ایک دہائی بعد جموں و کشمیر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے پہلے جیل سے لوک سبھا کا انتخاب جیتنے والے انجینئر رشید کی ضمانت پراندازہ لگایا جا رہا ہے کہ رشید کی عوامی اتحاد پارٹی بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کی پراکسی ہے۔
سری نگر: دہلی کی ایک عدالت نے شمالی کشمیر کے لوک سبھا ایم پی انجینئر رشید کو عبوری ضمانت دے دی ہے۔ رشید کی رہائی کے بعد جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات سے قبل ان کی پارٹی کی انتخابی مہم میں تیزی آنے کا امکان ہے۔
منگل (10 ستمبر) کو ٹیرر فنڈنگ کے الزام میں نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں بند رشید کو دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے عبوری ضمانت دی ہے۔
معلوم ہو کہ جموں و کشمیر میں ایک دہائی کے بعد اسمبلی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں، عوامی اتحاد پارٹی (اے آئی پی) کے فائر برانڈ لیڈر اور شمالی کشمیر کے لنگیٹ انتخابی حلقہ سے دو بار ایم کے ایل اے رشید نے اسمبلی انتخابات سے قبل اپنی پارٹی کے امیدواروں کی انتخابی مہم چلانے کے لیے ضمانت کے لیے عدالت کا رخ کیا تھا۔
جموں و کشمیر میں تین مرحلوں میں 18 ستمبر، 25 ستمبر اور ایک اکتوبر کو انتخابات ہونے ہیں، جس کی وجہ سے عدالت نے رشید کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے انہیں 2 اکتوبر تک ضمانت دے دی ہے۔
اگرچہ اے آئی پی لیڈر کو ٹیرر فنڈنگ کے سنگین الزامات کا سامنا ہے، لیکن دہلی کی ایک عدالت سے ان کی ضمانت کی منظوری سے ان افواہوں کے زور پکڑنے کا امکان ہے کہ اے آئی پی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی ) کی قیادت والی مرکزی حکومت کی پراکسی ہے اور رشید نے جیل سے رہائی کے بدلے سوداکیا ہے۔
تاہم، پارٹی نے ان افواہوں کی تردید کی ہے اور اپنے مخالفین پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس کے خلاف ہتک عزت کی مہم چلا رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اس سال کے شروع میں جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس (این سی) کے نائب صدر عمر عبداللہ کے خلاف شمالی کشمیر کے بارہمولہ انتخابی حلقہ سے رشید کی غیر متوقع جیت ہوئی تھی، جس کے بعد اے آئی پی کا قد مسلسل بڑھتا چلا گیا ہے۔ کشمیر چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر شیخ عاشق، جو سری نگر کے ایک ممتاز تاجر ہیں، نے حال ہی میں پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے۔
رشید کی پارٹی تقریباً تین درجن اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے، جن میں سے زیادہ تر کشمیر میں ہیں۔ ان کے چھوٹے بیٹے ابرار رشید پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔
ایک طرف عاشق کو گاندربل اسمبلی حلقہ سے عمر عبداللہ کے خلاف میدان میں اتارا گیا ہے تو دوسری طرف رشید کے بھائی خورشید احمد شیخ، جو ریٹائرڈ سرکاری ٹیچر ہیں کو لنگیٹ انتخابی حلقہ سے میدان میں اتارا گیا ہے۔
سابق سینئر حریت رہنما جی این حبی کے بیٹے جاوید حبی وسطی کشمیر کے چراری شریف انتخابی حلقہ سے اے آئی پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ سرکردہ حریت رہنما پیر سیف اللہ کے بھائی الطاف بھٹ بھی راج پورہ اسمبلی حلقہ سے اے آئی پی امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں۔
جیل میں بند علیحدگی پسند رہنما نعیم خان کے بھائی اور اور 2001 کے پارلیامنٹ حملے کےقصوروار افضل گورو کے بھائی بھی آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
تاہم، مبصرین کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں جاری سیاسی جوڑ توڑ بی جے پی کے ملک کے واحد مسلم اکثریتی علاقے میں حکومت بنانے کے خواب کا حصہ ہے، جہاں اسے لگتا ہے کہ رشید جیسے چھوٹے کھلاڑی اس کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی کے حامیوں میں کئی آزاد امیدواروں کے ساتھ جماعت اسلامی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے امیدوار بھی شامل ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اگر یہ چال کامیاب ہوتی ہے تو بی جے پی کشمیر میں ایک نئے انتخابی مساوات کے طور پر علیحدگی پسند نظریات کو مرکزی دھارے کے روپ میں پیش کرے گی،جسے حال ہی میں رشید کی پارٹی کی جانب سے مشتہر کیاگیا ہے۔ اس سے قبل جماعت اسلامی نے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرارداد پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا تھا۔
انتخابی مہم کے لیے وقت پرکشمیر کے انتخابی منظرنامے میں رشید کی موجودگی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی ) اور این سی جیسی روایتی مرکزی دھارے کی تنظیموں میں ہلچل پیدا ہونے کا امکان ہے، جنہوں نے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مرکزی حکومت کو گھیرا تھا۔
پی ڈی پی سربراہ اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی، جن کے دو نوجوان لیڈر شوپیاں سے راجہ وحید اور ترال سے ہربخش سنگھ نے حال ہی میں اے آئی پی میں شمولیت اختیار کی ہے، نے سوموار کو رشید کو ‘بی جے پی پراکسی’ قرار دیا۔
مفتی کا یہ تبصرہ جنوبی کشمیر کے شوپیان اسمبلی حلقہ سے ان کی پارٹی کے امیدوار یاور شفیع بندے کے اے آئی پی کارکنوں کے مبینہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس سلسلے میں، پولیس نے بعد میں کہا کہ انہوں نے دونوں جماعتوں کے درمیان ‘ہاتھاپائی’ کا نوٹس لیا ہے، لیکن کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے حال ہی میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں رشید کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنے والے عمر عبداللہ نے دعویٰ کیا تھا کہ بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے ان کے خلاف سازش کی تھی۔
گزشتہ ہفتے وسطی کشمیر کے گاندربل میں ایک انتخابی ریلی کے دوران رشید کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، ‘جب میں نے بارہمولہ سے لوک سبھا کا الیکشن لڑا ، تو ایک امیدوار جو سلاخوں کے پیچھے تھا، نے میرے خلاف پرچہ نامزدگی داخل کیا۔ یہ ایک عجیب انتخاب تھا۔ میں جانتا تھا کہ دہلی کے لیڈر مجھے پسند نہیں کرتے۔ لیکن اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔‘
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر