سیاسی جماعتیں خواتین کو کوئی نہ کوئی لالچ دے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے اس الیکشن کا سب سے بڑا مسئلہ صرف یہی ہے کہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ مالی فائدے کیسے دیے جائیں، وہیں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ دہلی کی خطرناک حد تک آلودہ فضا کسی کو یاد ہی نہیں ہے۔
دہلی اسمبلی انتخابات کی مہم اب اختتام کو پہنچ چکی ہے اور شور و غل تھم گیا ہے۔ مگر اس انتخابی مہم نے ہمیں گھروں میں بھی سکون سے رہنے نہیں دیا۔ دروازے کی گھنٹی ہو یا فون کی بیپ، ایک لمحے کو خاموش ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
ہر دن کوئی نہ کوئی امیدوار یا ان کے حامی دروازے پر دستک دیتے ہیں، ووٹ مانگتے ہیں اور پوری سنجیدگی سے یقین دلاتے ہیں کہ وہ اوروں سے بہتر ہیں۔
اگر دروازے پر خاموشی چھا بھی جائے تو فون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے۔ امیدواروں کے ریکارڈ شدہ پیغامات دن بھر صبر کا امتحان لیتے رہتے ہیں۔
صبح کے اخبار کے ساتھ انتخابی منشور کے پرچے بھی ہینڈ بل کی صورت منسلک ہوتے ہیں، جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ سیاستدان عوام کو رعایتی سیل کی پیشکش کر رہے ہوں — کوئی گیس سلنڈر مفت دینے کا وعدہ کر رہا ہے، کوئی 300 یونٹ بجلی، کوئی پانی، کوئی راشن— گویا یہ انتخابی منشور نہیں، کسی سپرمارکیٹ کا اشتہاری ہینڈ بل ہے۔
اس سیاسی مہم کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین ووٹرز کی اہمیت کو اب ہر پارٹی نے تسلیم کر لیا ہے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اس بات کو سب سے پہلے سمجھا تھا، جب انہوں نے 2016 میں بہار کو ‘شراب مکت’ ریاست بنانے کا وعدہ کیا تھا۔
شراب کے ستائے ہوئے گھروں کی خواتین نے انہیں بھرپور ووٹ دیے، اور تب سے یہ فارمولا ہر ریاست میں دہرایا جا رہا ہے، چاہے وہ کرناٹک ہو، ہریانہ، مہاراشٹر یا ہماچل پردیش۔ اب خواتین ووٹرز اپنی الگ پہچان بنا چکی ہیں، اور کوئی بھی سیاسی جماعت انہیں نظرانداز نہیں کر سکتی۔
چنانچہ ہر سیاسی جماعت خواتین کو کوئی نہ کوئی لالچ دے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس الیکشن کا سب سے بڑا مسئلہ صرف یہی ہے کہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ مالی فائدے کیسے دیے جائیں۔
ویسے بھی گھریلو خواتین کا دل جیتنا شاید ووٹ حاصل کرنے کا سب سے آسان راستہ ہے۔ چنانچہ انتخابات سے پہلے ان کے لیے طرح طرح کے معاشی ‘لالی پاپ’ دستیاب ہیں۔
دراصل ، دہلی کی سیاست کا یہ حال ہو چکا ہے کہ انتخابی منشور اب کسی ‘شاپنگ فیسٹیول’ کا اشتہار معلوم ہوتے ہیں— شاندار، پرکشش، اور حقیقت سے کوسوں دور۔
عام آدمی پارٹی نے خواتین کو ماہانہ 2100 روپے دینے کا اعلان کیا، تو کانگریس نے فوراً 2500 روپے کا وعدہ کر دیا۔ بی جے پی نے تو اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے گیس سلنڈر پر سبسڈی، ہر سال دو مفت سلنڈر اور حاملہ خواتین کے لیے 21000 روپے کی نقد رقم دینے کا وعدہ کر دیا۔
اب خواتین کے درمیان سب سے زیادہ زیرِ بحث موضوع یہی ہے کہ اس اضافی رقم کو کہاں خرچ کیا جائے؟
لیکن ان سب کے درمیان سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ دہلی کی خطرناک حد تک آلودہ فضا کسی کو یاد ہی نہیں۔
