خبریں

آندھرا پردیش اور بہار کو خصوصی پیکیج دینے سے سرکاری خزانے پر 20-30 ہزار کروڑ روپے کا بوجھ پڑے گا

مالی سال 2025 کے عبوری بجٹ میں ریاستوں کی خصوصی امداد کی مانگ کے مد میں 4000 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، لیکن بجٹ میں اس کو بڑھا کر 20000 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ آندھرا پردیش کو اس مالی سال کے لیے 15-20000 کروڑ روپے مل سکتے ہیں۔ وہیں، بہار کو 5000 سے 10000 کروڑ روپے ملنے کی امید ہے۔

نریندر مودی، چندر بابو نائیڈو اور نتیش کمار وزیر اعظم کےہمراہ ایک میٹنگ میں۔ (تصویر بہ شکریہ: بی جے پی)

نریندر مودی، چندر بابو نائیڈو اور نتیش کمار وزیر اعظم کےہمراہ ایک میٹنگ میں۔ (تصویر بہ شکریہ: بی جے پی)

نئی دہلی: مودی حکومت کی تیسری میعاد کے پہلے عام بجٹ میں دو ریاستوں آندھرا پردیش اور بہار کو خصوصی اقتصادی پیکیج دیا گیا ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کے دو اہم اتحادی تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) اور جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) کی حکومت ہے۔

رپورٹ کے مطابق بزنس اسٹینڈرڈ نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے ان دونوں ریاستوں کو دیے گئے خصوصی پیکیج سے سرکاری خزانے پر 20000 سے 30000 کروڑ روپے کا بوجھ پڑ سکتا ہے۔

اخبار کے مطابق، آندھرا پردیش کو مالی سال 2024-25 کے لیے 15000 سے 20000 کروڑ روپے مل سکتے ہیں۔ وہیں، بہار کو 5000 سے 10000 کروڑ روپے ملنے کی امید ہے۔ اس میں سے زیادہ تر رقم کا الاٹمنٹ اسپیشل اسسٹنس انڈر دی ڈیمانڈ-ٹرانسفر ٹو اسٹیٹ کے مدکے تحت کیا گیا ہے۔

معلوم ہو کہ مالی سال 2025 کے عبوری بجٹ میں اس مد کے لیے 4000 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، لیکن بجٹ میں اس رقم کو 4 گنا بڑھا کر 20000 کروڑ روپے کردیا گیا۔

واضح ہو کہ گزشتہ ماہ جون میں آئے  لوک سبھا انتخابات کے نتائج میں بی جے پی واضح اکثریت سے محروم رہ گئی تھی اور ایسے میں جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی مرکز میں مودی حکومت کے استحکام کے لیے اہم اتحادی ہیں۔ دونوں ریاستوں نے بجٹ سے پہلے ہوئی میٹنگ میں اپنی اپنی ریاستوں کے لیے خصوصی پیکیج کا مطالبہ کیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ مالیاتی پیکج میں ان دونوں ریاستوں کے لیے بڑے پیمانے پر مختص کیے جانے کو بی جے پی کی اس کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ اس کے اتحادی مطمئن رہیں۔

تاہم، ماضی میں، ٹی ڈی پی سربراہ چندرابابو نائیڈو اور جے ڈی یو سپریمو نتیش کمار دونوں ہی اپوزیشن گروپوں کا حصہ رہے ہیں اور بی جے پی کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