خاص خبر

اتراکھنڈ: اترکاشی کے بعد اب پتھورا گڑھ میں ’غیر قانونی‘ مسجد گرائے جانے کو لے کر احتجاجی مظاہرہ

اتراکھنڈ کے پتھورا گڑھ ضلع کے بیریناگ علاقے میں دائیں بازو کے ایک گروپ نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر ایک احتجاجی ریلی نکال کر مطالبہ کیا کہ علاقے میں گھر کے اندر غیر قانونی طور پر بنائی گئی مسجد کو ہٹایا جانا چاہیے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس نے اس عمارت کے مالک سے وضاحت طلب کی ہے۔

پتھورا گڑھ ضلع کے بیریناگ علاقے میں دائیں بازو کے گروپ کی ریلی۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/ہمانشو جوشی)

پتھورا گڑھ ضلع کے بیریناگ علاقے میں دائیں بازو کے گروپ کی ریلی۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/ہمانشو جوشی)

نئی دہلی: دائیں بازو کے ایک گروپ کے کئی ارکان نے کچھ مقامی باشندوں کے ساتھ مل کر اتراکھنڈ کے پتھورا گڑھ ضلع کے بیریناگ علاقے میں ایک احتجاجی ریلی  نکالی اور دھرنا دیتے ہوئے  مطالبہ کیا کہ گھر کے اندر ایک غیر قانونی مسجد بنائی گئی ہے اور اسے ہٹایا جانا چاہیے۔

تازہ ترین واقعہ اترکاشی شہر میں ہفتہ عشرہ پہلے اسی طرح کی صورتحال پر جاری کشیدگی کے درمیان پیش آیا ہے ۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، سنیچرکی ریلی کے فوراً بعد بیریناگ کے ایس ڈی ایم شریسٹھ گنسولہ نے عبدالناظم کو سمن جاری کیا، جو مبینہ طور پر اس مکان کے مالک ہیں جہاں مسجد واقع ہے، اور عمارت کی حالت کے بارے میں وضاحت طلب کی۔

ایس ڈی ایم نے دعویٰ کیا کہ زمین کی ملکیت کا معاملہ فی الحال پتھورا گڑھ کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں زیر التوا ہے۔گنسولہ نے کہا کہ یہ گھر اصل میں عبدالمجید کا تھا، جو بعد میں ہلدوانی چلے گئے، جہاں ان کی موت ہوگئی۔ اس کے بعد اس کی ملکیت ان کے بیٹے ناظم کو دے دی گئی اور سمن جاری کیا گیا۔

ایس ڈی ایم نے کہا، ‘انہیں سمن کا جواب دینے کے لیے 15 دن کا وقت دیا گیا ہے۔’

اس احتجاجی ریلی کا اہتمام ‘راشٹریہ سیوا سنگھ’نے کیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ایک مسلمان شخص کی ملکیت والے مکان کو غیر قانونی طور پر مذہبی مقام میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جس میں ان  کی کمیونٹی کے لوگ نماز پڑھنے کے لیے بڑی تعدادمیں آتے ہیں۔

احتجاجی مظاہرہ  کی قیادت کرنے والے راشٹریہ سیوا سنگھ کے صدر ہمانشو جوشی نے اخبار کو بتایا ، ‘یہ جگہ ایک محلے کے بیچ میں واقع ہے اور لوگ وہاں غیر قانونی طور پر جمع ہوتے ہیں۔ ان کی حرکتوں سے مقامی باشندوں کو پریشانی ہوتی  ہے اس لیے انہوں نے حکام سے شکایت درج کرائی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ لوگوں کو عمارت کے اندر جمع ہونے سے روکیں اور اسے گرا دیں کیونکہ یہ غیر قانونی ہے۔’

جوشی نے کہا کہ حکام کی جانب سے اس معاملے میں مناسب کارروائی کی یقین دہانی کے بعد انہوں نے اپنا احتجاجی مظاہرہ  ختم کیا۔

دریں اثنا، سماجی کارکنوں اور اپوزیشن کے کچھ ارکان نے اس تازہ پیش رفت کو ریاستی حکومت کی سرپرستی میں اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے دائیں بازو کے گروہوں کی طرف سے منصوبہ بند پیٹرن  قرار دیا۔

سی پی آئی  (ایم ایل) کے ریاستی سکریٹری اندریش میکھوری نے کہا، ‘یہ واقعات واضح طور پر ریاست میں اقلیتی آبادی، بالخصوص مسلمانوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ یہ ایک پیغام ہے کہ وہ یہاں نہیں رہ سکتے… ہم ریاست کے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کسی کو ہمارے امن اور ہم آہنگی کو خراب کرنے کی اجازت نہ دیں۔’

معلوم ہو کہ 24 اکتوبر کو اترکاشی، اتراکھنڈ میں دائیں بازو کے گروپوں کی جانب سے ایک مسجد کو مسمار کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے نکالی گئی  ریلی پرتشدد ہو گئی تھی جس میں پانچ پولیس اہلکار اور 30 سے زائد افراد زخمی ہو گئے تھے ۔

اس ‘جن آکروش ریلی’ کا اہتمام سنیوکت سناتن دھرم رکشک دل نے کیا تھا۔ اس میں بجرنگ دل، دیو بھومی رکشا ابھیان اور دیگر دائیں بازو کی تنظیموں اور مقامی تاجروں نے حصہ لیا تھا۔ مظاہرین نے الزام لگایا تھاکہ کاشی وشوناتھ مندر کے قریب واقع مسجد سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ اسے جلد از جلد یہاں سے ہٹایا جاناچاہیے۔

واضح ہو کہ دیو بھومی رکشا ابھیان وہی تنظیم ہے، جس نے گزشتہ سال پرولا شہر میں پوسٹر چسپاں کیے تھے جس میں مسلمانوں سے کہا گیا تھا کہ وہ وہ علاقہ چھوڑ دیں ۔ اس کے بعد کئی مسلم خاندانوں کے شہر چھوڑنے کے بعد اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی ریاستی حکومت سے کہا تھا کہ وہ امن و امان اور برادریوں کے درمیان امن برقرار رکھے۔