نٹور سنگھ ایک زیرک اور کامیاب سفارت کار تھے، گاندھی خاندان کے بے حد قریبی مانے جاتے تھے، مگر سیاست کسی کی دوست نہیں ہوتی ہے، یہ بس مفادات کی آبیاری کانام ہے۔ کانگریس ان سے دور ہوگئی، تو نٹور سنگھ اور ان کے بیٹے جگت سنگھ بھی خود تمام عمر کے پالے ہوئے نظریہ کو لات مار کر بی جے پی کی گود میں بیٹھ گئے، جہاں ان کے نظریہ ساز نہرو کو دن رات گالیاں دی جا رہی ہیں۔
مجھے یاد آتا ہے کہ 28مئی 1998کی دوپہر ہندوستان کے پارلیامنٹ کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں دس دن قبل کیے گئے جوہری دھماکوں پر بحث ہو رہی تھی۔ میں پریس گیلری کی اگلی صف، بالکل اسپیکر کی کرسی کے عین اوپر سے اس بحث کو کور کر رہا تھا۔
وزیر داخلہ لال کرشن ادڈوانی نے بتایا کہ ہندوستان کے جوہری دھماکوں سے خطے میں طاقت کا توازن ہندوستان کے پلڑے میں جھک گیا ہے، جس کا پاکستان کو ادراک ہونا چاہیے۔
پارلیامانی امور کے وزیر مدن لال کھرانہ نے پاکستان کو دھمکی دی کہ دو دوہاتھ کرنے کے لیے وہ میدان چنے ۔دوپہر چاربجے کے آس پاس اپوزیشن کانگریس پارٹی کے راجستھان سے رکن پارلیامان نٹور سنگھ ایوان میں داخل ہوئے۔ 1984 تک وزارت خارجہ کے ساتھ وابستہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے صبح کانگریس پارٹی کی طرف سے نہایت مدلل تقریر کی تھی۔ اس وقت اگلی بنچ پر جاکر انہوں نے پہلے لیڈر آف اپوزیشن شرد پوار کے کان میں کچھ کہا، اور پھر اسپیکر بالا یوگی کو ایک سلپ بھجوا دی۔ اس کانا پھوسی سے لگ رہا تھا کہ کوئی اہم واقعہ وقوع پذیر ہو گیا ہے۔
بائیں بازو محاذکے زیرک لیڈر سومناتھ چٹرجی اس وقت تقریر رکر رہے تھے۔ انہوں نے چٹرجی کو بھی اشارہ کیا کہ وہ کوئی اہم بات ایوان کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔ چٹرجی نے ان کو فلور دے دیا۔
نٹور سنگھ نے بتایا کہ ان کو اطلاع ملی ہے کہ چند منٹ قبل پاکستان نے جوہری دھماکے کیے ہیں۔ ایوان میں شور شرابہ اور ہنگامہ مچ گیا۔
اسی ہنگامہ کے درمیان وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اورایل کے اڈوانی ایوان سے باہر چلے گئے۔ یہ تو آگ میں گھی ڈالنے والا معاملہ تھا۔مگر شور شرابہ کے دوران ہی وزیر اطلاعات سشما سوراج نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ اسی اطلاع کی تصدیق کرنے کے لیے باہر گئے ہیں۔
چٹرجی نے جب تقریر دوبارہ شروع کی، تو انہوں نے سوال کیا کہ آخر اپوزیشن لیڈر کو اس دھماکہ کی اطلاع پہلے کیسے موصول ہوئی اور حکومت اور اس کے خفیہ اداروں کو ابھی تک پتہ ہی نہیں ہے؟
تھوڑی دیر کے بعد واپس آکر واجپائی نے پاکستان کے جوہری دھماکو ں کی تصدیق کی، اور بتایا کہ یہ ایک نئی پیش رفت اور صورتحال ہے، اس کا اب ادراک کرنا ضروری ہے۔ جن اراکین کے اب بولنے کی باری تھی، انہوں نے بھی کہا کہ صورتحال تبدیل ہو چکی ہے، اس لیے اب بحث کو مؤخر کیا جائے اور اگلے دن وہ تیاری کرکے آئیں گے۔
ہندوستان کو پاکستان کے جوہری دھماکوں کی بریکنگ نیوز دینے والے نٹور سنگھ کا ابھی 10اگست کو نئی دہلی میں انتقال ہوگیا۔ وہ 93 برس کے تھے۔
پاکستان کے جوہری دھماکوں کی پندرہ منٹ بعد ہی اطلاع ملنے کی وجہ سے نٹور سنگھ نے اگلے چند روز خوب واہ واہی لوٹی، جس پر واجپائی نے اپنے مخصوص انداز میں پھبتی کسی کہ ان کو معلوم ہے کہ سنگھ کی نظریں سرحد پار ہی لگی رہتی ہیں۔
ویسے بتایا جاتا ہے کہ آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی بھی ان پر اس وجہ سے مہربان تھیں کیونکہ 1971 میں پولینڈ میں ہندوستان کے ایک سفارت کار ہوتے ہوئے انہوں نے وہاں پاکستانی سفارت خانہ میں مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) سے تعلق رکھنے والے سفار ت کار تک رسائی حاصل کی تھی۔ جس سے ان کو بہت اہم معلومات حاصل ہو تی تھیں اور وہ ان کو براہ راست وزیر اعظم اور ان کے قریبی مشیروں کو پہنچاتے تھے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جب اندرا گاندھی نے سابق راجے مہاراجوں کے وظیفے بند کروائے، تو ان شاہی خاندانوں کو رام کروانے کا کام نٹور سنگھ کو ہی سپرد کردیا، جو انہوں نے بخوبی نبھایا۔
راجستھان کے بھرت پور راجواڑہ کے شاہی خاندان سے ان کا تعلق تھا اور بقول ان کے 1953 میں سول سروس کا امتحان پاس کرکے وہ راجستھان کے پہلے انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس اور فارن سروس آفیسر بنے۔
ان دنوں فارن سروس میں بھرتی ہونے والوں کی پوسٹنگ سے قبل وزیر اعظم جواہر لال نہرو ان کا خو د ہی انٹرویو لیتے تھے۔
اس لیے وہ گفتگو میں بار بار نہرو کا ذکر کرتے رہتے تھے اور لگتا تھا کہ ان کی شخصیت پر ان کی گہری چھاپ ہے۔ مگر کیا کیا جائے سیاست کا کہ عمر کے آخری دنوں وہ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے حامی بن گئے تھے، جو نہرو کو نیچا دکھانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔
منموہن سنگھ کی حکومت میں 2004-2005 میں نٹور سنگھ وزیر خارجہ رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سونیا گاندھی نے ان کو خود کہا کہ امریکی ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ نٹور سنگھ کو وزارت خارجہ کا قلمدان نہ دیا جائے۔
جب سونیانے ان کو کوئی اور وزارت لینے کے لیے کہا، تو انہوں نے انکار کردیا۔ 1998میں سونیا گاندھی کے سیاست میں قدم رکھتے ہی وہ ان کے خارجی امور کے مشیر بن گئے تھے۔
اس سے قبل انہوں نے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی وزارت میں 1985-1986 تک اسٹیل، کانوں اور کوئلہ اور زراعت کے مرکزی وزیر مملکت کے طور پر بھی خدمات انجام دیں، اس کے بعد اسی حکومت میں 1986-1989 کے دوران وزارت خارجہ میں وزیر مملکت کے طور پر کام کیا۔
شاہی خاندان اور پھر سفار ت کار ہونے کی وجہ سے وہ نخوت سے بھر پو رتھے۔میڈیا کو تو وہ خاطر میں لاتے ہی نہیں تھے۔ مگر خاصے وسیع المطالعہ شخص تھے۔ قومی روزناموں اور کئی بار نیویارک ٹائمس کے لیے بھی وہ بک ریویو پر مبنی کالم لکھتے تھے۔
ان سے ملتے وقت یہ دھیان رکھنا پڑتا تھا کہ انکا پہلا سوال ہوگا کہ آجکل کونسی کتاب پڑھ رہے ہو؟ اگر بدقسمتی سے وہ کتاب انہوں نے پڑھی ہو، تو سوال پر سوال داغتے تھے۔جب موڈ ہوتا تھا تو سفارت کاری کے دوران پیش آئے واقعات وہ نمک مرچ لگا کر سناتے تھے۔ان میں سے کئی واقعات کو انہوں نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں بھی قلمبند کیا ہے۔
وزارت خارجہ میں بھرتی کے دوسال بعد ان کو سعودی عرب کے بادشاہ سعود بن عبدالعزیز کے دورہ کے انتظامات کی ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ شاہ سعود ایک بہت بڑا وفد لے کر آئے تھے، جس میں کئی نوجوان شہزادے شامل تھے۔
ایرپورٹ پر وزیر تعلیم مولانا ابو الکلام آزاد نے ان کا استقبال کیا۔ چونکہ وہ عربی زبان پر عبور رکھتے تھے، بادشاہ ان سے جلدی گھل مل گئے۔
دورہ کے دوران وفد میں شامل شاہی خاندان کے افراد کو بذریعہ ٹرین آگرہ لے جایا گیا، جہاں شہزادوں نے کچھ خواتین کو چند خدمات کے عوض نقدی کے بدلے سونے کے بسکٹ دیے۔ یہ خبر شہر میں کیا پھیلی کہ ہوٹل کے باہر خواتین کا ایک ہجوم جمع ہوگیا۔ اس حد تک کہ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ درپیش آگیا۔
وزیر اعظم نہرو تک جب بات پہنچی، تو اس نے چیف آف پروٹوکول کو یہ معاملہ شاہ کے علم میں لانے کے لیےکہا۔ شاہ نے چیف آف پروٹوکول سے مطالبہ کیا کہ ان کو شہزادوں کے نام دیے جائیں، جوایسی حرکت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ وہ شام تک ان کے سر اتار کر نہرو کو بھیج دیں گے۔ چیف آف پروٹوکول دم دبا کر بھاگ گیا اور نہرو کو بتایا کہ اس معاملہ کو گول کردیں اور شاہ کے سامنے اب اشاروں میں بھی اس کا کوئی ذکر نہ کریں۔
اسی طرح مارچ 1955 کو کمبوڈیا کے بادشاہ نورودوم سیہانوک ہندوستان کے سرکاری دورے پر آئے تھے۔ وہ اپنے ساتھ پانچ بدھ راہبوں کو بھی لے کر آگئے تھے۔ چونکہ بدھ مت کا جنم ہی ہندوستان میں ہوا ہے۔ ہندوستان نے میزبانی کے لیے پانچ بدھ بھکشووں کی خدمات حاصل کی تھیں۔ دونوں طرف کے بھکشووں نے آپس میں بدھ مت کی مقدس پالی زبان میں بات کی۔
سفارت کار خوش تھے کہ دونوں طرف خیر سگالی اور رابطہ کا بہت اچھا پیغام جا رہا ہے۔ بھارت کے بدھ راہبوں کے لیڈر نے ہوٹل پہنچ کر اپنے کمبوڈیا کے ہم منصب سے پوچھا کہ کھانے میں وہ کیا پسند کریں گے؟ تو کمبوڈیا کے راہبوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ ان کو بیف یعنی گائے کا گوشت چاہیے۔ اتنا سننا تھا کہ ہندوستانی بھکشو بے ہو ش ہوتے ہوتے رہ گئے۔
مارچ 1983کو پھر نومبر1983میں ہندوستان میں بالترتیب ناوابستہ ممالک اور پھر دولت مشترکہ کے ممالک کی چوٹی کے اجلاس منقعد ہوئے۔ ان دونوں اجلاسوں کے منتظم کے بطور اندراگاندھی نے نٹور سنگھ کا انتخاب کیا۔
جہاں ایک سربراہ مملکت کے دورے سے حکومت اور اس شہر کی سٹی گم ہو جاتی ہے، اب اگر سو کے قریب سربراہان مملکت شہر میں موجود ہوں تو کیا سماں ہوگا۔ ان کے آنے سے قبل ان کی سیکورٹی ٹیم اور پھر ان کے وفود کو بھی سنبھالنا پڑتا ہے۔ شمالی کوریا کی ایڈوانس ٹیم نے نٹور سنگھ کو کہا کہ ان کو پورا ہوٹل درکار ہے، اور اس میں اور کوئی نہیں ہونا چاہیے اور جب ان کا لیڈر سڑک پر ہو، تو ایک گھنٹہ قبل اس پر کوئی ٹریفک نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح ان کے لیڈر کے آس پاس آٹھ سیٹوں تک کوئی اور نہ بیٹھے۔
وہ اس وفد کے سربراہ کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ تقریبا سو کے قریب سربراہان آرہے ہیں اور کیسے ایک پورا ہوٹل اور ایک پوری سڑک ان کے لیے وقف کرسکتے ہیں۔ نٹور سنگھ کہتے ہیں کہ پوری حکومت کا چین لٹ چکا تھا، جب تک یہ خبر نہیں آئی کہ شمالی کوریا کے عظیم لیڈر نے سمٹ میں آنے کا فیصلہ رد کردیا ہے اور وہ اپنے وزیر خارجہ کو اجلاس میں شرکت کے لیے بھیج رہے ہیں۔
دولت مشترکہ کا سربراہی اجلاس 1985میں ویسٹ انڈیز کے پاس بہاماس کے دارالحکومت ناساؤ میں منعقد ہونے والا تھا۔ان کو وزیر اعظم راجیو گاندھی نے بتایا کہ وہاں جاکر معلوم کریں کہ اس اجلاس کو منعقد کرنے کے حوالے سے کیسے ان کی مدد کی جاسکتی ہے؟ نٹور سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ پہلے نیو یارک چلے گئے اور وہاں اقوام متحدہ میں اپنے مستقل نمائندے سے کہا کہ وہ بہاماس کے سفیر سے رابطہ کرکے وزیر اعظم سر لنڈن آسکر پنڈلنگ سے ملاقات کا بندوبست کروادیں۔ مگر کئی روز تک کوئی پیغام نہیں آیا۔
انہوں نے واشنگٹن میں بھی بہاماس کے سفارت خانے سے رابطہ کیا۔ مگر کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ایک روز ان کو اپنے سفیر نے بتایا کہ معروف سادھو چندرا سوامی ان سے بات کرنا چاہتا ہے۔ جب انہوں نے فون اٹھایا، تو سوامی ہنس رہا تھا۔ ”کنور صاحب، پنڈلنگ سے ملاقات نہیں ہوئی۔“ نٹور سنگھ ابھی کچھ غصے میں بولنے والے تھے کہ سوامی نے کہا کہ کل بہاماس کا وزیر اعظم آپ سے ملاقات کر رہا ہے۔”میں نے انتظام کر دیا ہے۔“ جہاں ہندوستان کی پوری سفارت کاری ناکام ہو گئی تھی، وہاں سوامی کامیاب ہو گیا تھا۔
ہندوستانی سیاست میں چندر سوامی ایک عجیب و غریب کریکٹرکانام ہے۔ وہ بعد میں دھوکہ دہی اور کئی الزامات کے سلسلے میں جیل میں بھی رہا۔ مگر کئی سیاستدان اس کے آشرم میں پانی بھرتے نظر آتے تھے اور ایک زمانے میں اس کو بادشاہ گر کے طور بھی دیکھا جاتا تھا۔
نٹور سنگھ کا اس سوامی سے 1975 میں بھی واسطہ پڑا، جب وہ برطانیہ میں نائب سفیر تھے۔ وزیر خارجہ یشونت راو چوہان نے ان کو ہدایت دی تھی کہ سوامی کولندن میں لارڈ مونٹ بیٹن یا مارگریٹ تھیچر سے ملاقات کروانے کا بندوبست کروائیں۔ ”مرتا کیانہ کرتا، پہلے مونٹ بیٹن کے دروازے پر دستک دی، تو معلوم ہو اکہ وہ چھٹیاں منانے کہیں جا رہے ہیں۔ تھیچر اپوزیشن کی ایک توانا آواز بن کر ابھر رہی تھی، مگر وزارت اعظمیٰ سے ابھی بہت دور تھی۔“
نٹور سنگھ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح ایک انگریز خاتون ممبر پارلیامنٹ کو ایک سادھو سے ملنے کے لیے راضی کیا جائے۔ خیر وہ برطانوی پارلیامنٹ میں تھیچر کے دفتر پہنچے اور اس نے دس منٹ ملنے کے لیے حامی بھری۔ راستے بھر نٹور سنگھ چندرا سوامی کی ہدایت دیتے رہے کہ وہاں کوئی کھڑاک کھڑ انہ کرنا۔
خیر دفتر میں سوامی نے کاغذ کی چند پرچیوں پر مارگریٹ تھیچر کو کچھ سوال لکھنے کے لیے اور پھر ان کی گولی بناکر میز پر پھینکنے کے لیے کہا۔پھر اس نے ایک ایک گولی میں درج سوال ان کو کھولے بغیر تھیچر کے گوش گزار کیا۔
میٹنگ ختم ہوگئی، مگر تھیچر نے کہا کہ وہ پھر سوامی سے ملنا چاہتی ہیں اور اس بار ہندوستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر کے گھر پر نٹور سنگھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے گھر پر ڈنر کا اہتمام کیا اور سوامی صوفے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ کر تھیچر کو بتانے لگا کہ وہ ایک دہائی سے زائد برطانیہ کی وزیر اعظم ہوں گی۔ تھیچر نے پوچھا، مگر کب ا س عہدہ تک پہنچوں گی؟ سوامی نے جواب دیا کہ اگلے چار یا پانچ سالوں میں۔
تھیچر واقعی پھر 1979میں برطانیہ کی وزیر اعظم منتخب ہوگئیں۔کئی برسوں بعد جب ایک دن کسی تقریب میں نٹور سنگھ نے تھیچر کو، جو اب وزیر اعظم تھیں، یاد دلایا، تو اس نے اس کو ایک کونے میں لے جاکر ہدایت دی کہ اس واقعہ کا ذکر کہیں نہیں ہونا چاہیے۔
نٹور سنگھ، پاکستان میں ہندوستان کے ہائی کمشنر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنی اہلیہ ہیم کے ساتھ 20 مئی 1980 کو اسلام آباد پہنچے تو جہاز کی کھڑکی سے انہوں نے دیکھا کہ میڈیا کا ایک ہجوم ٹارمیک پر تھا۔ اس کے ساتھ ان کی نظر ایک سرخ قالین پر بھی پڑی۔
انہوں نے سوچا کہ ایسا بھی کیا کہ ہندوستان نے نئے ہائی کمشنر کا اس طرح استقبال ہو رہا ہے۔ وہ اسی زعم میں جب باہر نکلے، تو کوئی کیمرہ کلک نہیں ہوا۔ جب ایک دوسرا جہاز ٹارمیک پر آیا، تو پورا میڈیا اس کی طرف لپک پڑا، معلوم ہوا کہ مالدیپ کے وزیر خارجہ سرکاری دورہ پر پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد روانگی سے قبل نٹور سنگھ نے ہندوستان میں پاکستانی سفیر عبدالستار سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے ستار سے پوچھا کہ”بطور سفار تکار میں جانتا ہوں کہ سرحد پار اپنے دوستوں کو کیا کہنا ہے۔ مگر مجھے بتائیں کہ مجھے کیانہیں کہنا چاہیے؟’
ان کا صاف جواب تھا کہ”دیگر ہندوستانی سفارت کاروں اور سیاستدانوں کی طرح یہ کبھی مت کہوں کہ ہم ایک جیسے لوگ ہیں۔ اگر ہم ہوتے توہم 1947میں الگ ہی کیوں ہوتے۔“نٹور سنگھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ مشورہ گرہ میں باندھ لیا اور اس کو وہ آج تک نہیں بھولے ہیں۔
جنوری 1986 میں جب وہ راجیو گاندھی کی حکومت میں نائب وزیر خارجہ تھے، تو افغانستان کے صدر نجیب اللہ کا استقبال کرنے کے لیے وزیر اعظم نے ایر پورٹ جاتے ہوئے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھایا اور پوچھا ”نٹور، کیا ہم پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے والے ہیں؟“ راجستھان میں اس وقت فوج کے سربراہ جنرل سندرجی کی ایما پر فوجی مشقیں ہو رہی تھیں جو ایک بڑا مسئلہ بن گئی تھیں۔ اس وقت کے وزیر مملکت برائے دفاع ارون سنگھ نے اس کی منظوری دی تھی۔
وزیر اعظم نے ان سے اور وزیر خارجہ این ڈی تیواری کو امریکی اور سوویت یونین کے سفیروں سے مل کر پاکستانی فوج کی نقل و حرکت کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے کہا۔ سوویت سفیروں نے جلد ہی اطلاع دی کہ سرحد پار کوئی فوجی جماو نہیں ہے۔
وزیر اعظم نے ایک میٹنگ بلائی اور جب وزارت خارجہ کی طرف سے تیواری اور سنگھ نے سفیروں کی معلومات رکھی، تو ارون سنگھ نے امریکی اور روسی سیٹلائٹوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگایا، اور کہا کہ ان کو اطلاع ہے کہ پاکستان حملہ کرنے والا ہے۔ میٹنگ ختم ہونے کے بعد وزیر اعظم نے وزیر خارجہ اور نٹور سنگھ، کو ر روک کر پوچھا کہ ایسے وزیر دفاع کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟
نٹور سنگھ نے کہا برطرفی کے علاوہ کیا کیا جاسکتا ہے؟ راجیو نے کہا کہ وہ ان کے اسکول کا ساتھی ہے۔ نٹور سنگھ اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ میں نے کچھ سختی سے کہا، ‘جناب، آپ دون سکول کی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے صدر نہیں ہیں، بلکہ ایک ملک کے وزیراعظم ہیں اور وزیر اعظم کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔
چند دن بعد ہی ارون سنگھ کو وزارت خزانہ میں تبدیل کر دیا گیا، بعد میں نہ صرف اس کو وزارت سے برطر ف کیا گیا، بلکہ راجیہ سبھا سے بھی مستعفی ہونے کے لیے کہا گیا۔ اس دوران صدر ضیاء الحق بھی فروری 1987 میں کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے راجیو گاندھی کو جنگ ہونے کی صورت میں خطرناک نتائج بھگتنے کی دھمکی دے چکے تھے۔
سال 2004 میں کانگریس پارٹی کے زیر قیادت اتحاد کی جیت کے بعدان کو وزیر خارجہ بنایا گیا۔ مگر ایک سال بعد ہی امریکی پال وولکر کی رپورٹ نے ان کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا،جس میں ان کانام ان سیاستدانوں اور کارباریوں کے ساتھ آیا تھا، جن کو عراقی صدر صدام حسین نے تیل کے کوپن دیکر نوازا تھا۔ کانگریس پارٹی نے اپنے آپ کو ان سے علیحدہ کردیا۔
منموہن سنگھ نے پہلے ان کو وزارت خارجہ سے ہٹا کر وزیر بے قلمدان بنایا اور پھر ان کو وزارت اور پھر کانگریس پارٹی ہی چھوڑنا پڑی۔ اس واقعہ سے قبل ہی سونیاگاندھی کا دل ان سے کھٹا ہو چکا تھا۔ مگر بتایا جاتا ہے کہ چونکہ امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدہ کے خد و خال طے ہو رہے تھے، تو واشنگٹن کی پہلی شرط نٹور سنگھ کو ہٹانے کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ انہوں نے عراق پر امریکی جنگ کی مخالفت کی تھی اس لیے امریکی ان سے بدلہ لے رہے تھے۔
انہوں نے اپنی سوانح حیات ون لائف از ناٹ انف کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ،
زندگی نقشے کے بغیر ایک سفر ہے۔ میرے باغ میں بہت سے پتے جھڑ گئے ہیں۔ اب کوئی ہار یا جیت نہیں ہے، صرف خود شناسی ہے۔ ہر صبح اب کوئی وعدہ نہیں ہے۔
وہ ایک زیرک اور کامیاب سفارت کار تھے، گاندھی خاندان کے نہایت ہی قریبی مانے جاتے تھے، مگر سیاست کسی کی دوست نہیں ہوتی ہے، یہ بس مفادات کی آبیاری کانام ہے۔
کانگریس ان سے دورتو ہوگئی، مگر نٹور سنگھ اور ان کے بیٹے جگت سنگھ بھی تو خود تمام عمر کے پالے ہوئے نظریہ کو لات مار کر بی جے پی کی گود میں بیٹھ گئے، جہاں ان کے نظریہ ساز نہرو کو دن رات گالیاں دی جا رہی ہیں۔
واہ راے سیاست تیرے انداز۔
Categories: فکر و نظر