اترکاشی میں مسجد کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے گرانے کے لیے دائیں بازو کی تنظیموں نے مظاہرہ کیا، اس حوالے سے اترکاشی کے ڈی ایم نے اس ماہ کے شروع میں ہی کہا تھا کہ مسجد کے پاس تمام ضروری دستاویز ہیں اور یہ وقف بورڈ کے تحت رجسٹرڈ بھی ہے۔
نئی دہلی: اتراکھنڈ کے اترکاشی میں جمعرات (24 اکتوبر) کو ایک مسجد کوگرانے کی مانگ کو لے کر دائیں بازو کے گروپوں کی طرف سے نکالی گئی ریلی کے پرتشدد ہوجانے سے پانچ پولیس اہلکار اور 30 سے زائد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
دی ہندو کی خبر کے مطابق، مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔ اس کے جواب میں پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔
اس’جن آکروش ریلی’ کا اہتمام سنیوکت سناتن دھرم رکشک دل کے بینر تلے کیا گیا تھا۔ اس میں بجرنگ دل، دیو بھومی رکشا ابھیان اور دیگر دائیں بازو کی تنظیموں اور مقامی تاجروں نے حصہ لیا۔ مظاہرین کا الزام ہے کہ کاشی وشوناتھ مندر کے قریب واقع مسجد سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اسے جلد از جلد یہاں سے ہٹایا جائے۔
اترکاشی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) امت سریواستو نے دی ہندو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مظاہرین نے ریلی کی اجازت لی تھی۔ لیکن چاردھام یاترا کے پیش نظر پولیس نے ریلی کاروٹ طے کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا، ‘دوپہر میں مظاہرین شہر کے مین بازار میں مارچ کر رہے تھے اور تبھی انہوں نے بھٹواڑی روڈ پر پولیس کی رکاوٹوں کو توڑنے کی کوشش کی۔ جب پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے ہم پر پتھراؤ کیا۔ ہمیں بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔’
اس واقعہ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پانچ پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں اور جلد ہی اس معاملے میں ایف آئی آر درج کی جائے گی۔
دوسری جانب دیو بھومی رکشا ابھیان کے سربراہ درشن بھارتی نے کہا کہ پولیس کے لاٹھی چارج میں تقریباً 30 مظاہرین زخمی ہوئے ہیں جن میں سے ایک کی حالت نازک ہے۔
واضح ہو کہ دیو بھومی رکشا ابھیان وہی تنظیم ہے جس نے گزشتہ سال پرولا شہر میں مسلمانوں سے اس علاقہ کو چھوڑنے کے بارے میں کہتے ہوئے پوسٹر چسپاں کیے تھے ۔ اس وقت کئی مسلم خاندانوں کے شہر چھوڑنے کے بعد اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی ریاستی حکومت سے کہا تھا کہ وہ امن و امان اور برادریوں کے درمیان امن برقرار رکھے۔
درشن بھارتی نے اخبار کو بتایا، ‘میں ریلی میں سب سے آگے تھا، میرے سر پر چار ٹانکے آئے ہیں۔ ہم میں سے کسی نے پتھر نہیں پھینکے۔ پولیس نے ہی لاٹھی چارج شروع کیا۔’
انہوں نے مزید کہا کہ مسجد شروع میں ایک کمرے سے چلتی تھی لیکن ہر گزرتے سال کے ساتھ یہ بڑی ہوتی گئی ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ جس زمین پر مسجد بنی ہے وہ ایک ہندو خاندان کی ہے۔
درشن بھارتی کے مطابق، ‘کسی نے مسجد کی زمین کی ملکیت جاننے کے لیے آر ٹی آئی درخواست دائر کی تھی، جس کے جواب میں انتظامیہ نے کہا تھا کہ مسجد انتظامیہ کے پاس ضروری دستاویز نہیں ہیں۔ اسی وقت ہم نے اس مسئلے کو اٹھانے اور اس مسجد کو گرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ‘
تاہم، اترکاشی کے ضلع مجسٹریٹ مہربان سنگھ بشٹھ نے اس ماہ کے شروع میں ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا تھا کہ مسجد کے پاس تمام ضروری دستاویز ہیں اور یہ وقف بورڈ کے تحت رجسٹرڈ بھی ہے۔
امر اجالا کی خبر کے مطابق، علاقے میں کشیدگی کے پیش نظر ضلع انتظامیہ نے جمعرات کی شام سے اگلے احکامات تک بھارتیہ ماگرک سرکشا سنہتا (بی این ایس ایس) کی دفعہ 163 نافذ کر دی ہے۔ معلوم ہو کہ امتناعی حکم کے دوران پانچ یا اس سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہے۔ اس کے علاوہ جلسہ، جلوس، مظاہرہ وغیرہ کے ساتھ لاؤڈ اسپیکر وغیرہ کا استعمال بھی ممنوع ہے۔
Categories: خبریں