مرکزی وزارت داخلہ نے قیدیوں کے خلاف ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے بارے میں سپریم کورٹ کے 3 اکتوبر 2024 کے فیصلے کے پیش نظر ذات پات کی بنیاد پر قیدیوں کی درجہ بندی کو ختم کرنے کے لیے جیل مینوئل قوانین میں ترمیم کی ہے۔ عدالت نے یہ فیصلہ دی وائر کی صحافی سکنیا شانتا کی عرضی پر سنایا تھا۔
نئی دہلی: مرکزی وزارت داخلہ نے جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ ان کی ذات کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور ان کی درجہ بندی کو ختم کرنے کے لیے جیل مینوئل قوانین میں ترمیم کی ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، 30 دسمبر کو تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے چیف سکریٹریوں کو بھیجے گئے ایک خط میں مرکزی وزارت داخلہ نے کہا کہ قیدیوں کے خلاف ذات پات کی بنیاد پر کسی بھی طرح کے امتیازی سلوک کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ماڈل جیل مینوئل، 2016 اور ماڈل جیل اور اصلاحی خدمات ایکٹ 2023 میں ترمیم کی گئی ہے۔
قیدیوں کے ساتھ ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک پر سپریم کورٹ کے 3 اکتوبر 2024 کے فیصلے کے پیش نظر یہ تبدیلیاں کی گئی ہیں ۔ عدالت نے جیل مینوئل میں ذات پات کی بنیاد پر امتیاز سے متعلق دفعات کو غیر آئینی قرار دیا تھا اور تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو جیل مینوئل میں ترمیم کرنے کی ہدایت دی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ ہدایت دی وائر کی صحافی سکنیا شانتا کی جانب سے دائر مفاد عامہ کی عرضی (پی آئی ایل) کی سماعت کرتے ہوئے دی تھی، جس میں اتر پردیش، مغربی بنگال، اڑیسہ، مہاراشٹر، تمل ناڈو اور کیرالہ جیسی ریاستوں میں عدم مساوات کو قانونی بنانے والی دفعات کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
عرضی پلتجر سینٹر آن کرائسس رپورٹنگ کے ساتھ شراکت میں کی گئی پانچ حصوں پر مشتمل جیل سیریز ‘بارڈ دی پریزن پروجیکٹ‘ کے مضامین میں سے ایک پر مبنی تھی ۔
اب دستورالعمل میں نئی شق کے مطابق، جیل حکام کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ قیدیوں کے ساتھ ان کی ذات کی بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک، درجہ بندی یا تفریق نہ ہو۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ‘اس بات کو سختی سے یقینی بنایا جانا چاہیے کہ جیلوں میں کسی بھی ڈیوٹی یا کام کی تفویض میں قیدیوں کے ساتھ ان کی ذات کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہ ہو۔’
وزارت داخلہ کے مطابق، ماڈل جیل اور اصلاحی خدمات ایکٹ 2023 میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں، جس میں ایک نئی دفعہ 55(اے) کے طور پر ایک نیا باب ‘جیلوں اور اصلاحی اداروں میں ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کی ممانعت’ شامل کیا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ‘مینوئل اسکیوینجر کے طور پر روزگار کی ممانعت اور ان کی بحالی ایکٹ 2013′ کی دفعات کا جیلوں اور اصلاحی اداروں پربھی لازمی اثر پڑے گا۔ جیل کے اندر مینوئل اسکیوینجگ یا سیور یاسیپٹک ٹینکوں کی خطرناک صفائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔’
تاہم، قانون کے تحت ہاتھ سے غلاظت ڈھونا ممنوع ہے، لیکن دی وائر کی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ ہندوستانی جیلوں میں یہ چلن بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ ماڈل جیل مینوئل اب تک اس معاملے پر خاموش تھا۔
