پچھلے سال جب سپریم کورٹ نے 5 اگست 2019 کے فیصلوں کو جائز قرار دے کر، داخلی خود مختاری ختم کرنے کے حکومتی اقدام پر مہر لگا دی، تو اسی وقت حکومت سے عہد لیا کہ ستمبر 2024 تک کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرواکے وہ منتخب نمائندوں کے حوالے اقتدار کرے۔ اب سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق، مودی حکومت نے گورنر کو ہی اختیارات منتقل کیے، تاکہ منتخب وزیر اعلیٰ بطور ایک نمائشی عہدیدار کے مرکزی حکومت کے زیر اثر رہے گا۔
کئی سالوں کے جنگ و جدل کے بعد جب چھ اکتوبر 1586 کو مغل افوج نے وادی کشمیر میں داخل ہوکر اس کو دہلی سلطنت میں شامل کردیا، تب سے ہی اس خطہ پر بیشتر اوقات گورنروں یا صوبیداروں کے ذریعے حکومت کی گئی ہے۔ 1947 کے بعد شیخ عبداللہ سمیت کئی افراد کو امید تھی کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے کچھ ثمر ات کشمیر کو بھی نصیب ہوں گے اور مقامی آبادی کو بااختیار بناکر اپنے اوپر حکومت کرنے کا موقع دیا جائےگا۔
مگر اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پچھلے 77 سالوں میں کشمیر پر نئی دہلی نے گورنروں یا پراکسی کے ذریعے 62 سال تک براہ راست حکومت کی ہے۔ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی طرز پر جہاں مقامی منتخب وزیر اعلیٰ اپنی ریاست کے معاملات چلانے میں آزاد ہوتا ہے، ایسی حکومت کشمیر کو مشکل سے 15 سال سے کم ہی نصیب ہوئی ہے۔
افغان، سکھ اور ڈوگرہ دور کے گورنروں کے ظلم و ستم تو کشمیر کی لوک داستانوں کا حصہ ہیں۔ جہاں افغان گورنر حاجی کریم داد خان، اعظم خان سمیت کئی اور صوبیداروں کے ہاتھ خون سے رنگین ہیں اور ان کی پالیسیوں کی وجہ سے کھیت و کھلیان سنسان ہوگئے، وہیں سکھ دور کے گورنر دیوان موتی رام اور کرپا رام نے جب گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگائی، تو گوشت رکھنے کی پاداش میں 19 افراد کو تختہ دار پر لٹکایا۔ سرینگر کے ایک تاجر کو اس کے خاندان سمیت آگ کے حوالے کردیا گیا۔
خیر ان ظالم حاکموں کے ساتھ چند ایسے بھی تعینات کیے گئے، جن کے دل میں اللہ نے رحم کا مادہ بھی ڈالا تھا۔ ان میں سکھ دور کے آخری دو گورنر شیخ غلام محی الدین اور شیخ امام الدین تھے اور 1947 کے بعد چند ایک کو بھی ان میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
شیخ غلام محی الدین نے 22 سال کے بعد جامع مسجد سرینگر کا تالہ کھلوا کر اور اس کی مرمت کرواکے وہاں نماز ادا کرنے کی اجازت دی۔ سکھوں کے پہلے گورنر نے اس کو پہلے اصطبل میں تبدیل کردیا تھا، بعد میں اس پر تالہ لگا کروہاں نماز ادا کرنے پر پابندی لگادی تھی۔
غلام محی الدین کی وفات 1845 کو سرینگر میں ہوئی اور بتایا جاتا ہے کہ جنازہ میں ایک عوامی سیلاب امنڈ پڑا تھا۔ ان کی قبر کوہ ماران یا ہاری پربت پہاڑی پر واقع شیخ حمزہ مخدوم کی درگاہ کے احاطے میں ہے۔جب برطانوی حکومت نے کشمیر کو ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ کو فروخت کیا تو امام الدین نے مقامی طور پر اس کے خلاف مزاحمت کی۔ مگر بعد میں اس کو سختی کے ساتھ کچل دیا گیا اور امام الدین کو لاہور لے جایا گیا۔
اس لیے جب حال ہی میں ہندوستان کی وزار ت داخلہ کے ایک حکم کے مطابق جموں و کشمیر کے لیفٹنٹ گورنر منوج کمار سنہا کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا، تو اس خطے میں شاید ہی کسی کو حیرت ہوئی ہوگی۔ 2018 سے کشمیر پر گورنروں کے ذریعے براہ راست نئی دہلی کی یا بالواسطہ طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے۔ اس کا فائدہ اٹھا کر اس نے اسمبلی و پارلیامانی حلقوں کی جیری مینڈرنگ کرکے ان کو اپنے حق میں کرنے کی بھر پور کوششیں کی۔ اپنے پراکسیوں کو میدان میں اتار کر ان کے حق میں میدان تیار کیا۔
مگر پچھلے لوک سبھا انتخابات میں کشمیر کی تینوں سیٹوں پر اس کے پراکسیوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔ جموں کی کئی سیٹوں پر بھی اس کے حمایت یافتہ امیدوارں کو نہایت ہی قلیل تعداد میں ووٹ پڑے۔
شمالی کشمیر سے محبوس آزاد امیدوار انجینئر رشید کی کامیابی نے تو اور بھی چولیں ہلا دیں۔ اس خطے میں شامل اسمبلی کی 18 نشستوں میں سے بس ایک ہی سیٹ پر بی جے پی کے پراکسی امیدوار کو معمولی برتری حاصل ہوئی۔
بتایا جاتا ہے کہ لوک سبھا کے انتخابی نتائج کے بعد غور کیا جا رہا تھا کہ کسی طرح اب اسمبلی انتخابات کو مؤخر کیا جائے۔ مگر پچھلے سال جب سپریم کورٹ نے 5 اگست 2019 کے فیصلوں کو جائز قرار دے کر، داخلی خود مختاری ختم کرنے کے حکومتی اقدام پر مہر لگا دی، تو اسی وقت حکومت سے عہد لیا کہ ستمبر 2024 تک کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرواکے وہ منتخب نمائندوں کے حوالے اقتدار کرے۔
اب سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق، مودی حکومت نے گورنر کو ہی اختیارات منتقل کیے، تاکہ منتخب وزیر اعلیٰ بطور ایک نمائشی عہدیدار کے مرکزی حکومت کے زیر اثر رہے گا۔
یہ ترامیم خاص طور پر جموں و کشمیر میں متوقع اسمبلی انتخابات کے تناظر میں نہایت ہی اہم ہیں۔ اس کی رو سے پولیس، پبلک آرڈر، ایڈووکیٹ جنرل یا اس کی مدد کے لیے دیگر لاء افسران کی تقرری کے کاغذات وزیر اعلیٰ اور چیف سکریٹری، لیفٹنٹ گورنر کے سامنے رکھیں گے۔ تقرری کا پروانہ اس کی صوابدید پر منحصر ہوگا۔ اسی طرح خاص کیسوں میں مقدمہ چلانے کی منظوری بھی لیفٹنٹ گورنر ہی عطا کرے گا۔
اس کے علاوہ لیفٹنٹ گورنر ہی اعلیٰ افسران اور انتظامی سکریٹریوں اور کیڈر کے عہدوں کی تعیناتی کرے گا۔ یعنی ان افسران کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹ پر وزیر اعلیٰ یا متعلقہ وزیر کے بجائے لیفٹنٹ گورنر دستخط کریں گے۔
اب ان حالات میں کون افسر وزیر اعلیٰ کو خاطر میں لائے گا۔ میونسپل کارپوریشن کے چیئرمین یا پنچایت کے سرپنچ تو پھر بھی مقامی افسران کے ذریعے تعمیر و ترقی کے کاموں میں رقوم کو خرچ کرنے پر نظر رکھنے کے مجاز ہوتے ہیں۔
ویسے بھی اگر چند گورنروں یعنی لکشمی کانت جھا اور نریندر ناتھ ووہرا کو چھوڑا جائے، تو کسی بھی گورنر کے جمو ں کشمیر کے کسی بھی منتخب وزیر اعلیٰ کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہیں رہے ہیں۔ 1953میں جب صدر ریاست کرن سنگھ نے جب شیخ محمد عبداللہ کی حکومت کر برطرف کیا، ان کو خود بھی نہیں معلوم کہ کس قانون اور آئین کی کس شق کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے یہ قدم اٹھایا۔
ان کی برطرفی کے ایک سال بعد جموں و کشمیر کا آئین تیار ہوا۔ اس وقت تک ہندوستان کے قوانین و سپریم کورٹ کا اطلاق بھی کشمیر پر نہیں ہوتا تھا۔
ابھی تک جموں کشمیر میں دس گورنر اور 2019 کے بعد سے دو لیفٹنٹ گورنر تعینات ہوئے ہیں۔ گورنر جگموہن اور لیفٹنٹ جنرل ایس کے سنہا، جو منتخب حکومتوں کے وقت گورنر تھے، نے وزرائے اعلیٰ کا ناطقہ بند کیا ہوا تھا۔
جموں و کشمیر میں ریاستی حکومتوں پر مکمل کنٹرول رکھنے کے لیے نئی دہلی کی حکومتیں ہمیشہ سے ہی بے چین رہی ہیں۔ بی جے پی نے اس کو اب ایک انتہا تک پہنچا دیا۔
اندرا-شیخ معاہدے کے بعد، شیخ محمد عبداللہ فروری 1975 میں وزیر اعلیٰ بنے۔ اس اسمبلی میں ان کے بس تین ہی اراکین تھے، باقی نئی دہلی کی ایما پر کانگرس کے اراکین ان کی حمایت کر رہے تھے۔ یہ صرف 1977 میں تھا جب جموں و کشمیر کی مقامی سیاسی جماعت، نیشنل کانفرنس اس سال موسم گرما میں ہونے والے انتخابات کے بعد اکثریتی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔
اس دوران گورنر ایل کے جھا کے ساتھ ان کی فریکوینسی بڑی اچھی رہی۔ وہ بھی وزیر اعلیٰ کے کام میں مداخلت نہیں کرتے تھے اور شیخ کی انا کا بھی خیال رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر کشمیر کو زور زبردستی کے بغیر ہندوستان میں شامل رکھنا ہے، تو اس کے لیے شیخ عبداللہ سے بہتر متبادل موجود نہیں ہے۔
اس دوران تقریبات میں ہمیشہ گورنر پہلے آتا تھا اور وہ وزیرا علیٰ کا استقبال کرتا تھا۔ پروٹوکول کے مطابق یہ الٹا ہونا چاہیے، کیونکہ گورنر آئینی سربراہ یعنی صدر کا نمائندہ ہوتا ہے۔
جب 1981 کو ا ن کی جگہ پر بی کے نہرو، جو اندرا گاندھی کے رشتہ دار بھی تھے، کی تقرری ہوئی، وہ ایک سابق بیورکریٹ اور امریکہ میں ہندوستان کے سفیر رہ چکے تھے اور ان کو مین آف بک بھی کہا جاتا تھا۔ یعنی جو کچھ آئین کی کتاب میں درج ہے، اس پر من و عن عمل کروانا۔ تقریبات میں پہلے آنا ور پھر وزیر اعلیٰ کا انتظار کرنا ان کی برداشت سے باہر تھا۔
ایک بار جب سرینگر کے امر سنگھ کلب کی کسی تقریب میں دونوں مدعو تھے، تو گورنر نے اپنے سکریٹری کو ہدایت دی کہ جب وزیر اعلیٰ گھر سے تقریب کے لیے روانہ ہوں گے، تو ان کو بتایا جائے اس کے دس منٹ بعد وہ روانہ ہوں گے۔ ان کا مقصد تھا کہ وزیرا علیٰ پہلے پہنچے، اور پروٹوکول کے مطابق وہ ان کا استقبال کریں۔ مگر یہی کچھ وزیر اعلیٰ کے گھر پر بھی ہو رہا تھا۔ انہوں نے اپنے سکریٹری کو ہدایت دی تھی کہ راج بھون سے گورنر کی مومنٹ سے ان کو مطلع کریں، تاکہ وہ گورنر کے بعد اس تقریب میں پہنچیں۔
وقت گزرتا جا رہا تھا۔ دونوں میں کوئی بھی پہلے جانے پر تیار نہیں تھا۔ اسی دوران امرسنگھ کلب سے منتظمین کے فون آرہے تھے۔ تنگ آکر شیخ عبداللہ نے اپنے سکریٹری کو اس اپائنٹمنٹ کومنسوخ کرنے اور منتظمین کو یہ بتا کر کہ وزیر اعلیٰ کو بھڑ نے ڈسا ہے، معذرت کرے۔
راج بھون سے جب گورنرکے سکریٹر ی نے وزیر اعلیٰ کی مومنٹ کے بارے میں جاننا چاہا، تو اس کو بھی یہی بتایا گیا کہ وزیر اعلیٰ کو بھڑ نے کاٹا ہے۔ جب سوٹ بوٹ میں ملبوس روانگی کا انتظاکر رہے گورنر کو گوش گزار کیا گیا، تو اس نے بھی منتظمین تک پیغام پہنچایا کہ ان کو بھی بھڑ نے ڈسا ہے اور وہ صاحب فراش ہیں، اس لیے معذرت ہے۔
امر سنگھ کلب میں جب بھڑ کے ذریعے دونوں گورنر اور وزیر اعلیٰ کو کاٹنے کی خبر پہنچی، تو اکثر لوگ حیران و پریشان تھے، مگر جانکار افراد کو معلوم ہوگیا کہ یہ انا کی جنگ ہے اور اب یہ ریاست کو بھگتنی پڑے گی۔
اس دوران عبداللہ نے کم از کم یہ ظاہر کیا تھا کہ وہ ایک الگ وزیر اعلیٰ ہیں اور اپنے پاورز کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ بی کے نہرو کی اپنی یاداشتوں کے مطابق عبداللہ دہلی سے انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے تھے اور ان افسران کو حساس پوسٹنگ بھی نہیں دیتے تھے۔
انہوں نے ہائی کورٹ کے کشمیری چیف جسٹس کی ٹرانسفر کرنے کی بھی معانعت کی تھی۔ انہوں نے اسمبلی سے آبادکاری کا بل پاس کروایا، جس کی رو سے لائن آف کنٹرول کے ذریعے منقسم لوگوں کو کشمیر واپس آکر اپنی جائیدادوں حاصل کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔ نہرو کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ وہ اس بل پر دستخط نہیں کریں گے، کیونکہ یہ غیر آئینی ہے، تو شیخ نے ان کو کہا کہ اس بل کی آئینی یا غیر آئینی تشریح کرنا آپ کا نہ میرا کام ہے۔ اگر کسی کو اس کی آئینی حیثیت پر اعتراض ہے، تو عدالت اس کا تعین کرےگی۔
مگر انا کی اس رشہ کشی کے باوجود بی کے نہروعمومی طور پر کچھ زیادہ مداخلت نہیں کرتے تھے۔ 1984میں جب اندرا گاندھی نے ان کو شیخ عبداللہ کی موت کے دو سال بعدوزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کو برطرف کرنے کے لیے کہا، تو انہوں نے منع کردیا۔ یعنی وہ واقعی مین آف بک تھے۔ جس کی وجہ سے ان کو گجرات ٹرانسفر کیا گیا اور ان کے جگہ جگموہن کو بطور گورنر کشمیر بھیجا گیا اور چند ماہ کے اندہی جولائی 1984 میں اس نے منتخب حکومت کو برطرف کردیا۔
جگموہن کا کہنا تھا کہ انہوں نے قومی مفاد میں کام کیا اور انہیں عبداللہ کے خلاف کارروائی کرنی پڑی۔ ان کا الزام تھا کہ ریاستی حکومت پنجاب اور پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس موقف اختیار نہیں کر رہی تھی۔ 13 اکتوبر 1983 کو، ویسٹ انڈیز اور انڈیا کے درمیان سرینگر میں کرکٹ میچ کے دوران،جھنڈے لہرائے گئے تھے اور پاکستانی کھلاڑیوں کی قدم آدم تصویریں لگائی گئی تھیں۔
مرکزی حکومت نے کھلے عام اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ فاروق عبداللہ ریاست کا کنٹرول کھو رہے ہیں۔ مگر سوال ہے کہ کیا کرکٹ میچ کے واقعہ کوجواز بنا کر منتخب حکومت کو برخاست کیا جانا جائز تھا؟ فاروق عبداللہ کے معزول ہونے کے صرف تین ماہ بعدہی اندرا گاندھی کو ان کے سکھ محافظ نے قتل کر دیا۔
کشمیر کے گورنر بھی کس قدر بے کس اور بے خبر ہوتے ہیں، اس کی مثال ستیہ پال ملک ہیں، جوہندوستان کی چار ریاستوں کے گورنر رہ چکے ہیں۔ 4 اگست 2019 کی شام تک وہ تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت سب کو بتا رہے تھے کہ انہیں جموں و کشمیر کے حوالے سے کسی آئینی تبدیلی کی تیاری جیسی کسی چیز کا علم نہیں ہے۔ انہوں نے 5 اگست 2019 تک کی تمام بے چینی اور گھبراہٹ کو افواہوں کی پیداوار قرار دیا۔
دی وائر کے لیے کرن تھاپر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، ملک کا کہنا تھا کہ 4 اگست 2019 کی شام دیر گئے کہیں رات 10 سے 11 بجے کے درمیان، انھیں وزیر داخلہ امت شاہ کا فون آیا جس نے انھیں کچھ کاغذات پر دستخط کرنے کو کہا،جو اگلی صبح ایک خصوصی طیارے کے ذریعے دہلی سے پہنچیں گے۔
چونکہ گورنر راج کے وقت کشمیر میں اسمبلی کے پاور گورنر کو منتقل ہوجاتے تھے، اس لیے دفعہ 370 کے مندرجات کے خاتمہ کے لیے ان کی سفارش درکار تھی۔ ستیہ پال ملک،نے اعتراف کیا کہ گورنر ہوتے ہوئے بھی وہ اس عمل میں شریک نہیں تھے اور اسی طرح لاعلم تھے، جس طرح دیگر آبادی تھی۔۔ ایک طرح سے یہ 25 جون 1975 کی رات کا اعادہ تھا جب اندرا گاندھی کے پرائیویٹ سکریٹری آر کے دھون نے صدر فخر الدین علی احمد کے سامنے ایمرجنسی کا حکم نامہ پیش کیا اوران سے قانون پر دستخط لیے تھے۔
ایک اہم سوال ہے کہ جموں و کشمیر میں ریاستی حکومت پر براہ راست یا بالواسطہ کنٹرول رکھنے کے لیے نئی دہلی کی حکومتیں ہمیشہ اتنی خواہش مند کیوں رہی ہیں؟ ہندوستان کی دیگر ریاستیں، جیسے کہ اتر پردیش، بہار، مغربی بنگال، مہاراشٹر، کیرالہ، تامل ناڈو اور اڑیسہ میں مقامی علاقائی جماعتوں نے کامیابی کے ساتھ حکومتیں بنائی ہیں اور انہوں نے اپنی مدت بھی مکمل کی ہے۔
کشمیر میں اگر گورنر راج نہ بھی ہوا، تب بھی مقامی پارٹیوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ قومی پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں، یعنی کہ منتخب وزیر اعلیٰ با اختیار نہ رہے۔اب تو گورنر کو اختیارات دینے کے بعد تو وہ کسی چپراسی تک کا بھی احتساب نہیں کرسکے گا۔ پچھلے 438 سالوں میں کشمیری عوام کے حقیقی منتخب نمائندوں یا خود کشمیریوں نے بہت قلیل مدت تک اپنے اوپر حکومت کی ہے۔
کشمیر میں جاری شورش، ناراضگی یا مزاحمت کا یہ ایک اہم عنصر ہے، جس کا ادراک کسی کو نہیں ہے۔ ہند نواز افراد کو بھی شکایت ہے کہ آخر اس خطہ کے ساتھ تامل ناڈو یا مغربی بنگال جیسا سلوک کیوں نہیں کیا جاتا ہے؟ ہندوستانی حکومت و سیاسی و دیگر اداروں کا برتاؤ ہی کھلے عام کہتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ اس لیے دیگر ریاستوں کے برعکس سلوک کیا جاتا ہے۔
Categories: فکر و نظر