خبریں

کانوڑ یاترا: دکانوں پر نام لکھنے کے یوپی اور اتراکھنڈ حکومت کے حکم پر سپریم کورٹ کی روک

اتر پردیش کی مظفر نگر پولیس نے اس طرح کے احکامات جاری کیے تھے کہ کانوڑ یاترا کے راستے پر واقع کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والے تمام دکانداروں کو دکانوں پر اپنے اور ملازمین کے نام لکھنے ہوں گے۔ اس کے کچھ دنوں بعد اتراکھنڈ کی ہری دوار پولیس نے بھی اسی طرح کے احکامات جاری کیے تھے۔

(السٹریشن: دی وائر)

(السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: کانوڑ یاترا کے راستے میں کھانے پینے کی دکانوں کے مالکان اور ان کے ملازمین کے نام لکھنے کی اتر پردیش اور اتراکھنڈ حکومتوں کی ہدایات پر سپریم کورٹ نے سوموار (22 جولائی) کو روک لگا دی۔

دی ہندو کے مطابق ، جسٹس رشی کیش رائے اور ایس وی این بھٹی کی بنچ نے کہا کہ دکان کے مالکان یہ ظاہر کر سکتے ہیں کہ ان کے یہاں کس طرح کا کھانا ملتا ہے، لیکن انہیں دکان پر اپنے اور اپنے ملازمین کے نام اور ذات لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سپریم کورٹ نے ان احکامات کو عدالت میں چیلنج کرنے والی ترنمول کانگریس کی رکن پارلیامنٹ مہوا موئترا سے پوچھا کہ کیا اتر پردیش اور اتراکھنڈ حکومتوں نے کوئی باضابطہ حکم جاری کیا ہے کہ کانوڑیاترا کے راستے پر واقع کھانے پینے کی دکانوں کو اپنے مالکان کے نام ظاہر کرنے ہوں گے۔

سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے موئترا کی جانب  سے عدالت میں پیش ہوتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش اور اتراکھنڈ حکومتوں کی طرف سے جاری کیا گیا حکم آئین کے خلاف ہے۔

سپریم کورٹ نے کانوڑ کے راستے میں آنے والی ریاستوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔ اس میں اتر پردیش، اتراکھنڈ، دہلی اور مدھیہ پردیش شامل ہو سکتے ہیں۔ جن ریاستوں کو فریق نہیں بنایا گیا ہے، لیکن وہ یاترا کے راستے میں آتی ہیں، ان ریاستوں کو بھی ازخود نوٹس جاری کیا گیا ہے ۔ کیس کی اگلی سماعت جمعہ (26 جولائی) کو ہوگی۔

یہ حکم ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کی جانب  سے دائر کی گئی ایک پٹیشن اور دو دیگر درخواستوں پر آیا- جو ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترا اور ماہر تعلیم اپوروانند جھا اور کالم نگار آکر پٹیل نے دائر کی تھی۔ اے پی سی آر کی نمائندگی سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ نے کی۔

درخواست گزاروں نے استدلال کیا کہ یہ ہدایات ملک کے سیکولر کردار کو متاثر کرتی ہیں، آئین کی تمہید میں درج نظریات اور اقدار کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور مساوات کے بنیادی حقوق، ذات پر مبنی تفریق نہ کرنے اور زندگی کے وقار کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، سنگھوی نے عدالت میں کہا ایسا پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ آئینی طور پر بھی  اس کی  حمایت نہیں کی جا سکتی ہے۔ کوئی بھی قانون پولیس کمشنروں کو ایسا کرنے کا حق نہیں دیتا۔ یہ ہدایات ہر ہاتھ گاڑی، چائے کی دکان والوں کے لیے ہیں… ملازمین اور مالکان کے نام بتانے سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا۔‘

سنگھوی نے یہ بھی دلیل دی کہ فوڈ سیفٹی اسٹینڈرڈز (لیبلنگ اور ڈسپلے) ریگولیشنز، 2020 مالکان کو ریستوراں کا نام ان کے نام سے رکھنے کی ہدایت نہیں دیتا  ہے۔

سنگھوی نے کہا، ‘ہندوؤں کے ذریعے چلائے جا رہے کئی ویجیٹیرین  ریستوراں ہیں، لیکن ان میں مسلمان ملازم ہیں۔ کیا میں کہہ سکتا ہوں کہ میں وہاں جا کرنہیں کھاؤں گا؟ کیونکہ وہ (مسلم ملازمین) کہیں نہ کہیں کھانے کوچھوتے ہیں؟‘

کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس بھٹی نے کیرالہ میں دو ہوٹلوں کے بارے میں ایک ذاتی کہانی شیئر کی، جن میں ایک ہندو  کے ذریعے چلایا جاتا ہے اور دوسرا مسلمان کے ذریعے۔ جسٹس بھٹی نے کہا کہ وہ اکثر مسلمانوں کے ویج ہوٹل میں جاتے ہیں کیونکہ یہ شخص صفائی کے بین الاقوامی معیار کا خیال  رکھتا ہے۔

ایسی خبریں  ہیں کہ ان ہدایات کی وجہ سے کانوڑ یاترا کے روٹ پر واقع دکانوں میں کام کرنے والے ملازمین کی زبردستی چھٹنی کی جا رہی ہے جو روزی کمانے، تجارت یا کاروبار کرنے کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔

ان ہدایات کے تحت افسران کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کانوڑیوں کو صفائی کے معیار کے مطابق اور ان کی پسند کے مطابق ویج کھانا پیش کیا جائے۔

تاہم، درخواست گزاروں کی جانب سے یہ بھی دلیل دی گئی کہ اس طرح کی ہدایات کا اثر کئی ریاستوں تک ہوتا ہے، اس لیے سپریم کورٹ کی جانب سے مداخلت کی ضرورت ہے۔

بتادیں کہ سب سے پہلے اتر پردیش کی مظفر نگر پولیس نے اس طرح کے احکامات جاری کیے تھے کہ کانوڑ یاترا کے راستے پر موجود کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والے تمام دکانداروں کو اپنے نام اور ملازمین کے نام لکھنے ہوں گے۔ اس کے پیچھے استدلال یہ تھا کہ اس سے کانوڑیوں میں کھانے پینے کے حوالے سے تذبذب  نہیں ہوگا۔

کچھ دنوں بعد اتراکھنڈ کی ہری دوار پولیس نے بھی اسی طرح کے احکامات جاری کیے تھے ۔

ان دونوں ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے۔ ان احکامات کی مخالفت نہ صرف اپوزیشن جماعتوں نے کی بلکہ بی جے پی کی قیادت والے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی مرکزی حکومت کے اتحادیوں نے بھی کی۔