ایک مہینہ پہلے تک یہی دہلی تھی جہاں فضائی آلودگی کا عالم یہ تھا کہ اسکول اور کالج بند کر کے آن لائن کلاسز کا سہارا لیا جا رہا تھا، تعمیراتی کام روک دیے گئے تھے، اور بچوں کو سختی سے گھروں میں رہنے کی ہدایت دی جا رہی تھی۔ مگر جیسے ہی انتخابی کھیل شروع ہوا، یہ ماحولیاتی بحران کہیں غائب ہو گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاستدان اچھی طرح جانتے ہیں کہ عوام کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے۔ دہلی تین سال سے ہر سال تقریباً 150 دن شدید آلودگی کی زد میں رہتا ہے، لیکن جیسے ہی ووٹ ڈالنے کا وقت آتا ہے، یہ مسئلہ نہ ووٹروں کو یاد رہتا ہے اور نہ ہی سیاستدانوں کو۔
انتخابات کے بعد سیاستدان اپنے وعدے بھول جاتے ہیں، یا جلد ہی انہیں احساس ہو جاتا ہے کہ سرکاری خزانے میں اتنا پیسہ نہیں کہ وہ اپنی ‘فراخ دلانہ’ پیشکشیں پوری کر سکیں۔
مثال کے طور پر، مہاراشٹر میں بی جے پی نے 2.5 لاکھ سے کم سالانہ آمدنی والی خواتین کو ماہانہ 2100 روپے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس اسکیم کے تحت تقریباً 2.47 لاکھ خواتین مستفید ہو سکتی تھیں، جس کے لیے سالانہ 46000 کروڑ روپے درکار ہوتے— اتنے پیسے میں تو حکومت اپنے ملازمین کی تنخواہیں ہی ادا نہ کر پاتی!
اب حکومت بہانے تلاش کر رہی ہے کہ یہ اسکیم واپس کیسے لی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مستحقین کی فہرست کی ‘جانچ پڑتال’ شروع کر دی ہے۔
سال2022 کے انتخابات سے قبل، الیکشن کمیشن آف انڈیا نے سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے وعدوں کی مالی حیثیت کی وضاحت کریں۔ مگر جیسے ہی اس تجویز کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اسے خاموشی سے دفن کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ میں اس معاملے پر ایک عرضی بھی زیرِ سماعت ہے، مگر اس کا فیصلہ بھی شاید انتخابات کے بعد ہی آئے گا۔
دہلی حکومت کے ایک حالیہ مطالعے کے مطابق، 80 فیصد سے زیادہ گھرانوں نے بجلی کے بل میں سبسڈی حاصل کی، 76.1 فیصد نے پانی کی رعایت کا فائدہ اٹھایا، 64.7 فیصد مفت یا کم لاگت والے سرکاری اسپتالوں سے مستفید ہوئے، 58 فیصد خواتین کو بس کا مفت سفر ملا، اور 43.7 فیصد طلبہ نے سرکاری تعلیمی مراعات سے فائدہ اٹھایا۔ گویا اتنے فری فوائد کے بعد اصل مسائل کو بھول جانا لازمی تھا۔
ذرا سوچیے، جب دہلی جیسے خوشحال شہر میں عوام کا یہ حال ہے تو باقی ملک کی کیا حالت ہوگی؟ دہلی میں اب سڑکوں کے گڑھے، بہتے نالے، اور کوڑے کے ڈھیر کوئی مسئلہ نہیں رہے۔
یہ کتنا افسوسناک ہے کہ ایک فلاحی ریاست کا تصور رکھنے والا ملک اب خیرات پر چل رہا ہے۔ جہاں تعلیم اور صحت بنیادی حقوق ہونے چاہیے تھے، وہاں سرکار عوام کو تھوڑے بہت فوائد دے کر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے اور عوام بھی دل کھول کر یہ سب قبول کر رہی ہے۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ جن ریاستوں کو ایسے منصوبے بنانے چاہیے جو آئندہ نسلوں کے لیے سرمایہ ثابت ہوں، وہ اتنی کم نظری کا شکار ہو چکی ہیں کہ بس سبسڈی بانٹ کر ووٹ حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ عوام بھی اپنی فوری ضروریات کے تحت ان فریب کار پیکجوں کو قبول کر رہی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کب تک؟
(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کایہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر