بی جے پی 27 سال بعد دہلی میں واپسی کر رہی ہے۔ عام آدمی پارٹی کی شکست کے پیچھے اینٹی انکمبنسی، وعدے پورے نہ کرنا، کانگریس سے اختلافات اور انڈیا الائنس کی ناکامی کو اہم وجہ تصور کیا جا رہا ہے۔

انتخابات کے دوران راہل گاندھی عآپ پر اسی زبان میں حملہ کر رہے تھے جو بی جے پی کیجریوال کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر رہی تھی۔(فوٹو: سوشل میڈیا)
نئی دہلی: بی جے پی ملک کی راجدھانی پھر سےجیتنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں پارٹی 27 سال بعد اقتدار میں واپس کر رہی ہے۔
سال 2012 میں ‘تبدیلی کی سیاست’ کا وعدہ کرتے ہوئے میدان میں اترنے والی عآپ کی شکست کا کئی طرح سے تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ دس سالہ حکمرانی کی اینٹی انکمبنسی، وعدے پورے نہ کرنے کا خمیازہ، لیفٹیننٹ گورنر کی طرف سے پیدا کی گئی رکاوٹ، اعلیٰ قیادت کے جیل جانے کے بعد عام آدمی پارٹی کا ٹوٹنا – اس شکست کی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اور وجہ ‘انڈیا الائنس’ کے باہمی اختلافات ہیں، جس میں عآپ اور کانگریس دونوں شامل ہیں۔ آج صبح (8 فروری) جب رجحانات میں بی جے پی آگے چل رہی تھی، جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے رامائن سیریل کا ایک کلپ شیئر کرتے ہوئے طنز کیا اور لکھا، ’اور لڑو آپس میں‘۔
Aur lado aapas mein!!! https://t.co/f3wbM1DYxk pic.twitter.com/8Yu9WK4k0c
— Omar Abdullah (@OmarAbdullah) February 8, 2025
کیا بی جے پی کو آپسی لڑائی کا فائدہ ہوا؟
دہلی اسمبلی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی یہ واضح ہوگیا کہ عآپ اور کانگریس ایک ساتھ الیکشن نہیں لڑ رہے ہیں۔ اس کے بعد انڈیا الائنس کی کچھ دوسری پارٹیوں نے بھی اعلان کیا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔ سماج وادی پارٹی اور ترنمول کانگریس نے عآپ کی حمایت کی۔ ایس پی نے بھی عآپ کے لیے مہم چلائی۔
جیسے جیسے انتخابی سرگرمیاں تیز ہوئیں، عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان زبانی حملے تیز ہوتے چلے گئے۔ انتخابات کے دوران کانگریس نے عآپ کے خلاف وہی الفاظ استعمال کیے جس کا استعما ل بی جے پی کیجریوال کو نشانہ بنانے کے لیے کر رہی تھی، مثلاً- شیش محل۔
انتخابی مہم کے دوران کانگریس رہنما راہل گاندھی نے کیجریوال کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ‘کیجریوال جی سویٹر پہن کر ویگن آر سے آئے اور کھمبے پر چڑھ گئے، پھر کھمبے سے نیچے اترے اور سیدھے شیش محل میں چلے گئے۔’
راہول نے کیجریوال پر محروم طبقات کو نظر انداز کرنے کا بھی الزام لگایا،’آپ کیجریوال جی سے پوچھیے کہ کیا وہ پسماندہ طبقات کے لیے ریزرویشن اور ذات پر مبنی مردم شماری چاہتے ہیں؟ جب میں ذات پر مبنی مردم شماری کی بات کرتا ہوں تو وزیر اعظم مودی اور کیجریوال دونوں خاموش ہو جاتےہیں۔ کیجریوال اور وزیر اعظم مودی میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔’
اس کے علاوہ راہل نے عآپ پر محروم طبقات کو نمائندگی نہ دینے کا بھی الزام لگایا تھا، ‘ٹیم کیجریوال (دہلی انتخابات کے لیے عآپ کا پوسٹر) میں نو لوگ ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی دلت، پسماندہ یا مسلم کمیونٹی سے نہیں ہے۔’
راہل گاندھی کے حملے تیز ہونے پر کیجریوال نے جواب دیا ، ‘لوگ پوچھ رہے ہیں کہ راہل گاندھی جی ‘راج محل’ پر خاموش کیوں ہیں؟ آج راہل جی نے دہلی میں بی جے پی والوں کی پوری تقریر دہرائی۔ عوام کو بتائیں کہ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان کیا معاہدہ ہوا ہے؟’
کانگریس کو دہلی کے انتخابات پر اتنا اعتماد نہیں تھا جتنا ہریانہ میں دیکھا گیا تھا۔ ایسے میں کانگریس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تھا۔
شراب گھوٹالہ کے الزام میں جیل جانے، ہندوتوا کی سیاست میں ہاتھ آزمانے اور مسلمانوں کے مفادات کے لیے کھڑے ہونے سے گریز کرنے کی وجہ سے کیجریوال کی پارٹی کو پہلے ہی نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا۔ کانگریس کے حملے نے اس چوٹ کو مزید گہرا کر دیا۔
کانگریس کی راکھ پر کھڑی ہوئی تھی عآپ
بھلے ہی بی جے پی 1993 سے دہلی میں حکومت نہ بنا سکی ہو، لیکن پارٹی کا ووٹ فیصد کبھی بھی 30 فیصد سے کم نہیں رہا۔ 2013، 2015 اور 2020 کے پچھلے تین انتخابات کی بات کریں تو بی جے پی کو بالترتیب 33.07 فیصد، 32.2 فیصد اور 38.51 فیصد ووٹ ملے ہیں۔
یہاں تک کہ جب عآپ نے 70 میں سے 67 سیٹیں حاصل کی تھیں، تب بھی بی جے پی 32.2 فیصد ووٹوں کو روکنے میں کامیاب رہتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عآپ کے عروج کے دوران بھی بی جے پی کے بنیادی ووٹ پر زیادہ اثر نہیں پڑا۔ عآپ کانگریس کی راکھ پر کھڑی ہوئی تھی۔ کانگریس کے ملنے والے ووٹوں کا ایک بڑا حصہ لے کر عآپ کھڑی ہوئی تھی۔
کانگریس کے خلاف ہوئی ملک گیر تحریک ‘انڈیا اگینسٹ کرپشن’سے نکل کر ایک سیاسی پارٹی کے طور پر ابھری عآپ نے 2013 کے اسمبلی انتخابات میں 29.49 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے، کانگریس کا ووٹ شیئر 24.55 فیصد تھا۔ لیکن اس کے بعد کے انتخابات میں کانگریس کا ووٹ تیزی سے کم ہوا۔ 2020 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو 9.7 فیصد ووٹ ملے اور اگلے انتخابات (2020) میں صرف 4.26 فیصد۔
دوسری طرف عآپ کے ووٹ فیصد میں اسی رفتار سے اضافہ ہوا – 2015 میں 54.3 فیصد اور 2020 میں 53.57 فیصد۔ 2025 کے انتخابات میں جہاں عآپ کا ووٹ فیصد تھوڑا سا گھٹ کر 43 فیصد پر آ گیا ہے، کانگریس کا ووٹ فیصد تھوڑا سا بڑھ گیا ہے (اس الیکشن میں کانگریس کو 6 فیصد سے کچھ زیادہ ووٹ ملے ہیں)۔ بی جے پی کو 45 فیصد سے کچھ زیادہ ووٹ ملے ہیں۔
اگر آپ اور کانگریس مل کر لڑتے تو کیا نتائج مختلف ہوتے؟
انتخابی نتائج پر دونوں پارٹیوں کے اتحاد کا اثر آج ایک اکیڈمک سوال کی طرح لگتا ہے، لیکن کچھ ایسی سیٹیں ضرور تھیں جن پر اگر عآپ اور کانگریس مل کر لڑتے تو نتیجہ بدل سکتا تھا۔ عآپ کے منیش سسودیا جنگ پورہ اسمبلی حلقہ سے محض 675 ووٹوں سے ہار گئے اور کانگریس امیدوار فرہاد سوری کو 7350 ووٹ ملے ہیں۔
عآپ کے سوربھ بھاردواج گریٹر کیلاش سے 3188 ووٹوں سے ہار گئے ہیں، کانگریس امیدوار گروت سنگھوی کو 6711 ووٹ ملے ہیں۔
کم از کم دس ایسی سیٹیں ہیں جہاں کانگریس امیدوار نے عآپ کو نقصان پہنچایا، جس کا براہ راست فائدہ بی جے پی کو ہوا۔
انڈیا الائنس جو پچھلے سال کے لوک سبھا انتخابات کے دوران بڑے وعدوں کے ساتھ آیا تھا اور جس نے بی جے پی کو اکثریت سے بہت پیچھے روک دیا تھا، وہ ہریانہ اور مہاراشٹر کے بعد اس باردہلی میں ناکام رہا۔
Categories: الیکشن نامہ