اتر پردیش میں ایودھیا ضلع کی ملکی پور اسمبلی سیٹ کے آئندہ ضمنی انتخاب میں بھدرسا قصبے کی ایک نابالغ کے ساتھ مبینہ گینگ ریپ کے معاملے کو دیگر انتخابی ایشوز پر حاوی کرنے کی کوششیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں، جبکہ بھدرسا ملکی پور اسمبلی حلقہ کا حصہ بھی نہیں ہے۔
بلاشبہ گینگ ریپ ایک ایسا گھناؤنا جرم ہے کہ اس کی کسی بھی حالت میں معافی نہیں ہو سکتی۔ لیکن کیا اس کے بہانے کسی برادری کو ولن کی طرح پیش کرتے ہوئےمذہبی اورفرقہ وارانہ اشتعال پیدا کر کے انتخابی بساط بچھانے کی کوشش کو درگزر جا سکتا ہے؟
اتر پردیش کے ایودھیا ضلع کی ملکی پور (محفوظ) اسمبلی سیٹ کے آئندہ ضمنی انتخاب کے سلسلے میں (جہاں فیض آباد لوک سبھا سیٹ پرہار کے صدمے سے دوچار بی جے پی حریف ایس پی کے ہاتھوں ایک اور شکست کو ٹالنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑ نا چاہتی۔) ان دنوں بہت سے لوگ اس سوال کا سامنا کرنے کو مجبور ہیں۔ کیونکہ ضلع کے پوراکلندر تھانہ حلقہ کے بھدرسا قصبے کی ایک نابالغ بچی کے ساتھ مبینہ گینگ ریپ کے معاملے کو دیگر انتخابی ایشوز پر حاوی کرنے کی کوششیں ختم ہونے نام نہیں لےرہی ہیں، وہ بھی تب جب بھدرسا ملکی پور اسمبلی حلقہ کا حصہ نہیں ہے۔
بتادیں کہ یہ سنسنی خیز واقعہ گزشتہ 29 جولائی کو اس وقت اجاگر ہوا تھا، جب دو ماہ کی حاملہ مذکورہ بچی نے پولیس کو تحریر دے کرقصبے کے سماج وادی پارٹی ایس پی) کے 71 سالہ اقلیتی لیڈر معید خان اور ان کے بیکری پر کام کرنے والے راجو پر الزام لگایاکہ ان دونوں نے دو ماہ قبل اسے اس کھیت سے، جہاں وہ کام کر رہی تھی،بیکری میں بلاکر اس کے ساتھ زبردستی کی۔
ان کے مطابق راجو نے معید کے موبائل میں اس کا ویڈیو بھی بنایا جس کی آڑ میں بعد میں بھی اس کو بلیک میل کیا جاتا رہا۔
سیاسی فائدے کا کھیل!
اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پولیس تیزی سے تفتیش کوصحیح سمت میں آگے بڑھاتی اور ایسے شواہد جمع کرتی، جن سے متاثرہ کے الزامات کی سچائی سامنے آتی اور انصاف کو یقینی بنایا جاتا۔ لیکن اس کے برعکس بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے اس معاملے کے بہانے انصاف کو انتقام کی شکل دینے، سماج وادی پارٹی کو گھیرنے اور اس بنا پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں زیادہ دلچسپی لی۔ اس نے معید کےاہل خانہ اور دوسرے ملزم راجو کے ان بیانات پر کوئی توجہ نہیں دی کہ اس معاملے میں ساراقصورراجو کا ہی ہے اور بزرگ معید کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
دراصل، اس وقت تک ایودھیا لوک سبھا سیٹ ہار جانے کی بی جے پی کی کسک گئی نہیں تھی اور اس کے حامی ایودھیا کے لوگوں کو ناشکرا قرار دے کر ے ان کے معاشی بائیکاٹ کی ‘اپیل’ کے علاوہ فحش تبصرہ کرتے ہوئےایس پی کے فاتح امیدوار اودھیش پرساد کی موت کی تمنا تک کرنے لگے تھے- اس ‘تمنا’ تک بھی کہ ان کے ایم پی بننے کے بعد خالی کی گئی ملکی پور اسمبلی سیٹ پر’جیسے بھی ممکن ہو’ ایس پی کو شکست دے کر ‘حساب برابر’ کر دیا جائے۔
انہوں نے اس واقعہ کو موقع جانا اور معید خان کو اودھیش پرساد کا خاص الخاص کہہ کران کو ولن بنانے کی مہم شروع کر دی۔ سوشل میڈیا پر وہ یہ بھی کہنے لگے کہ ایودھیا میں جیت کے بعد جس اودھیش کو لے کر ناچے راہل-اکھلیش،اسی کا قریبی معید خان ‘ایودھیا کی بیٹی’ کو ‘نوچتا’ تھا۔
دوسری جانب عدالتی ٹرائل میں الزامات ثابت ہونے کا انتظار کیے بغیر انتظامیہ نے ایک بیکری اور کمرشیل کمپلیکس کو معید کی غیر قانونی تعمیرات قرار دیتے ہوئے بلڈوز کر دیا۔ اس کے بعد پولیس نے ان پر گینگسٹر ایکٹ بھی لگا دیا، جس پر سینئر صحافی اندوبھوشن پانڈے نے طنز کیا کہ معید اتنا بڑا گینگسٹر ہے کہ اس کانڈ کے ہونے تک پولیس اس کی عمارت میں اپنی چوکی چلاتی رہی!