رپورٹ کے مطابق، اس کے علاوہ عادی مجرموں کو اتفاقاً قیدیوں سے الگ کرنے کے عدالتی حکم کے بعد وزارت نے مینوئل میں عادی مجرموں کی تعریف پر نظر ثانی کی ہے۔
نئی تعریف کے مطابق، ‘عادی مجرم سے مراد وہ شخص ہے جسے پانچ سال کی مسلسل مدت کے دوران الگ الگ مواقع پر کیے گئے کسی ایک یا زیادہ جرائم کے لیے دو بار سے زیادہ بار قصوروار ٹھہرایا گیا ہواور جیل کی سزا دی گئی ہو، جو کہ ایک ہی لین دین کا حصہ نہیں ہے،ایسی سزا کو اپیل یا نظرثانی میں تبدیل نہ کیا گیا ہو۔’
یہ سپریم کورٹ کا شاید پہلا فیصلہ ہے جو ہندوستان میں غیر آباد اور خانہ بدوش کمیونٹی کے مجرم بنانے کے عمل کومخاطب کرتا ہے۔
‘عادی مجرم’ کی اصطلاح کی جڑیں گہری ہیں اور اکثر اسے غیر آباد اور خانہ بدوش قبائل کے لیے ایک دوسرے کے بدلے استعمال کیا جاتا ہے۔ بہت سے ریاستی جیل کے دستورالعمل میں متعدد دفعات واضح طور پر ‘خانہ بدوش قبائل’ اور ‘مجرم قبائل’ کو ایسی کمیونٹی کے طور پر شناخت کرتی ہیں جن کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جانا چاہیے اور انہیں دوسری کمیونٹی کے لیے دستیاب خصوصی اہتماموں سے محروم کیا جانا چاہیے۔
رپورٹ میں کیا تھا
بارڈ دی پریزن پروجیکٹ’ سیریز کے حصے کے طور پر پلتجر سینٹر آن کرائسس رپورٹنگ کے ساتھ شراکت میں کی گئی رپورٹ میں سکنیا نے بتایا تھاکہ کس طرح کئی ریاستوں میں جیل کے دستور العمل قیدیوں کے کام کا تعین ان کی ذات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ جیل میں ذات پات کی اذیت اور ذلت کا سامنا کرنے والے اجئے کمار (بدلا ہوا نام)نے رپورٹر کو بتایا تھا کہ جیل میں سب کچھ ذات پات کی بنیاد پر ہوتا تھا۔
سکنیا اپنی رپورٹ میں لکھتی ہیں،
حقیقت میں ذات پات کے لحاظ سے کام کئی ریاستوں کے جیل کے دستورالعمل میں رائج ہے۔انیسویں صدی کے اواخر میں نوآبادیاتی قوانین میں شاید ہی کوئی ترمیم ہوئی ہے اور ان دستورالعمل میں ذات کے لحاظ سے کام والے حصہ کو چھوا بھی نہیں گیا ہے۔ حالانکہ، ہر ریاست کاجیل سے متعلق اپنامخصوص دستورالعمل ہے، لیکن وہ اکثر حصوں میں دی پریزن ایکٹ ،1894 پر مبنی ہیں۔
جیل کے دستورالعمل ہر طرح کے کاموں کا تفصیل سےذکرکرتے ہیں۔کھانے کی تول سے لےکرہر قیدی کے درجہ اور ‘حکم عدولی ’کے لیےسزاتک کا ان میں ذکر ہے۔ اجئے کا تجربہ راجستھان کےجیل کےدستورالعمل سے میل کھاتا ہے۔ جیل میں کھانا بنانے اورطبی سہولیات کی دیکھ ریکھ کا کام اشرافیہ کا مانا جاتا ہے، وہیں جھاڑو لگانے اور صاف صفائی کو سیدھے نچلی ذات کو سونپ دیا جاتا ہے۔
کھانا بنانے کے بارے میں جیل کا دستورالعمل کہتا ہے:‘کوئی بھی برہمن یا اپنی کمیونٹی سے اشرافیہ کا کوئی بھی ہندو قیدی باورچی کے طور پر بحالی کے لیےاہل ہے۔’
اسی طرح سے اس دستورالعمل کا ‘امپلائمنٹ، انسٹرکشن اینڈ کنٹرول آف کنوکٹس’کے عنوان والا حصہ 10 کہتا ہے (یہ پریزن ایکٹ قیدی ایکٹ کے آرٹیکل 59 (12)کے تحت دستورالعمل میں بھی مذکور ہے):
‘صفائی اہلکاروں کا انتخاب ان کے بیچ سے کیا جائےگا، جو اپنی رہائش کے ضلع کی روایت کے مطابق یا ان کے ذریعےپیشہ کو اپنانے کی وجہ سےصفائی اہلکار(سوئپر)کا کام کرتے ہیں جب وہ خالی ہوں۔ کوئی بھی دوسرا قیدی رضاکارانہ طور پر یہ کام کر سکتا ہے، لیکن کسی بھی صورت میں ایک شخص جو پیشہ ور صفائی اہلکار(سوئپر)نہیں ہے، اسے یہ کام کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جائےگا۔’
لیکن یہ ضابطہ‘صفائی اہلکاروں کی کمیونٹی’ کی رضامندی کے سوال پرخاموش ہے۔
Categories: خبریں