خاص خبر

چھتیس گڑھ: کیا تھی وہ خبر، جو صحافی مکیش چندراکر کے قتل کی وجہ بنی

چھتیس گڑھ کے بستر ڈویژن کے صحافی مکیش چندراکر کےقتل کو حال ہی میں ان کے ذریعے کی گئی ایک رپورٹ سے جوڑا جا رہا ہے، جس میں انہوں نے دیگر صحافیوں کے ساتھ بیجاپور کے گنگالور سے نیلسنار تک 120 کروڑ روپے کی لاگت سے بن رہی سڑک میں گڑبڑی  کے بارے میں بتایا تھا۔

صحافی مکیش چندراکر۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

صحافی مکیش چندراکر۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: چھتیس گڑھ کے بستر ڈویژن کے تحت بیجاپور ضلع کے مقامی صحافی مکیش چندراکر پہلی جنوری سے لاپتہ تھے۔ 3 جنوری کو ان کی لاش ایک سیپٹک ٹینک سے برآمد کی گئی۔ پولیس اس معاملے میں اب تک تین لوگوں کو گرفتار کر چکی ہے ۔

دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مکیش کا قتل کیا گیا ہے اور اس کے پیچھے ایک مقامی ٹھیکیدار سریش چندراکر کا ہاتھ ہے، جو سڑک کی تعمیر میں بدعنوانی کو اجاگر کرنے کی وجہ سے مکیش سے ناخوش تھے۔  جس سیپٹک ٹینک سے مکیش کی لاش برآمد کی گئی ،  وہ سریش چندراکر کی پراپرٹی میں واقع  ہے۔

کیا خبر بنی مکیش کی موت کی وجہ ؟

اپنا یوٹیوب چینل ‘بستر جنکشن’ چلانے کے ساتھ ساتھ مکیش مختلف میڈیا اداروں کے لیے بھی آزادانہ طور پر کام کیا کرتے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ ان دنوں وہ ‘این ڈی ٹی وی’ سے وابستہ تھے۔

گزشتہ 24 دسمبر کو این ڈی ٹی وی پر بستر میں  بن رہی سڑک کی تعمیر میں گڑبڑی کو لے کر ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی ۔ رائے پور میں مقیم این ڈی ٹی وی کے صحافی نیلیش ترپاٹھی کی  لکھی اس رپورٹ سے مکیش بھی منسلک تھے۔ یہ سڑک بیجاپور ضلع کے نکسل متاثرہ علاقے میں گنگالور سے نیلسنار تک بنائی جا رہی تھی۔

اب اس رپورٹ کو ان کے قتل  سے جوڑا جا رہا ہے۔

خبروں کے مطابق، جس سڑک کی تعمیر میں گڑبڑی کی بات کہی گئی تھی وہ ٹھیکیدار سریش چندراکر نے تعمیر کی تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ اس خبر کے بعد وہ مکیش سے ناراض تھے اور سریش کے بھائی رتیش چندراکر نے ایک جنوری کو مکیش کو فون کر کے بات کرنے کے لیے اپنے گھر بلایا تھا، جس کے فوراً بعد مکیش کا فون بند آنے لگا۔ اس کے بعد مکیش کے صحافی بھائی یوکیش چندراکر نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی۔ مکیش کی لاش 3 جنوری کو برآمد ہوئی۔

صحافی نیلیش ترپاٹھی نے مکیش کی موت کی وجوہات کے بارے میں بات کرتے ہوئے دی وائر سے کہا کہ ‘اصل وجہ پولیس کی تفتیش میں سامنے آئے گی، لیکن یہ رپورٹ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔’

نیلیش نے بتایا کہ وہ، مکیش اور ان کی ٹیم کسی اور خبر کے لیے بیجاپور جا رہے تھے۔ اس دوران ان کی نظر اس سڑک پر گئی اور وہ اس سڑک کی تعمیر میں گڑبڑی کو درج کرنے لگے۔

نیلیش کہتے ہیں، ‘جب ہم رپورٹ کر رہے تھے، ہمیں اس بات کا کوئی علم نہیں تھا کہ یہ سڑک کس ٹھیکیدار نے بنائی ہے۔ ہماری رپورٹ کے بعد تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی اور تحقیقات کے بعد سڑک کے ٹھیکیدار کا نام اور تعمیراتی بے ضابطگیوں میں ملوث ہونے کی معلومات ضرور سامنے آتی۔’

سڑک کی تعمیر میں بے ضابطگیوں کے حوالے سے رپورٹ میں کیا لکھا  تھا؟

گزشتہ 24 دسمبر کو این ڈی ٹی وی کے ایم پی چھتیس گڑھ نے بیجاپور کے گنگالور سے نیلسنار تک بن رہی سڑک کی ناقص تعمیر کی خبر دکھائی تھی کہ گنگالور سے ہیرولی تک بنی سڑک میں کئی گڑھے تھے۔ یہ سڑک 120 کروڑ روپے کی لاگت سے بنائی جا رہی تھی۔ کل 52 کلو میٹر سڑک میں سے 40 کلو میٹر تک تعمیراتی کام مکمل ہو چکا تھا۔ تاہم، یہ بتایا گیا ہے کہ صحافیوں نے اس زیر تعمیر سڑک کے تقریباً 1 کلومیٹر کے اندر کم از کم 35 گڑھے گنے تھے۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے، ‘گنگالور سے نیلسنار تک بن رہی 52 کلومیٹر سڑک میں سے تقریباً 40 کلومیٹر کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔ 19 نومبر 2024 کو، یعنی تقریباً ایک ماہ قبل ہی چھتیس گڑھ کے نائب وزیر اعلی ارون ساؤ، جن کے پاس محکمہ تعمیرات عامہ کی ذمہ داری بھی ہے، بیجاپور پہنچے تھے۔ سڑک کا جائزہ لیا اور باقی کام جلد مکمل کرنے کی ہدایات بھی دیں۔ کاش صاحب ، گنگالور سے ہیرول تک سڑک کا معائنہ بھی کر لیے ہوتے تو تعمیرات میں معیار کی حقیقت نظر آ جاتی۔ خیر انتظامیہ گھٹیا سڑک سے بے خبر ہے، ایسا نہیں ہے۔’

اس رپورٹ نے سوال اٹھایا کہ کیا سڑک کی تعمیر میں بدعنوانی  کی جا رہی ہے؟ اگربدعنوانی  ہو رہی ہے تو بدعنوانی کون کر رہا ہے؟ کرپشن کرنے والوں کو کس کا تحفظ حاصل ہے؟ اگر تحفظ حاصل ہے تو کیا کرپشن کرنے والوں اور اسے تحفظ دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟ کارروائی ہوگی تو کب ہوگی؟

اس خبر کا نوٹس لیتے ہوئے جگدل پور محکمہ تعمیرات عامہ نے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی۔

اسی پیش رفت  کے بعد مکیش چندراکر لاپتہ ہوئے اور ان کی لاش ٹھیکیدار کے گھر سے برآمد ہوئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔ مکیش کے قتل کے معاملے میں ٹھیکیدار سریش چندراکر کے دو بھائیوں رتیش اور دنیش سمیت تین لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ سریش چندراکر کا نام بھی ملزم کے طور پر درج کیا گیا ہے اور وہ ابھی مفرور ہے۔