خبریں

ٹیکس فراڈ کیس میں گرفتار صحافی کے وکیل بولے – مہیش لانگا کے نام پر نہ کوئی لین دین ہوا اور نہ ہی ان کا دستخط ہے

احمد آباد میں گرفتار کیے گئے صحافی مہیش لانگا کے وکیل نے کہا ہے کہ جس کمپنی (ڈی اے انٹرپرائز) کا نام ایف آئی آر میں درج ہے، ان کے موکل نہ تو اس کے ڈائریکٹر ہیں اور نہ ہی پروموٹر۔

صحافی مہیش لانگا۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

صحافی مہیش لانگا۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: احمد آباد میں گڈس اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) سے متعلق مبینہ دھوکہ دہی کے الزام میں 7 اکتوبر کو گرفتارکیے گئے  سینئر صحافی مہیش لانگا کو بدھ (9 اکتوبر) کو دس دن کی پولیس حراست میں بھیج دیا گیا تھا۔ اب ان کے وکیل نے کہا ہے کہ لانگا کے نام سے کوئی دستخط یا لین دین نہیں ہوا ہے۔

واضح ہو کہ دی  ہندو کے سینئر اسسٹنٹ ایڈیٹر لانگا کا نام  پولیس ایف آئی آر میں بھی نہیں ہے۔

دی ہندو سے بات کرتے ہوئے لانگا کے وکیل ویدانت راج گرو نے کہا کہ ان کا مؤکل نہ تو ڈی اے انٹرپرائز کمپنی کا ڈائریکٹر ہے اور نہ ہی پروموٹر، جن کا نام اس کیس سے متعلق ایف آئی آر میں درج کیا گیا ہے۔

ڈی اے انٹرپرائز کی ملکیت لانگا کے رشتہ دار منوج کے پاس ہے۔ لانگا کی بیوی اس کمپنی میں سائلنٹ پارٹنر ہے۔ اخبار کے مطابق، پولیس کی ریمانڈ درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ لانگا اپنے رشتہ دار منوج اور اپنی بیوی کے نام پر کمپنی چلا رہے تھے۔

راج گرو نے کہا، ‘پولیس کیس منوج لانگا کے بیان پر ٹکا ہے کہ اس نے مہیش لانگا کی ہدایت پر لین دین کیا تھا۔ مہیش کے نام پر کوئی لین دین یا دستخط نہیں ہے۔’

پولیس نے لانگا کی 14 دن کی حراست  کی درخواست کی تھی، لیکن احمد آباد میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کی عدالت نے انہیں اور تین دیگر ملزمان کو دس دنوں کی پولیس حراست  میں بھیجا ہے۔

بتادیں کہ معاملے میں درج ایف آئی آر کے مطابق، 200 فرضی فرموں کاایک  نیٹ ورک ایک ہی پین کا استعمال کرکے حکومت کو جی ایس ٹی میں دھوکہ دینے کا کام کر رہا تھا۔ انڈین ایکسپریس نے بدھ کو اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ نہ تو منوج اور نہ ہی لانگا کی بیوی کو گرفتار کیا گیا ہے۔

لانگا کی گرفتاری نے  میڈیا کمیونٹی میں شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے ، کئی  صحافی ان  کی ایمانداری کی وکالت کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ ان کی حالیہ رپورٹ کی طرف بھی مبذول کر ا رہے ہیں جس میں ہیروں کی تجارت کے حوالے سے  بعض انکشافات کیے گئے ہیں۔

تاہم ، دی ہندو اخبار نے کہا کہ گرفتاری کا ان کی رپورٹوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جمعرات کو، پریس کلب آف انڈیا نے ایک بیان جاری کیا، جس پر تین دیگر صحافی تنظیموں نے بھی دستخط کیے تھے، جس میں لانگا کے وکیل کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان سے  حراست میں کی گئی پوچھ گچھ ‘ضابطے کی خلاف ورزی’ کے مترادف ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے، ‘حالاں کہ قانون کو اپنا کام کرنے دیا جانا چاہیے، لیکن ہم محسوس کرتے ہیں کہ مہیش لانگا کی حراست میں پوچھ گچھ ضابطے کی خلاف ورزی ہے اور شاید ایک ایسے شخص کو ہراساں کرنے کا ایک طریقہ ہے جس کا نام ابتدائی ایف آئی آر میں بھی نہیں ہے۔’

اس میں مزید کہا گیا ہے، ‘اگرچہ معاملے کی تہہ تک جانا ضروری ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ مناسب عمل سے سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے اور ملزمین کو طویل حراستی پوچھ گچھ کے بہانے بے جا ہراساں نہیں کیا جانا چاہیے۔’

دی ہندو کے مطابق، اس معاملے میں کلیدی ملزم دھروی انٹرپرائزز نامی کمپنی ہے، جبکہ ڈی اے انٹرپرائزز ایف آئی آر میں نامزد فرموں میں سے ایک ہے۔

احمد آباد کرائم برانچ کے ڈپٹی کمشنر پولیس اجیت راجین نے انڈین ایکسپریس کو بتایا تھاکہ پولیس نے ان کے پاس سے 20 لاکھ روپے کی بے حساب نقدی ، کچھ سونا اور زمین کے کئی دستاویز برآمد کیے ہیں۔’ لیکن لانگا کے وکیل راج گرو نے دی ہندو کو بتایا کہ یہ نقدی مالی ضروریات کے لیے تھی اور اس کا مبینہ ٹیکس فراڈ کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

 کیس کے دیگر ملزمان میں تلالہ کے بی جے پی ایم ایل اے بھگوان براڈ کے بیٹے اجئے، ان کے بھتیجے وجئے کمار کالا بھائی براڈ اور رمیش کلا بھائی براڈ  کا نام بھی شامل ہیں۔