دوسری طرف ایس پی لیڈروں نے معید کے بڑھاپے کا حوالہ دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مطلوبہ ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے اور اگر قصوروار ثابت ہو تو انہیں زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے۔ اس مطالبے کو بھی بی جے پی کے حامی’گینگ ریپسٹ کی حمایت’ کہہ کر پروپیگنڈہ کرتے رہے۔ ایس پی کا زیادہ سے زیادہ سزا کا مطالبہ بھی ان حامیوں کو معید کی حمایت ہی لگ رہی تھی۔
دونوں ہاتھ میں لڈو!
ایس پی کے مطابق، اس معاملے میں بی جے پی کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لڈو نظر آ رہا تھاکیونکہ ‘گینگ ریپسٹ’ اور متاثرہ دونوں کا تعلق ایس پی کی حمایت کرنے والے ذات اور مذہبی گروپوں سے ہے۔ اسے لگا کہ ان میں سے ایک کو بھی ولن بنا کر اور اسے دوسرے کے خلاف کھڑا کر کے وہ ملکی پور کی آدھی جنگ جیت لے گی۔ بدقسمتی سے ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ اس میں مددگار ثابت نہیں ہوئی اور یہ محسوس کیا گیا کہ اس کا لڈو اس سے چھین لیا جا سکتا ہے، اس لیے اس رپورٹ کو اس وقت تک پبلک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جب تک اسے ہائی کورٹ میں پیش نہ کرنا پڑے۔
اس کے لوگ اب بھی کہہ رہے ہیں کہ معید اور متاثرہ کے جنین کے درمیان ڈی این اے میچ نہ ہونے سے معید کی بے گناہی ثابت نہیں ہوتی۔ بات ٹھیک بھی ہے کہ ہائی کورٹ نے بھی معید کو اس کے بیان اور گواہی تک ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اسے رہا کیا جاتا ہے تو وہ اپنی اور متاثرہ کی سماجی حیثیت میں پائے جانے والے تفاوت کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
پھر بھی، ایس پی ‘پراعتماد’ ہے کہ اب بی جے پی معید اور ان کی برادری کو ملکی پور میں ولن بنا کرپروپیگنڈہ نہیں کر پائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم ووٹروں کو یہ بتا کر اس کی پول کھول دیں گے کہ اسی طرح کے دیگر معاملوں میں ملزمان کے گھروں اور اداروں کو بلڈوز نہیں کیا گیا اور معید کو ریپسٹ نہیں ،ایس پی کا حامی ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اسی طرح جیسے ایس پی امیدوار اجیت پرساد (بیٹے اودھیش پرساد) کے خلاف زمین کی خرید و فروخت کے معاملے میں اغوا کرکے یرغمال بنانے اور مار پیٹ کرنے کی ایف آئی آر درج کرا دی گئی ہے۔
ملکی پور اور متراسین
بہرحال، ماضی میں جائیں تو 1967 میں، جب ملکی پور اسمبلی سیٹ وجود میں آئی، یہ غیر محفوظ تھی اور کانگریس کے رام لال مشرا اس کے پہلے ایم ایل اے بنے تھے۔ 1969 کے وسط مدتی انتخابات میں، بھارتیہ جن سنگھ کے ہری ناتھ تیواری نے کانگریس سے یہ سیٹ چھین لی، اور 1974 میں، کانگریس نے اسے دوبارہ حاصل کر لیا۔ لیکن 1977 میں جب کانگریس نے یہ سیٹ سی پی آئی کے متراسین یادو کے لیے چھوڑی تو پورا منظر نامہ بدل گیا۔
متراسین نے ووٹروں پر ایسا جادو چلایا کہ اگرچہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن وہ اس سیٹ کے واحد ایم ایل اے ہیں جنہیں ووٹروں نے 1977، 1980 اور 1985 میں لگاتار تین بار منتخب کیا اور اس کے بعد بھی جتاتے ہراتے رہے،ان کے شاگرد رام چندر (جو اب پارٹی بدل چکے ہیں اور رودولی سے بی جے پی ایم ایل اے ہیں) اور بیٹے آنند سین کو بھی۔
یہ صورتحال تب بھی نہیں بدلی جب متراسین بائیں بازو سے سوشلسٹ اور سوشلسٹ سے بی ایس پی کے امیدوار ہو گئے۔ اس جنرل سیٹ پر رہتے ہوئے 2007 میں ہوئے آخری انتخابات میں ان کے بیٹے آنند سین بی ایس پی (بہوجن سماج پارٹی) کے ٹکٹ پر ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسے درج فہرست ذاتوں کے لیے ریزرو کیا گیا تو کئی حلقوں میں اسے متراسین خاندان کو حیثیت بتانے کی کوشش بھی ماناگیا۔
