریک ہونے والے شبھم مشرا نے دی وائر کو بتایا، ‘سی پی ٹی کے لیے شام کے 3 سے 4 بجے کا وقت مقرر کیا گیا تھا۔ اس دوران امیدواروں کو اپنی تمام فائلیں اپ لوڈ کرنی تھیں۔ اصول کے مطابق، جو اپ لوڈ نہیں کرپائے ، اس کا سبمٹ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ہمارے مرکز میں وقت پورا ہونے کے بعد بھی انہیں بار بار موقع دیا گیا۔ مزید یہ کہ اس امتحان کے انعقاد کے لیے ایڈوٹیسٹ نے جو سافٹ ویئر استعمال کیا وہ بالکل بھی محفوظ نہیں تھا۔ امیدوار پورا کمپیوٹر چلا سکتے تھے۔ دیگر سی پی ٹی امتحانات میں امیدوار صرف وہی کام کر سکتے ہیں، جو طے شدہ ہیں۔ ہمیں جو کمپیوٹر دیا گیا تھا اس میں پین ڈرائیو ڈال کر بھی نقل کر سکتا تھا۔‘

نئی دہلی میں سی ایس آئی آر کا دفتر (تصویر: انکت راج/دی وائر)

نئی دہلی میں سی ایس آئی آر کا دفتر (تصویر: انکت راج/دی وائر)

پونے میں بھی اسی صورتحال کا مشاہدہ کیا گیا۔

پونے کے نوتن کالج آف انجینئرنگ اینڈ ریسرچ (این سی ای آر) میں امتحان دینے والے ایک امیدوار نے دی وائر کو بتایا، ‘ڈسکرپٹیو پیپر  پندرہ منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ وقت ختم ہونے کے بعد بھی امیدوار میرے مرکز پر آرہے تھے۔ اس کے علاوہ چھ پی ڈبلیو ڈی (پرسن ود ڈس ایبلٹی) امیدواروں کو ان کے اسسٹنٹ (اسکرائب) کے ساتھ نان پی ڈبلیو ڈی امیدوار کے درمیان بٹھایا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے دیگر امیدوار توجہ نہیں دے پا رہے تھے، پی ڈبلیو ڈی کے امیدوار بھی پریشان  ہو رہے تھے۔ کئی  امیدواروں کی سیٹ اس کمرے میں نہیں تھی، جس کمرے کے باہر لگائی گئی پرچی میں ان کا نام  تھا۔‘

ان خاتون امیدوار نے مرکز میں سی پی ٹی میں بے ضابطگیوں کی تصدیق کی اور کہا کہ جب بہت سے امیدوار فائلیں اپ لوڈ نہیں کر سکے تو ‘سرور کو بائی پاس کیا گیا۔ امیدواروں کو ایک کوڈدے  دیا گیا، تاکہ وہ امتحان ختم ہونے کے بعد بھی فائل اپ لوڈ کر سکیں۔ ہم نے کبھی کسی دوسرے سی پی ٹی  میں اس کا تجربہ نہیں کیا۔ ایک بار وقت ختم ہونے کا مطلب ہے کہ آپ اب کچھ نہیں کر سکتے۔ سرور کو بائی پاس  کرنا ایک سنگین معاملہ ہے۔‘

دیگر امیدواروں کے ساتھ بات چیت میں پتہ چلا کہ ’سرور کو دوسری جگہوں پر بھی بائی پاس  کیا گیا۔ …ایسا لگ نہیں رہا تھا کہ ہم گریڈ-اے کا امتحان دے رہے ہیں،’ انہوں نے کہا۔

چندی گڑھ کے کھرڑ علاقے میں بھی امتحان کے دوران بدانتظامی کی خبر ہے۔ جب امیدواروں نے وہاں احتجاج شروع کیا تو پولیس کو مرکز پر بلانا پڑا۔

مقامی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کی تصویر

مقامی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کی تصویر

چندی گڑھ یونیورسٹی (سینٹر کوڈ- 1203) میں امتحان دینے والے ایک امیدوار نے سی ایس آئی آر کے سینٹر کوآرڈینیٹر کو تحریری شکایت دی ہے، ‘سی پی ٹی دیر سے شروع ہوئی۔ کی—بورڈ ٹھیک سے کام نہیں کر رہا تھا۔ سی پی ٹی مکمل کرنے کے بعد بھی فائل اپ لوڈ نہیں ہوئی۔‘

امیدوار کے اس ایکسسیپشن فارم کو سی ایس آئی آر سینٹر کے کوآرڈینیٹر چت رام سنگھ نے ریسیو بھی کیا ہے۔

امیدوار کی شکایت

امیدوار کی شکایت

چنئی کے ایک مرکز میں بھی امیدواروں کو اس طرح کی بے قاعدگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

چنئی سے تعلق رکھنے والے ایک امیدوار نے لیول-2 کا اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ سی ایس آئی آر کی چنئی میں تین لیب ہونے کے باوجود، امتحان کا مرکز 35 کلومیٹر دور پڑپائی میں دیا گیا تھا، اور ایڈمٹ کارڈ صرف تین دن پہلے آیا، جس کا مطلب ہے کہ امیدواروں کوصرف 72 گھنٹے میں پتہ چلا  کہ امتحان کا  مرکز کہاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ  مرکز میں ’کوئی سیٹنگ پلان نہیں تھا۔ کوئی بھی اپنی مرضی کے مطابق کہیں بھی بیٹھ سکتا تھا۔ اپنے دوست کے پاس بھی بیٹھ سکتا تھا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ وقت پر پرچے نہیں لیے گئے۔ ممتحن سست تھے اور انہوں نے وقت پورا ہونے کے بعدکافی تاخیر سےپرچے لینا شروع کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سی پی ٹی امتحان کے دوران بہت سے امیدواروں کو تکنیکی خرابیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ان کے کمپیوٹر بند ہو رہے  تھےتو انہیں امتحان کے درمیان دوسرے کمپیوٹر دیے گئے۔

‘اس پیمانے پر ناکامی کے لیےسی ایس آئی آر اور امتحان کی ذمہ داری سنبھالنے والی نجی کمپنی کو جوابدہ ہونا چاہیے،’ انہوں نے کہا۔

دی وائر نے اس پورے معاملے پر سی ایس آئی آر کے سینئر ڈپٹی سکریٹری لکشمن سنگھ نیگی کے دفتر میں کئی بار فون کیا۔ ہر بار بتایا گیا کہ وہ میٹنگ میں ہیں اور کہا گیا کہ ‘بعد میں کال کریں’۔ اس کے بعد لکشمن سنگھ نیگی کے آفیشیل ای میل پر سوالنامہ ارسال کیا گیا ہے، جس کا جواب اب تک موصول نہیں ہوا ہے۔