‘راون نے سیتا کا اغوا بھیس بدل کر کیا تھا۔ مسلمان جب مسلم بستیوں میں ہوٹل چلاتے ہیں، تو اس کا نام ہندو دیوی-دیوتاؤں کے نام پر نہیں رکھتے۔‘ملاحظہ کیجیے این ایس اے کے تحت جیل جا چکے مظفر نگر کے یشویر مہاراج کا انٹرویو۔
مظفر نگر: سپریم کورٹ نے سوموار (22 جولائی) کو اتر پردیش اور اتراکھنڈ حکومت کو جھٹکا دیتے ہوئے کہا کہ کانوڑ رُوٹ پر کھانے پینے کی دکانوں پر دکانداروں کا نام ہونا ضروری نہیں ہے۔ صرف یہ بتایا جا نا کافی ہے کہ کس قسم کا کھانا یہاں ملتا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے اس تنازعہ کے موجد سوامی یشویر مہاراج نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘سپریم کورٹ کا فیصلہ مایوس کن ہے۔ سناتن سماج کو بیدار کرنے کی ہماری تحریک جاری رہے گی۔‘
‘ہمیں عدالت پر بھروسہ ہے۔ ہمیں انصاف ملے گا۔ عدالت نے ابھی صرف ایک فریق کو سنا ہے۔ ہندو فریق اپنا موقف مضبوطی سے رکھے گا۔ آنے والی شنوائی میں ہم مسلمانوں کی جانب سے ہندو دیوی-دیوتاؤں کے ناموں کے غلط استعمال سے نجات حاصل کر لیں گے۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اب ہندو تھوک اور پیشاب ملی ہوئی چیزیں نہیں کھائے گا۔ سناتن سماج کو بیدار کرنے کی ہماری تحریک جاری رہے گی۔‘
قابل ذکر ہے کہ مظفر نگر کے رہنے والے یشویر مہاراج پر قبل میں این ایس اے لگایا چکا ہے اور وہ جیل بھی جاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے قریبی بتائے جاتے ہیں۔ یشویر مہاراج کے آشرم میں بنائے گئے ‘مہنت اویدھ یا ناتھ بھون’ کا سنگ بنیاد سال 2015 میں یوگی آدتیہ ناتھ نےہی رکھا تھا۔ مہنت اویدھ یا ناتھ یوگی آدتیہ ناتھ کے گرو اور رشتہ دار تھے۔ انہوں نے ہی اپنے جانشین کے طور پر یوگی کو گئو رکش پیٹھ (گورکھپور) کے پیٹھادھیشور بنایا تھا۔
سنگ بنیاد کے بعد منعقدہ میٹنگ میں یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا ، ‘جس طرح دس سالوں میں دس فیصدمسلمان بڑھے ہیں ، یہی حالات رہے تو اگلے اسی سال میں ہندو ختم ہو جائیں گے۔’
آشرم تک جانے والی سڑک کے کنارے بیٹھے ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ،’میں اس بابا کو اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ یہ بھی جاٹ ہیں، میں بھی جاٹ ہوں۔ یہ خود کو وزیر اعلیٰ کے برابر مانتے ہیں۔ جب یوگی آدتیہ ناتھ وزیر اعلیٰ نہیں بنے تھے تو دونوں اسی آشرم میں اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے۔‘
یشویر مہاراج نے دعویٰ کیا کہ اتر پردیش اور اتراکھنڈ کی حکومتوں نے نیم پلیٹ لگانے کی ہدایت ان کی مہم کے بعد دی تھی۔ انہوں نے اس سلسلے میں اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ کو خط بھی لکھا تھا۔
مسلمانوں کو غدار قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ماں سیتا کااغوا راون بن کر نہیں کیا گیا تھا، انہیں بھیس بدل کر اغوا کیا گیا تھا۔ سناتن دھرم کے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے لوگ مختلف ناموں سے اپنے ہوٹل وغیرہ چلاتے ہیں۔ یہ اکثر ہندو اکثریتی آبادی میں کیا جاتا ہے۔ لیکن جب یہی لوگ مسلمانوں کی بستیوں میں ہوٹل وغیرہ چلاتے ہیں تو ان کا نام ہندو دیوی-دیوتاؤں کے نام پر نہیں رکھتے۔ مسلمانوں کے نام پر چلاتے ہیں۔ ہمت ہے تو مسلمانوں کی بستیوں میں بھی ہندو دیوی-دیوتاؤں کے نام پر ہوٹل چلا کر دکھاؤ۔ دیکھتے ہیں وہاں کے لوگ اس کو کتنا برداشت کرتے ہیں۔ منہ میں رام بغل میں چھری والا کام نہ کریں۔ اب یہ چالیں نہیں چلیں گی۔‘
ڈھابوں کا نام تبدیل کرنے کی تحریک
یہ مبینہ تحریک کورونا کی وبا کے بعد کانوڑ یاترا کے دوبارہ شروع ہونے کے ساتھ ہی شروع ہوئی تھی۔ اس وقت یشویر مہاراج نے مظفر نگر پولیس سے کہا تھا کہ ہندو ناموں والے کچھ ڈھابوں کے مالک دراصل مسلمان ہیں، جہاں کھانا کھا کر کانوڑیے ناپاک ہو رہے ہیں۔ اس وقت پولیس نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی، لیکن یشویر مہاراج اپنی مہم کو تیز کرتے رہے۔ وہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے، میڈیا میں ان کے چرچے ہونے لگے، اس طرح وہ انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے کی اپنی مہم میں کسی حد تک 2023 اور 2024 میں پوری طرح سے کامیاب ہوئے۔
یشویر مہاراج کا آشرم مظفر نگر ضلع کے بگھرا بلاک میں ہے۔ مظفر نگر سے شاملی جانے والی مرکزی سڑک سے آشرم کو جوڑنے کے لیےسرکار نے ایک خصوصی سڑک بنائی ہے۔
آشرم کے باہر پوسٹر پر ‘یوگ سادھنا یشویر آشرم’ لکھا ہوا ہے۔ آشرم کی زعفرانی دیوار پھیکی پڑ چکی ہے۔ آشرم کا مرکزی دروازہ ٹین کا بنا ہوا ہے جو اکثر بند رہتا ہے۔ دروازے پر دو سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں۔ آشرم کے پیچھے دور تک جنگل پھیلا ہوا ہے۔
لوگوں نے بتایا کہ رات دیر گئے آشرم میں گاڑیاں آتی رہتی ہیں۔ آشرم کے پیچھے جنگل میں درختوں سے گرے آم جمع کر رہے ایک شخص نے بتایا کہ یشویر مہاراج کا اپنے آس پاس کے لوگوں سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ یشویر دوسرے ہندو باباؤں کی طرح نہیں ہیں جن سے ملنے بھکت آتے رہتے ہیں۔
یشویر مہاراج نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تحریک کے بعد ہی اتر پردیش اور اتراکھنڈ کی حکومت نے دکانوں کے باہر نیم پلیٹ کے حوالے سے ہدایات جاری کی تھیں۔
‘ہم نے دیکھا کہ ہری دوار سے لے کر کانوڑ مارگ(رُوٹ) تک ایسی کئی کھانے پینے کی دکانیں ہندو دیوی-دیوتاؤں، ہندو مہاپرشوں اور مبہم ناموں سے چل رہی ہیں، جن کے مالک مسلمان ہیں…مسلمان ہندوؤں کے کھانے میں تھوک دیتے ہیں، پیشاب کر دیتے ہیں اور گائے کا گوشت ملا دیتے ہیں… پھر ہم نے آواز اٹھائی کہ کوئی بھی مسلمان ہمارے دیوی-دیوتاؤں کے نام پر اور گمراہ کرنے والے ناموں سے دکانیں نہ چلائیں۔ اپنے نام پر دکان چلائیں۔‘
ان کا غصہ صرف ڈھابے تک محدود نہیں ہے۔ وہ ٹھیلے والوں اور میوہ فروشوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔
‘فرض کریں کہ کانوڑ مارگ پر پھل بیچنے والا شخص دہشت گرد ہو یا کسی دہشت گرد سے مل چکا ہو۔ اس نے پھلوں میں کوئی کیمیکل یا زہر ڈال دیا ہو۔ پھر اس پھل کو کھانے کے بعد ہمارے کانوڑیے بھائی کو کچھ ہو جائے۔ پھل کھلانے کے بعد دہشت گرد تو ٹھیلہ لے کر بھاگ جائے گا۔ اگرٹھیلہ پر نام اور موبائل نمبر لکھاہوگا تو کھانے والے کو پتہ ہو گا کہ وہ کہاں کھا رہا ہے۔‘
لاء اینڈ آرڈر یا یشویر مہاراج کا دباؤ؟
حالیہ تنازعہ مظفر نگر ضلع انتظامیہ کے ایک نوٹس کے بعد شروع ہوا تھا۔ 17 جولائی کو مظفر نگر کے ایس ایس پی ابھیشیک سنگھ نے کھانے پینے کی دکانوں اور پھل/سبزی فروشوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ اپنے مالکان اور ملازمین کے نام ظاہر کریں۔
یہ فیصلہ انتظامیہ کا تھا لیکن یشویر مہاراج نے اسے اپنی جیت قرار دیا۔ ‘ضلع پولیس نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا،‘ یشویر مہاراج نے کہا۔
تاہم انتظامیہ نے اس فیصلے کے پس پردہ کسی دباؤ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ انتظامیہ کے مطابق یہ فیصلہ کانوڑ یاترا کے حوالے سے سرکاری میٹنگ میں کیا گیا تھا۔
انتظامیہ کے ساتھ اپنی بات چیت کے بارے میں یشویر مہاراج نے کہا، ‘جب ہم نے گزشتہ سال آواز اٹھائی تو مظفر نگر پولیس انتظامیہ نے ایسی تمام دکانوں کو سیل کرا دیا۔ لیکن کانوڑ کی تکمیل کے بعد ان دکانوں نے دوبارہ وہی کام شروع کر دیا۔ چنانچہ میں نے مظفر نگر کی کچہری میں دھرنا دیا۔ دو دن بھوک ہڑتال کی۔ اس کے بعد پولیس انتظامیہ نے ہماری بات مانی اور یقین دہانی کراتے ہوئے بھوک ہڑتال ختم کرائی۔ اس سال جب ہم نے دوبارہ آواز اٹھائی تو مظفر نگر پولیس نے ہمیں 24 جون کو میٹنگ کے لیے بلایا۔‘
’اس کے بعد پولیس انتظامیہ نے میری بات کو تسلیم کرتے ہوئے حکم جاری کیا۔ اس کے بعد ہم نے اپنی بات اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ تک پہنچائی، انہیں میری بات اچھی لگی اور فیصلہ پوری ریاست میں نافذ ہو گیا۔ پھر ہم نے اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی جی کو بھی خط لکھا اور ہری دوار اور روڑکی میں پریس کانفرنس کی۔ دھامی جی کو بھی ہماری بات اچھی لگی تو انہوں نے بھی پورے اتراکھنڈ میں لاگو کر دیا۔ پانی پت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ہم نے انتظامیہ اور وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی جی سے درخواست کی۔ ہمیں امید ہے کہ یہ ہریانہ میں بھی لاگو ہوگا۔‘
مظفر نگر میں مسلمانوں کے ’دھوکہ ‘دینے کی کوئی مثال نہیں ملتی
کانوڑیوں کا مظفر نگر سے گزرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ دی وائر نے یشویر مہاراج سے پوچھا کہ کیا وہ مظفر نگر کا ایک واقعہ بیان کر سکتے ہیں جب کسی مسلمان نےکسی کانوڑیے کو دھوکے سے کچھ کھلا دیا ہو، انہوں نے صاف جواب نہیں دیا۔
جب ان سے یہ سوال دوبارہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’ایسا ہوا ہے کہ اگر کوئی کانوڑ لے رہا ہے تو دوسری برادری کا کوئی شخص کسی بچے کو سکھا کر کانوڑیوں سے ٹکرانے کے لیے بھیج دے تاکہ کانوڑ گر جائے۔ کبھی کسی نے کانوڑ کے پاس گوشت رکھ ، انڈا رکھ دیا، کلی کردیا۔ یہی دیکھ کر میں نے مہم شروع کی۔‘
وہ ایک بھی واقعہ بیان نہیں کر رہے تھے جس میں کسی مسلم ہوٹل میں کانوڑیے کودھوکےسے کچھ غلط کھلا دیا ہو۔
تاہم، ایک ہندو ہوٹل کے ذریعے کانوڑیوں کو ممنوعہ کھانا پیش کرنے کے ایک حالیہ واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے جب یشویر مہاراج سے پوچھا گیا کہ دھوکہ کسی بھی مذہب کا آدمی کر سکتا ہے، تو انہوں نے کہا، ‘ایسا ہو سکتا ہے کہ وہاں کا کاریگر مسلمان ہو۔ خیر… ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو۔‘
دلی-دہرا دون ہائی وے پر بیجوپورہ چوراہے کے قریب واقع ‘تاؤ حقے والا ڈھابہ’ نے کانوڑیوں کو لہسن اور پیاز کا والا کھانا دے دیاتھا، جس کے بعد کانوڑیوں نے توڑ پھوڑ کی تھی ۔ ڈھابہ چلانے والے کا نام پرمود بتایا جارہا ہے ۔
پیغام انسانیت سمیت کئی مسلم تنظیمیں کانوڑیوں کی خدمت کے لیے مظفر نگر میں کیمپ لگاتی آ رہی ہیں۔
اس حوالے سے یشویر مہاراج کا کہنا ہے کہ ‘مسلم ادارے ایسی چیزیں صرف انہی علاقوں میں کرتے ہیں جہاں ہندو زیادہ تعداد میں ہوں۔ یہ سب گمراہ کن ہوتا ہے۔ یہی لوگ پچھلے سال میوات کیوں نہیں گئے؟ وہاں یاترا والوں کی حمایت میں کیوں نہیں کھڑے ہوئے؟ امرناتھ یاترا کے دوران دہشت گرد حملے ہوتے ہیں، وہاں کیوں نہیں جاتے؟‘
تبدیلی مذہب، مجرمانہ پس منظر اور این ایس اے
یشویر مہاراج مسلمانوں کا مذہب تبدیل کرانے کو لے کر بھی سرخیوں میں رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اب تک وہ اپنے آشرم میں 1200 مسلمانوں کو ہندو دھرم اختیار کرنے کی ترغیب دے چکے ہیں۔
دسمبر 2015 میں ٹائمز آف انڈیا نے کاندھلہ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او نریش یادو کے حوالے سے لکھا تھا کہ ایک ہندو لڑکی لاپتہ ہو گئی تھی، اور اس خاندان کا کرایہ دار محمد آصف بھی لاپتہ تھا۔ اگرچہ پولیس نے لاپتہ لڑکی اور کرایہ دار کو ڈھونڈ نکالا تھا، لیکن اس سے پہلے خوب تشدد کیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق، ’19 دسمبر کو وشو ہندو پریشد کے لوگوں نے ایک مقامی مندر میں ایک چھوٹی پنچایت کی اور پھر تھانے کی طرف بڑھے۔ وہ زبردستی تھانے میں گھس گئے اور ٹیبل کرسیاں توڑنا شروع کر دیں۔‘
اس واقعہ کے بعد 25 دسمبر کو کاندھلہ میں ایک مہاپنچایت کا اہتمام کیا گیا تھا، جہاں یشویر مہاراج نے مبینہ طور پر پیغمبر اسلام کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کیا تھا ۔ پولیس نے یشویر کے بھتیجے جتیندر کو گرفتار کیا، جو مہاپنچایت کے وقت ان کے ساتھ تھا۔ پولیس نے یشویر کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 153اے (مذہب کی بنیاد پر گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت مقدمہ درج کیا۔ اس کے بعد 28 دسمبر کو یشویر کو جاٹ کالونی (مظفر نگر) میں بی جے پی لیڈر کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔
دو جون، 2016 کو، یشویر مہاراج کو ملک کے لیے خطرہ مانتے ہوئے قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کی دفعہ لگائی گئی۔
وی ایچ پی نے یشویر کے خلاف این ایس اے کو ہٹانے کے لیے علاقے میں ایک مہم شروع کی تھی ۔ اگست 2016 میں یشویر مہاراج سے این ایس اے ہٹالیا گیا۔ این ایس اے ہٹائے جانے کے تین دن بعد 12 اگست 2016 کو وہ جیل سے باہر آئے تھے۔ تب بی جے پی لیڈروں نے ان کا پرتپاک استقبال کیاتھا، جس میں پارٹی کے ضلع صدر روپیندر سینی، سٹی ایم ایل اے کپل دیو اگروال، سابق ایم ایل اے اشوک کنسل وغیرہ شامل تھے۔
یشویر مہاراج اکثر ہندوتوا تنظیموں کے پروگراموں میں نظر آتے ہیں۔ 5 نومبر 2023 کو دادری (گوتم بدھ نگر) کے شادی پور چھڈولی میں منعقد ‘وشال دھرم سبھا’ میں یشویر مہاراج نےسدرشن نیوز کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے کے ساتھ اسٹیج شیئر کیا تھا۔
یشویر مہاراج کو اس سال رام مندر کی پران پرتشٹھا کی تقریب میں مدعو کیا گیا تھا، اور وہ وہاں گئے بھی تھے۔
Categories: فکر و نظر, گراؤنڈ رپورٹ