سال 2012 میں ایس پی نے یہاں سے اپنے سرکردہ دلت رہنما اودھیش پرساد کو امیدواربنایا، جو اس سے پہلے سہول سیٹ سے الیکشن جیتے تھے، تو اس وقت کی مایاوتی حکومت کے خلاف حکومت مخالف لہر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بی ایس پی کے پون کمار کو 34237 ووٹوں سے شکست دی۔ لیکن 2017 میں، وہ خود اپنی پارٹی کی اکھلیش حکومت کے خلاف پھیلی حکومت مخالف لہر اور ‘مودی لہر’ سے بچ نہیں سکے اور بی جے پی کے بابا گورکھ ناتھ سے 28276 ووٹوں سے ہار گئے۔
تاہم، 2022 کے انتخابات میں انہوں نے گورکھ ناتھ کو 13338 ووٹوں سے شکست دے کر بدلہ لیا۔ لیکن گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں ایودھیا کاایم پی بننے کے لیےوہ فیض آباد لوک سبھا سیٹ سے میدان میں اترے توملکی پور سے صرف 7773 ووٹوں کی برتری حاصل کر سکے۔ اس کی ایک وجہ متراسین خاندان کی ناراضگی تھی اور مترا سین کے ایک بیٹے کا سی پی آئی کے ٹکٹ پر ایس پی کے خلاف انتخاب لڑنا تھا۔ یہ ناراضگی اس حد تک تھی کہ جب ایس پی سپریمو اکھلیش یادو اودھیش کے لیے ریلی کرنے آئے تو انہوں نے متراسین کا نام تک نہیں لیا۔ لیکن پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اب اس مسئلے کو حل کر لیا گیا ہے۔
کاسٹ ایکویشن
ایک اندازے کے مطابق، اس سیٹ پر 36 فیصد جنرل، 34 فیصد پسماندہ ذات، 20 فیصد دلت اور 9 فیصد سے کچھ زیادہ مسلم ووٹر ہیں۔ یہ کاسٹ ایکویشن ایس پی کے پی ڈی اے (پچھڑا، دلت، اقلیت اور نصف آبادی) کے نعرے کے ساتھ فٹ بیٹھتا ہے۔ ایس پی نے اودھیش کے بیٹے اجیت پرساد کو میدان میں اتارا ہے اور بی ایس پی نے رام گوپال کوری کو اپنے امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا ہے، جبکہ بی جے پی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ایک نئے امیدوار کو میدان میں اتار کر حیران کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے اور اس کے فائدے اور نقصانات کا جائزہ لے رہی ہے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس ضمنی انتخاب کو اپنے وقار کا مسئلہ بناکر علاقے کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے سرکاری خزانے کو کھول دیا ہے۔ صرف وہ ہی نہیں، ان کے وزراء بھی ملکی پور آ کر اس کا ‘چکر’ لگا رہے ہیں۔ لیکن جذباتی مسائل ان کی مدد نہیں کر پا رہے ہیں اور انہیں آوارہ مویشیوں، زمینوں کے گھپلوں، افسر شاہی کی بدعنوانی اور انتخابی وعدوں سے متعلق تکلیف دہ سوالات کے جوابات دینے پڑ رہے ہیں۔
کئی حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ ‘پبلک ہے یہ سب جانتی ہے’۔ یہ بھی کہ ان کے دل میں ووٹرز کے لیے اچانک اتنی محبت کیوں پیدا ہو گئی ہے؟
اودھیش پرساد کے مطابق جب بھی وزیر اعلیٰ ملکی پور آ رہے ہیں، بی جے پی کے ووٹ کم ہو رہے ہیں۔ کیونکہ فیض آباد لوک سبھا سیٹ ہارنے کے بعد بی جے پی نے ایودھیا کے لوگوں کے خلاف جو زبان استعمال کی، گالیاں دیں اور بے عزتی کی ، اس کو لوگ بھول نہیں پا رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی پارٹی بی جے پی کی اٹھائے گئے فرقہ وارانہ بدامنی کے ہر مسئلے کا جواب زمینی مسائل سےدے گی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ضمنی انتخابات کے نتائج عام طور پر حکمران جماعت کے حق میں آتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ملکی پور سیٹ کی تاریخ میں اب تک کل تین ضمنی انتخابات ہوئے ہیں اور بی جے پی ایک بھی جیت نہیں پائی ہے۔ اس بار بھی وہ جیت نہیں پائے گی۔
لیکن دوسری طرف سے بھی ایسے بیانات اور دعوے کم نہیں بلکہ زیادہ کیے جا رہے ہیں۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر