خاص خبر

جامع مسجد کے قریب بن رہی ستیہ ورت پولیس چوکی: نیا ایودھیا بننے کی راہ پر سنبھل؟

سنبھل کی شاہی جامع مسجدسے ملحقہ زمین خالی ہوا کرتی تھی۔ تشدد کے بعد انتظامیہ نے اسے اپنے  قبضے میں لے لیا اوریہاں ستیہ ورت پولیس چوکی کی تعمیر شروع کر دی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ نام سنبھل کی ‘مذہبی اور تاریخی اہمیت’ کو ظاہر کرتا ہے۔

جامع مسجد، سنبھل (تمام تصاویر: شروتی شرما/ دی وائر )

جامع مسجد، سنبھل (تمام تصاویر: شروتی شرما/ دی وائر )

سنبھل: ہر باراسلامی عمارت کا نام تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ موجودہ عمارت کے قریب پولیس بیریکیڈ لگا کر اور اس سے ملحقہ زمین کو’ہتھیاکر’اور اس پر ہندو نام کے ساتھ نئی عمارت تعمیر کردینے سے بھی مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ سنبھل میں ٹھیک یہی ہوا ہے۔

سنبھل میں دو ماہ قبل ہوئےتشدد اور شہر کی جامع مسجد کو لے کر تنازعہ پیدا کرنے کے بعد، اب اس مسجد سے ملحقہ زمین  میں ایک پولیس چوکی تیزی سے بنائی جا رہی ہے – ‘ستیہ ورت پولیس چوکی۔’ایک پولیس افسر نے کہا کہ یہ نام سنبھل کی ‘مذہبی اور تاریخی اہمیت’ کو ظاہر کرتا ہے اور ‘سنبھل کے تاریخی اور ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتا ہے۔’ پولیس چوکی کی تعمیر کے لیے 28 دسمبر کو بھومی پوجن کیا گیا اور صرف پندرہ دنوں کے اندر باٹل پام  کے اونچے درخت آ گئے۔

جامع مسجد سے ملحقہ زمین میں زیر تعمیر پولیس چوکی۔

جامع مسجد سے ملحقہ زمین میں زیر تعمیر پولیس چوکی۔

گزشتہ 28 نومبر کو جب دی وائر کی ٹیم سنبھل گئی تھی تو یہ جگہ خالی پڑی تھی، لیکن آج وہاں تیزی سے بننے والی پولیس چوکی نظر آ رہی ہے۔

ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ یہ چوکی 24 نومبر کو ہوئے تشدد کے پیش نظر حفاظتی انتظامات کو مضبوط کرنے کے لیے بنائی جا رہی ہے۔

اس زمین کے مالکانہ حقوق کے حوالے سے تنازعہ ہے۔ کچھ لوگ اسے وقف بورڈ کی زمین بتارہے ہیں، جبکہ پولیس اسے سرکاری زمین بتاتی ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سنبھل کے ایک وکیل نے دی وائر  کو بتایا،’یہ زمین مولانا خالد کے آباؤ اجداد نے وقف الاولاد (وقف بورڈ) کو دی تھی۔’ انہوں نے اس سے متعلق دستاویزات بھی دکھائے۔ نوے سالہ مولانا خالد مقامی رہائشی ہیں۔ کسی زمانے میں یہ ان کی  زمین  ہوا کرتی تھی۔

سنبھل ضلع انتظامیہ ان دعووں کی تردید کرتی ہے اور اس زمین کو وقف بورڈ کی ملکیت ہونے کا دعویٰ کرنے والے دستاویزات کو ‘فرضی’ قرار دیتی ہے۔ سنبھل میونسپل کونسل نے بھی اس معاملے میں ایک نامعلوم شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔

ضلع مجسٹریٹ راجیندر پنسیا نے کہا تھا کہ ‘نقلی وقف کاغذات مشتہر کرنے کے لیے ایک نامعلوم شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔’

بتایا جا رہا ہے کہ شاہی جامع مسجد کے وکیل محمد یعقوب نے مبینہ طور پر متعلقہ دستاویزسنبھل انتظامیہ کو سونپے تھے۔  ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ راجیندر پنسیا کے مطابق، دستاویز کی جانچ کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور تحقیقات کے دوران وہ  جعلی پائے گئے۔

ڈی ایم نے کہا کہ جس زمین پر پولیس چوکی بن رہی ہے وہ سرکاری زمین ہے۔

اسی دوران ایک نیا حلف نامہ بھی آ گیا ہے۔ 6 جنوری 2025 کو بنے اس حلف نامہ میں مولانا خالد حلف اٹھا رہے ہیں کہ اب ان کا یا ان کے خاندان کا اس زمین سے کوئی تعلق نہیں ہے اور مستقبل میں وہ یا ان کا خاندان اس زمین پر دعویٰ نہیں کرے گا۔

حلف نامے میں کہا گیا ہے، ‘جس جگہ پر پولیس چوکی بن رہی ہے، بہت پہلے اس جگہ کی دیکھ بھال حلف اٹھانے والا اپنے باپ دادا کی ہدایت کے مطابق کرتا تھا۔ لیکن جیسے ہی اسے معلوم ہوا کہ یہ سرکاری زمین ہے، اس نے زمین کی دیکھ بھال کرنا چھوڑ دی۔’

وقف کی زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والے دستاویزات اور مولانا خالد کا حلف نامہ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

وقف کی زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والے دستاویزات اور مولانا خالد کا حلف نامہ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

‘مولانا خالد نے پولیس کے ڈر سے یہ حلف نامہ بنوایا ہے۔ پولیس نے دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو ان کے گھر والوں  کو سنبھل تشدد میں پھنسا  کرگرفتار کر لیا جائے گا،’ وکیل کہتے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پولیس چوکی لوگوں کے ذہنوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے بنائی جا رہی ہے۔

‘پچھلے چھ ماہ سےیہ سنبھل کے پیچھے لگے ہوئے تھے…وہ سنبھل کو نیا ایودھیا بنانا چاہتے ہیں، جامع مسجد کے علاقے کو پولیس چھاؤنی میں تبدیل کرکے دہشت پھیلانا چاہتے ہیں،’ سنبھل کے ایک تاجر نے دی وائر سے کہا۔

خوف کے سایے میں زندگی

سنبھل میں تشدد کو دو ماہ ہوچکے ہیں۔ پچھلے دو مہینوں میں وہاں کیا تبدیلی آئی؟ کیا حالات معمول پر آگئے ہیں یا لوگ اب بھی خوف  کے سایے میں زندگی گزار رہے ہیں؟ جو لوگ ابھی بھی گرفتار ہیں ، ان کے اہل خانہ کیسے زندگی بسر کر رہے ہیں؟

تشدد کے چار دن بعد جب دی وائر ٹیم نے پہلی بار ضلع کا دورہ کیا تھا تو سڑکیں سنسان تھیں اور کئی دکانیں بند تھیں۔ آج دکانوں اور گلیوں میں رونق  لوٹ آئی ہے۔ لیکن پورے شہر میں پولیس کی موجودگی اور لوگوں کے خوف کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حالات معمول پرنہیں  ہیں۔تشدد میں ہلاک ہونے والوں کےاہل خانہ کے زخم تازہ ہیں اور گرفتار لڑکوں کی مائیں ان کی راہ دیکھ رہی  ہیں۔ پولیس کے خوف سے نوجوان غروب آفتاب کے بعد گھروں سے نہیں نکلتے۔ سنبھل کوتوالی علاقے کے تحت آنے والے تقریباً تمام گھروں کے نوجوانوں سے پولیس باقاعدگی سے پوچھ تاچھ کر رہی ہے۔ ہر شام پولیس فلیگ مارچ کرتی ہے۔

اور مسجد سے کچھ دور ایک بے بس ماں اپنے نابالغ بیٹے کی واپسی کی راہ دیکھ رہی  ہے۔ شبنم کا 15 سالہ بیٹا سنبھل تشدد کے ایک دن بعد 25 نومبر سے پولیس کی حراست میں ہے۔  ‘میں نے اپنی بیٹی کی شادی ٹال دی ہے۔ میں اپنے بیٹے کی رہائی کا انتظار کر رہی ہوں… میں شادی کب تک ٹال پاؤں گی،کہیں لڑکی کا رشتہ نہ ٹوٹ جائے،’ فکرمندشبنم دی وائر سے کہتی ہیں۔

شبنم اپنی چھوٹی سی دکان کے سامنے۔

شبنم اپنی چھوٹی سی دکان کے سامنے۔

لوگوں کا خوف بے بنیاد نہیں ہے۔ حال ہی میں، ایک میڈیا چینل سے بات چیت کے دوران اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ ‘کسی کو بھی کسی متنازعہ ڈھانچے کو مسجد نہیں بولناچاہیے۔’ سنبھل مسجد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ‘آئین اکبری کہتا ہے کہ یہ مسجد نماڈھانچہ ہری ہر مندر کو گرا کر بنایا گیا تھا، اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی غلطی کو ٹھیک کریں اور غیر ضروری تنازعہ پیدا کیے بغیر اسے ہندوؤں کو باعزت طریقے سےسونپ دیں۔’

جامع مسجد کے پیچھے والی گلی جہاں تشدد ہوا تھا۔

جامع مسجد کے پیچھے والی گلی جہاں تشدد ہوا تھا۔

متاثرین کا درد

گزشتہ 19 نومبر کو مسجد کے سروے کا عمل نسبتاً پرامن طریقے سے مکمل ہوگیا تھا، لیکن جب 24 تاریخ کی صبح ٹیم دوبارہ سروے کے لیے وہاں پہنچی تو اس دوران وہاں شدید تشدد کا مشاہدہ کیا گیا، جس میں5 افراد مارے گئے۔ پولیس کے مطابق تشدد میں 20 کے قریب پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

سنبھل تشدد میں مارے گئے اپنے بیٹے نعیم کو یاد کرتے ہوئے ان کی والدہ ادریس کہتی ہیں: ‘میرے شوہر کا 29 سال قبل انتقال ہوا تھا، میں نے اپنے بچے کو بڑی مشکل سے پالا تھا۔’

اپنےبچے کو یاد کرتے ہوئے ان  کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔

پچپن سالہ ادریس بتاتی ہیں کہ نعیم اس دن گھر سے اپنی مٹھائی کی دکان کے لیے سامان لانے نکلے تھے، لیکن واپس نہیں لوٹے۔ ‘اس کا چھوٹا بچہ (4 سال) اسے ہر روز یاد کرتا ہے، اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کا باپ کہاں چلا گیا ہے،’وہ کہتی ہیں۔

نعیم کے چار بچے ہیں، سب سے بڑے بچے کی عمر 10 سال اور سب سے چھوٹے کی عمر 4 سال ہے۔

نعیم کی والدہ ادریس

نعیم کی والدہ ادریس

سترہ سالہ کیف پلاسٹک کا کام کرتے تھے۔ ‘وہ گھر سے بازار نکلے تھے۔ پھر مجھے اپنے چچا کا فون آیا، جنہوں نے بتایا کہ انہیں جامع مسجد کے قریب ہنگامے میں گولی لگ گئی ہے،’ کیف کے بڑے بھائی نے بتایا۔

کیف چار بھائی تھے۔ دو چھوٹے بھائی اسکول جاتے ہیں۔ ‘ہمارے والد بیمار رہے، ان کی بیماری کے بعد سے ہم دونوں بھائی گھر چلاتے تھے،’ وہ کہتے ہیں۔

جائے وقوعہ سے چار کلومیٹر دور حیات نگر کے رہائشی نعمان (45) سائیکل پر کپڑے بیچتے تھے۔ وہ اپنے کاروبار کے لیے مسجد کی طرف  گئے تھے جہاں  وہ تشدد کا نشانہ بن گئے۔

ان کے بعد ان کے بڑے بیٹے عدنان  پر خاندان کو چلانے کی ذمہ داری ہے، بی کام کر رہے عدنان نے پڑھائی چھوڑ دی ہے۔

سماج وادی پارٹی نے تمام مرنے والوں کے لواحقین کو 5 لاکھ روپے دیے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند اور دیگر اداروں کی طرف سے بھی مالی امداد فراہم کی گئی ہے  ۔

سنبھل تشدد سے متعلق معاملات میں اب تک چھ ایف آئی آر اور 54 گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ پولیس روزانہ پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ لوگوں کا الزام ہے کہ پولیس پوچھ گچھ کے لیے لے جانے والوں کو بغیر پیسے لیے رہا نہیں کرتی۔ ‘کوئی ہزار، کوئی دو ہزار، کوئی پانچ یا دس ہزار۔ اس کے بعد انہیں جانے دیتی ہے۔’

سال 1978 کے فسادات کی نئی تحقیقات

گزشتہ 17 دسمبر کو مقامی ایم ایل سی شری چند شرما نے حکومت کو ایک خط لکھ کر 1978 کے فسادات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا، جس پر یوپی حکومت نے نئی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

سنبھل میں 1978 کے فسادات میں مبینہ طور پر 184 لوگ مارے گئے تھے۔ 2010 میں ملزمان کو عدالت نے شواہد کے فقدان میں بری کر دیا تھا۔

سنبھل ڈسٹرکٹ کورٹ کے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ ‘حکومت کے اس نئے حکم کے بعد ہی بہت سے لوگوں کو 1978 کے فسادات کے بارے میں جانکاری ملی ہے۔ہاں کے لوگوں کے ذہنوں سے وہ دنگےمٹ چکے ہیں۔ ان پرانی فائلوں کو کھول کر یوگی حکومت پرانے زخموں کوکریدناچاہتی ہے۔’

سنبھل کا بازار۔

سنبھل کا بازار۔

مقامی رہائشی مطیع الرحمان کا کہنا ہے کہ ‘ گنگا جمنا ثقافت کی مثال ہے سنبھل، ماضی میں تین فسادات (1976، 1978 اور 1992 میں ہوئے تھے) کے باوجود ہندو اور مسلمان یہاں آپس میں مل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کے پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں۔’

تین دنگوں کو جھیل چکا یہ شہر ایک بار پھر جھلس رہا ہے اور انتظامیہ اس آگ کو ہوا دینے کی پوری کوشش کرتی نظر آرہی ہے۔