آر ایس ایس سے منسلک رسالے’آرگنائزر‘ کے مدیر پرفل کیتکر نے حال ہی میں کہا کہ اگنی پتھ اسکیم کو اس مقصد سے شروع کیا گیا ہے کہ شہریوں کو فوج کے لیے تیار کیا جا سکے۔
اگنی ویر کے نام سے فوج میں چار سال کے معاہدےپر ہونےوالی بھرتی اسکیم نے کافی تنازعات کو جنم دیا ہے۔ اس کی وجہ سے بی جے پی کو لوک سبھا انتخابات میں کچھ سیٹوں کا نقصان بھی اٹھانا پڑا تھا۔ اس کے باوجود راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اس اسکیم کی طرفداری کر رہی ہے۔
حال ہی میں، ایک ادارہ کے زیر اہتمام منعقد ایک لیکچر میں آر ایس ایس سے منسلک رسالے ’آرگنائزر‘ کے مدیر پرفل کیتکر سے پوچھا گیا کہ کیا ہندوستان میں بھی شہریوں کو اسرائیل جیسےمسائل کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے؟
انہوں نے کہا کہ اگنی پتھ اسکیم کو اسی مقصد سے شروع کیا گیا ہے اور اس اسکیم کے تحت لوگوں کو فوج کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
پرفل کیتکر کا بیان اگنی پتھ اسکیم کے لیے پیش کیے گئے حکومتی دلائل سے بالکل مختلف ایک نیا نکتہ پیش کرتا ہے۔
اگنی پتھ اسکیم کے حق میں ایک بات کہی جاتی رہی ہے کہ یہ فوج کو زیادہ جوان بنائے گی اور حکومت کے لیے پیسوں کی بچت ہو گی۔ اس اسکیم کے تحت حکومت کے لیےیہ ممکن ہوگا کہ وہ اپنی باقاعدہ فورس میں سے ایک حصے کی چھٹی کر سکے گی اور اس طرح وہ پنشن اور دیگر مراعات کے تحت دی جانے والی رقم کو بچا سکے گی۔ یہ حکومت کے لیے منافع بخش صورتحال ہوگی کیونکہ دفاعی امور کے لیے ہر سال 5 لاکھ کروڑ روپے کے بجٹ میں سے اسے اس مد میں 2.6 لاکھ کروڑ روپے دینے پڑتے ہیں۔
پھر کیتکر یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ اندرونی بحران کے دوران اسرائیل کی طرح فوجی تربیت حاصل کرنے والے اگنی ویر کی مدد لی جائے گی؟
یقیناً یہ ایک متنازعہ بات ہے۔ اسرائیل کس طرح اپنے ہی فلسطینی شہریوں کے ساتھ دوئم درجے کا سلوک کر رہا ہے۔ اس پر بین الاقوامی عدالت میں’نسل کشی‘ کا الزام لگایا گیا ہے، لیکن سنگھ کے سینئرسویم سیوک اس کی تعریف کر رہے ہیں۔
تاہم، اگنی پتھ کے کے حوالے سے تجزیہ کاروں نے پہلے بھی ایسی باتیں کہی ہیں کہ کس طرح وہ ہندوستانی سماج کو عسکری بنانے کی کوشش کر رہی ہے ۔
کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمار سوامی نے اس اسکیم پر کہا تھا کہ یہ ہندوستانی فوج کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ماتحت لانے کی اسکیم ہے۔
پرفل کیتکر نے جس بات کا انکشاف کیا ہے، وہ اس کی تائید کرتا ہے کہ تمام ریٹائرڈ فوجی افسران کی جانب سے اس اسکیم پر سوال اٹھا نے کے باوجود اس کو جاری رکھنے کے پس پردہ حکومت کا ضدی رویہ یوں ہی نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ہندوتوا بالادستی کے نظریے سے چلنے والی موجودہ حکومت کا ایک وسیع تر ایجنڈہ کام کر رہا ہے۔
اپنے قیام سے ہی سنگھ کی کوشش رہی ہے کہ عوام کومسلح بنایا جائے تاکہ’دھرم دروہیوں یعنی مذہب مخالف’کے خلاف ان کا بخوبی استعمال ہو۔ تیس کی دہائی سے ہی ’ہندوؤں کی عسکریت پسندی‘ کی باتیں ان کے درمیان اٹھ رہی تھیں۔ ہیڈگیوار، بابا راؤ ساورکر وغیرہ کے ساتھ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی بنیاد رکھنے والے ان کے سینئرمعاون/ سرپرست ہندو مہاسبھا کے بی ایس منجےنے اپنے دورہ اٹلی کے دوران مسولینی سے ملاقات کی تھی اور واپسی پر بھونسلا سینک اسکول قائم کیا تھا۔
ہندو مہاسبھا نے برطانوی فوج میں ہندو نوجوانوں کو بھرتی کرنے کی باقاعدہ مہم اس وقت شروع کی تھی جب دوسری جنگ عظیم میں برطانوی افواج سرگرم تھیں۔ مہم کا نعرہ ہی تھا ‘سینا کا ہندوکرن کرو اور ملک کا سینہ کرن کرو’۔
گزشتہ ایک دہائی سےنریندر مودی کے دور اقتدار میں بار بارسماج کو عسکری بنانے کے ارادوں کے بارے میں باتیں ہوتی رہی ہیں۔
سنگھ سپریمو موہن بھاگوت نے 2018 میں بہار کے مظفر پورمیں اپنی میٹنگ میں اعلان کیا تھا ۔ تھا کہ ان کے سویم سیوکوں میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ صرف تین دنوں میں فوج بنا سکتے ہیں – جسے سرحدوں پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔
مرکزی حکومت نے بھی یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ ‘سینک اسکولوں کا 67 فیصد سنگھ پریوار اور اس سے وابستہ تنظیموں اور بی جے پی لیڈروں کے حوالے کرے گی۔’
ہتھیاروں کی تربیت سے لیس بے روزگار وں کا یہ ہجوم ہندوتوا کے پھیلاؤ کا ایک آسان ذریعہ بن جائے گا اور ہندوستان کے تانے بانے کو ایک بڑا چیلنج پیش کرے گا اور جمہوریہ کے مستقبل کے لیے پریشان کن ہوگا۔
ایک ایسے معاشرے میں جو بہت زیادہ عسکریت پسند ہے، تنازعات کی صورت میں اکثریتی قوتیں اقلیتی برادریوں پر قہر برپا کر سکتی ہیں۔ اس بات کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگنی ویر کی سروس مکمل کر کے ہتھیاروں کی تربیت پانے والے نوجوان سماج میں شامل ہوں گے تو معاشرے پر اس کا کس قدرخراب اثر پڑ سکتا ہے۔
(سبھاش گاتاڈے بائیں بازو کے ایکٹوسٹ، مصنف اور مترجم ہیں۔)
(اگنی پتھ اسکیم سے متعلق سیریز پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )
Categories: فکر و نظر