ونیش اسٹیڈیم کو خیرباد کہہ کر ایک نئی راہ پر چل پڑی ہیں۔ ان سے پہلے بھی کھلاڑی سیاست میں آئے ہیں، لیکن ان سب نے اپنی مکمل پاری کھیلنے کے بعد پارلیامنٹ کا رخ کیا تھا۔ کیا ایک دم سے چنا گیا یہ راستہ ونیش کے لیے ثمر آور ہوگا؟
جند: ہریانہ کے جولانہ اسمبلی حلقہ میں پوسٹر پر کانگریس امیدوار کا نام لکھا ہے – ‘ونیش پھوگاٹ راٹھی’۔ یہ شاید پہلی بار ہے کہ دنیا اس قدآور پہلوان کو اس نام سے جان رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ونیش کی شادی جولانہ کے کھیڑا بختا گاؤں کے رہنے والےاورقومی سطح کے پہلوان سوم ویر راٹھی سے ہوئی ہے ۔
ظاہر ہے، ان کی پارٹی یہاں ونیش کو ‘جولانہ کی بہو’ کے طور پر پیش کر رہی ہے۔
اسی طرح اس انتخابی مہم سے پہلے بہت کم لوگوں نے انہیں سلوار سوٹ میں دیکھا ہوگا، لیکن ان دنوں وہ پوری کوشش کرتی ہیں کہ اپنے دوپٹے کو سر پر رکھیں اوران کا سر کھلا نہ رہے۔ تاہم، انہیں چند منٹوں سے زیادہ کامیابی نہیں ملتی۔
ان دوباتوں کے ذریعے آپ ایک اولمپک پہلوان، اقتدار کے خلاف سڑکوں پر جدوجہد کرنے والی ایک خاتون کو سیاستداں میں تبدیل ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔
غور کریں، انہیں سیاست میں آئے ایک مہینہ بھی نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے 6 ستمبر کو کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی اور اسی دن انہیں ٹکٹ دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس تبدیلی کا کیا مطلب ہے؟
سیاست میں آنے کے بعد ونیش کہیں زیادہ محتاط نظر آنے لگی ہیں۔ جو ونیش پہلے بے باکی سے میڈیا کے سوالوں کا سامنا کرتی تھیں، اب اپنے الفاظ کے بارے میں محتاط ہیں۔ پیرس اولمپک کے دوران ہندوستانی حکومت کے رویے کے بارے میں جب دی وائر نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا، ‘آپ تنازعہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں؟’
تاہم، کچھ دن پہلے انڈین ایکسپریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ونیش نے کہا تھا، ‘جس طرح سے مجھ سے میرا میڈل چرایا گیا، حکومت ہند، بین الاقوامی تنظیم، آئی او سی… ہر جگہ سیاست ہے… میں جانتی ہوں کہ میں نے سرکار سےکتنی لڑائیاں لڑی ہیں۔ آپ کے ڈرنک میں کسی کے کچھ ملا دینے کاڈر بنا رہتا ہے۔ میں جذباتی طور پر تباہ ہو گئی تھی۔‘
پیرس اولمپک کا سایہ اور جنتر منتر پر ان کے احتجاجی مظاہرے کی تصویریں بہت تازہ ہیں۔ عوامی یادداشت میں محفوظ ہیں۔ اگر اولمپک کے دوران ان کی زبردست ریسلنگ اس زخم کو مندمل کرنے کا ذریعہ تھی، جو اقتدار کی لاٹھیوں نے انہیں دیے تھے، تو یہ انتخاب اس دردکے خلاف مزاحمت ہے ،جس نے بدقسمتی سے میڈل چھن جانے پر ان کی روح کو مجروح کر دیاتھا۔
گویا،جس اقتدارو کو وہ پیرس کے اسٹیڈیم میں شکست نہیں دے پائی تھیں اس کو ہ اب انتخابی دنگل میں چت کرنا چاہتی ہیں۔ کیا یہ الیکشن ونیش کے لیے اقتدار کی نہیں بلکہ اپنے بقا کی جنگ ہے؟
جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے آزاد امیدوار کے بجائے کانگریس سے الیکشن کیوں لڑا، تو ونیش نے دی وائر کو بتایا، ‘پاور پانا میرا کوئی مقصد نہیں ہے، میں ناانصافی کے خلاف لڑنے آئی ہوں… میں کانگریس پارٹی میں اس لیے آئی ہوں کیونکہ یہ پارٹی ہمیشہ میرے ساتھ کھڑی رہی۔
‘لوگ میرے خلاف یہ باتیں کر رہے ہیں کہ میں پہلے ہی کانگریس پارٹی سے وابستہ تھی، تو ایسابالکل نہیں ہے۔ میں ابھی اس پارٹی میں شامل ہوئی ہوں، اور وہ بھی اس لیے کہ جو آپ کے برے وقت میں آپ کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں وہ آپ کے خاندان کی طرح ہوتے ہیں،‘ ونیش کہتی ہیں۔
جولانہ میں عورتوں کی آواز
اپنےہر انتخابی خطاب میں ونیش خود کو ‘آپ کی بہو’ کہتی ہیں، اور جولانہ کی خواتین اپنی ‘بہو’ کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں۔ان کے پروگراموں کے دوران خواتین لوک گیت گاتی رہتی ہیں اور جھومتی رہتی ہیں۔ اگرچہ ان خواتین کا پورا چہرہ گھونگھٹ میں ہوتا ہے، لیکن یہ پردہ اس ابلتی ہوئی آواز کو ایک ذرہ بھی مدھم نہیں کر پاتاجس میں وہ آپ کو ونیش کی بہادری کے قصے سناتی ہیں۔
جولانہ کے وارڈ 7 سے تعلق رکھنے والی ایک بزرگ خاتون کہتی ہیں،’ اتنی بڑی کھلاڑی ہماری بہو ہمارے دروازے پر ووٹ مانگنے آتی ہے ،تو کیسے مایوس کریں گے؟’
ایک بزرگ خاتون نے دی وائر سے کہتی ہیں،’ونیش نے دہلی میں برج بھوشن کے خلاف احتجاج کیا تھا، اسی کابدلہ لینے کے لیے حکومت نے انہیں میڈل نہیں جیتنے دیا۔ ہماری بچی کے ساتھ بے ایمانی کی، یہ صرف ونیش کی نہیں ، پورے علاقے کے لوگوں کی توہین ہے، اور ہم اس کا بدلہ اس الیکشن میں لیں گے۔‘
اکثر جگہوں پر جب ونیش انتخابی مہم کے لیے پہنچتی ہے تو خواتین کو ان کے استقبال کے لیے آگے بھیج دیا جاتا ہے۔ اسٹیج پر خواتین بھی موجود ہوتی ہیں۔ ہر خطاب میں ونیش لڑکیوں کے لیے کھیل کود میں بہتر مواقع کی بات کرتی ہیں۔ ونیش کے لیے مہم چلانے والی یہ عام دیہی خواتین ایک طرح سے ان کی طاقت بن گئی ہیں۔
اس کو آپ ان خواتین کا اجتماعی اثر سمجھیں کہ اپنے دقیانوسی خیالات اور خواتین مخالف واقعات کی وجہ سے سرخیوں میں رہنے والے ہریانہ کے اس پسماندہ علاقے کے بوڑھے بزرگ’اپنی بہو’ کا استقبال ہار پہنا کر کرتے ہیں اور پگڑی بھی پہناتے ہیں۔
اگر ونیش جیت جاتی ہیں تو وہ جولانہ کی تاریخ میں پہلی خاتون ایم ایل اے ہوں گی۔
کھیڑا بختا کے رہائشی کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں کی بہو نے دنیا بھر میں ان کے علاقےکا نام روشن کیا۔ پہلے جولانہ کو کوئی نہیں جانتا تھا، اب یہ ہریانہ کی سب سے اہم سیٹوں میں سے ایک ہے۔
خاندانی تنازعہ
ونیش کے خاندانی اختلافات نے اس الیکشن پر اپنا سایہ چھوڑا ہے۔ ونیش کا آبائی گاؤں بلالی ہریانہ کے چرخی دادری ضلع میں آتا ہے، لیکن ونیش اپنے سسرال کھیڑا بختا سے لڑ رہی ہیں۔ ان کے رشتہ داروں کے بیان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کے پیچھے ان کے خاندان کے اندرونی اختلافات ہیں۔
انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ جب سے انہوں نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، ان کی اپنی ماں سے بات نہیں ہوئی ہے۔
پہلوان سے سیاستداں بنیں ونیش کے چچا مہابیر پھوگاٹ نے نیوز ایجنسی اے این آئی کو بتایا تھا کہ وہ ونیش کے سیاست میں آنے کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ واضح ہو کہ مہاویر پھوگاٹ کی بیٹی اور سابق پہلوان ببیتا پھوگاٹ اب بی جے پی لیڈر ہیں۔
انتخابی جنگ
ونیش صبح جلدی اٹھتی ہیں۔ عام طور پر، صبح 9-10 بجے سے ان کی عوامی رابطہ مہم شروع ہوجاتی ہے اور وہ دن بھر اسمبلی حلقہ میں آٹھ دس مقامات کا دورہ کرتی ہیں۔
ونیش کے ساتھ کئی گاڑیوں کا قافلہ ہوتاہے۔ سب سےآگے انتخابی گیت بجاتی بولیرو، اس کے پیچھے ونیش کی نئی ایس یو وی جس کے دونوں طرف دو گارڈ لٹکے رہتے ہیں۔ پچھلی سیٹ پر ان کے پرسنل اسسٹنٹ نریش کمار ، جنہوں نے 18 ستمبر سے ان کے ساتھ کام کرنا شروع کیا ہے۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان نئی نئی لیڈر کو ابھی اپنی تقریر یاد نہیں ہوئی ہے۔ کانگریس لیڈر اسے علاقے کے مطابق کچھ نکات بتاتے ہیں (مثال کے طور پر، اگر وہ دلت پریرنا استھل پر ہیں، توسرو سماجی اور عوامی بہبود کی اسکیموں کے بارے میں، اور اگر یہ اناج منڈی میں ہے، تو تاجروں کے تحفظ کے بارے میں)، جنہیں وہ اپنی تقریر میں دہراتی ہیں۔ اگر کچھ ایشوز چھوٹ جاتے ہیں تو پیچھے کھڑا کوئی مقامی بزرگ کانگریسی انہیں یاد دلاتا ہے۔
اس کے باوجود جولانہ میں سب سے زیادہ بھیڑ ونیش کے جلسوں میں آ رہی ہے، جس میں خواتین کی تعداد نصف سے کم نہیں ہے۔ ‘ہمارا جولانہ اب انٹرنیشنل ہوچکا ہے،’ ونیش کے کے پروگرام میں شامل ایک بزرگ شخص کا یہ فخریہ بیان ہم نے کئی لوگوں سےسنا۔
لوگ ناراض ہیں کہ جب ‘ہریانہ کی بیٹی’ جنتر منتر پر ‘غلط کام’ کے خلاف احتجاج کرنے گئی تو اسے سڑک پر گھسیٹا گیا اور حکمراں بی جے پی نے اپنے ایم پی اور ریسلنگ فیڈریشن کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ کا دفاع کیا۔
اس انتخابی جنگ میں بہت سے عوامل ونیش کی مدد کر رہے ہیں – ذات کا فخر، مقامیت، مقبولیت اور بی جے پی کی ناکامی۔
جولانہ کے باشندے تقریباً متفق ہیں کہ منوہر لال کھٹر کی حکومت کسی کی نہیں سنتی تھی اور عوامی نمائندوں کو ملاقات کا وقت نہیں دیتی تھی۔ پیچیدہ آن لائن عمل کی وجہ سے عوام کے لیے فلاح عامہ کی اسکیموں کا فائدہ اٹھانا مشکل ہوگیا تھا۔ ساتھ ہی کسانوں کی تحریک کے دوران حکومت کے رویہ پر بھی ناراضگی ہے۔
ہریانہ کا دل
جولانہ ہریانہ کے مرکز میں ہے، اس لیے اسے ریاست کا دل بھی کہا جاتا ہے۔
پنجاب سے علیحدگی کے بعد ہریانہ میں پہلے اسمبلی انتخابات 1962 میں ہوئے تھے۔ لیکن اس وقت جولانہ اسمبلی وجود میں نہیں آیا تھا، یہاں پہلی بار دوسرے اسمبلی انتخابات کے دوران یعنی 1967 میں انتخابات ہوئے تھے۔ جولانہ سے پہلے ایم ایل اے ایک کھلاڑی ہی بنےتھے – چودھری دل سنگھ۔
دل سنگھ سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) کے سابق رکن تھے اور فٹ بال کے اچھے کھلاڑی بھی تھے ۔ انہوں نے 1939 میں لاہور میں ہندوستانی فوج کے کیولری ٹورنامنٹ میں میڈل جیتا تھا۔
اب تک جولانہ میں کل 14 بار انتخابات ہوئے ہیں، لیکن عوام نے کانگریس کو صرف چار بار موقع دیا ہے۔ کانگریس اس سے زیادہ بار ہریانہ میں وزیر اعلیٰ بنانے میں کامیاب رہی ہے۔
کانگریس گزشتہ تین انتخابات میں یہ سیٹ ہار چکی ہے، آخری بار اس نے 2005 میں جیتی تھی۔ گزشتہ انتخابات میں کانگریس کے امیدوار دھرمیندر سنگھ ڈھل تیسرے نمبر پر رہے تھے۔غور کریں، بی جے پی اس سیٹ سے ایک بار بھی نہیں جیت سکی ہے۔
دلت ووٹ کی طاقت
یہ مانتے ہوئے کہ جاٹ ووٹ تو طے ہے، کانگریس نے اپنی توجہ دلت ووٹوں پر مرکوز کی ہے۔ ونیش کی انتخابی مہم کے مقامات سے ایسا لگتا ہے کہ کانگریس دلت ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
مثال کے طور پر، 19 ستمبر کو، ان کی میٹنگ گوتم بدھ، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر، روی داس اور دوسرے عظیم اشخاص کی تصویروں سے مزین جولانہ کے شری سنت شرومنی سبھا کی عمارت میں تھی۔ اس دن دلت کمیونٹی کے عوامی نمائندوں، تاجروں، خواتین، بچوں اور بوڑھوں نے ان کی عزت افزائی کی۔ انہیں پھولوں کے ہار اور پگڑی پہنائی اور امبیڈکر اور بدھ کی تصویریں پیش کیں۔
اس سے ایک دن پہلے انہوں نے برہمن واس گاؤں کے ہریجن چوپال میں میٹنگ کی تھی۔
جاٹ برادری میں ونیش کا بھروسہ بے وجہ نہیں ہے۔ برہمن واس کے ایک دوسرے گاؤں سے ایک شخص ونیش کے پروگرام میں صرف اس لیے آیا تھا کہ ونیش کی شادی سوم ویر راٹھی سے ہوئی ہے، اور وہ خود ایک راٹھی ہے۔
برہمن واس میں ہی کانگریس کی حمایت کرنے والے برہمن خاندان کے ایک رکن نے بتایا، ‘جاٹ کواپنا چودھری (وزیراعلیٰ) چاہیے، اسی لیے وہ متحد ہو گئے ہیں۔ جاٹ بی جے پی سے ناراض ہیں اور بی جے پی غیر جاٹ ووٹ اکٹھا کرنے میں مصروف ہے۔ اس لیے جاٹ بھی متحد ہو گئے ہیں۔‘
بی جے پی کا بحران
جولانہ انتخابی حلقہ میں بی جے پی کے امیدوار کیپٹن یوگیش ویراگی کے سامنے پہلا چیلنج اپنی مقامیت کوثابت کرنا ہے۔ وہ سفیدوں (جند) کے پنجکلہ کے رہائشی ہیں۔ ویراگی کے نام کے اعلان کے بعد سابق انتظامی افسر اور بی جے پی لیڈر سریندر لاتھر نے ان پر ایک ‘بیرونی’ کو ٹکٹ دینے کا الزام لگاتے ہوئے اپنی پارٹی چھوڑ دی تھی۔ اب لاتھر جولانہ سے آئی این ایل ڈی اور بی ایس پی کے مشترکہ امیدوار ہیں۔
جند ہریانہ کا ایک پسماندہ ضلع ہے، جس کے باشندے عموماً کاشتکاری پر منحصر ہیں۔ کئی خاندانوں کے لوگ فوج میں جاتے رہے ہیں، لیکن اگنی پتھ اسکیم کے بعد مقامی لوگوں میں مرکزی حکومت کے خلاف غصہ ہے۔
بے روزگاری کے حوالے سے یہی غصہ ونیش کا بنیادی نکتہ ہے۔
‘اگر کھلاڑی آج گولڈ میڈل لے کر بھی آ رہا ہے تو اس کے لیے کوئی نوکری نہیں ہے۔ مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ اولمپک میں میڈل حاصل کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ مت سوچیے کہ نوکریاں صرف پڑھے لکھے لوگوں کے لیے نہیں ہیں۔ کسی بھی شعبے میں نوکریاں نہیں ہیں،’ ونیش کہتے ہیں۔
یہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں نوجوان اس امید پر کھیلوں کے لیے پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں کہ اسٹیڈیم میں کامیابی ان کے وجود اور ان کی زندگیوں کو معاشی تحفظ دونوں فراہم کرے گی۔ ونیش نے بالکل برعکس راستہ چنا ہے۔ وہ اسٹیڈیم چھوڑ کر ایک نئی راہ پر چل پڑی ہیں۔ ان سے پہلے بھی کھلاڑی سیاست میں آئے ہیں، لیکن ان سب نے اپنی پوری کھیلنے کے بعد پارلیامنٹ کا رخ کیا تھا۔
کیا ایک دم سے چنا گیا یہ راستہ ونیش کے لیے ثمر آورہو گا؟
ان کے اس سفر پر بے شمار نگاہیں جمی ہوئی ہیں۔
Categories: الیکشن نامہ, گراؤنڈ رپورٹ