سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک ویڈیو میں میرٹھ کی آئی آئی ایم ٹی یونیورسٹی کے تقریباً 50 طلباء کیمپس میں ایک کھلے میدان میں نماز ادا کرتے ہوئے نظر آ رہے تھے، جس کے بعد ہندوتوا گروپوں نے قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک طالبعلم کو حراست میں لیا گیا تھا، جس کے خلاف دیگر طلباء احتجاج کر رہے ہیں۔

میرٹھ میں واقع آئی آئی ایم ٹی یونیورسٹی۔ (تصویر بہ شکریہ: یونیورسٹی کی ویب سائٹ)
نئی دہلی: اترپردیش کے میرٹھ میں آئی آئی ایم ٹی یونیورسٹی میں ایک ساتھی طالبعلم خالد پردھان کی حراست کے خلاف احتجاج کرنے پر چھ مسلم طلباء کو گرفتار کیا گیا، جنہیں کیمپس میں نماز پڑھنے کے لیے حراست میں لیا گیا تھا۔ اس احتجاج میں تقریباً 400 طلباء نے شرکت کی اور خالد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
مسلم مرر کی رپورٹ کے مطابق، احتجاج پرامن ہونے کے باوجود بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے مداخلت کی اور لاٹھی چارج کیا۔
احتجاج میں شامل ایک طالبعلم نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہ یونیورسٹی میں ہندو پوجا –پاٹھ بھی ہوتے ہیں، اور سوال اٹھایا کہ رمضان کے دوران روزہ رکھنے والے مسلمانوں کو اس طرح کے سخت سلوک کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے۔ تاہم، حکام نے اجتماع کے لیے پیشگی اجازت نہ ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے احتجاج کو غیر قانونی قرار دیا۔
احتجاج میں شامل اسٹوڈنٹ لیڈرشان محمد نے پولیس پر ناروا سلوک کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے مظاہرین کو بات چیت کے لیے تھانے بلایا تھا، لیکن بات چیت کرنے کے بجائے ان میں سے کئی کو حراست میں لے لیا۔
بتایا گیا کہ پولیس کی کارروائی مبینہ طور پر انسٹاگرام پر طالبعلموں کے نماز ادا کرنے کی ایک پوسٹ سے متاثر تھی، جو تیزی سے وائرل ہوگئی اور مسلمانوں کے خلاف آن لائن اور آف لائن نفرت انگیز مہم کو ہوا دی۔
بائیس سالہ خالد کو اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس میں ہولی سے ٹھیک ایک دن قبل 13 مارچ کو تقریباً 50 طلباء نماز پڑھتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔ اس بارے میں ہندوتوا گروپوں نے قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ ویڈیو کا مقصد فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینا تھا۔ اس کے جواب میں یونیورسٹی انتظامیہ نے خالد کو تین سکیورٹی اہلکاروں سمیت معطل کر دیا اور حکام سے ان کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست کی۔
پولیس سپرنٹنڈنٹ (دیہی) راکیش کمار مشرا نے کہا کہ ہولی کے وقت ویڈیو جاری ہونے سے فرقہ وارانہ تصادم کا امکان بڑھ گیا ہے۔
سرکل آفیسر صدر دیہات شیو پرتاپ سنگھ نے تصدیق کی کہ نماز کا ویڈیو نشر کرنے کے لیے خالد کو گرفتار کیا گیا اور بعد میں اسے جیل بھیج دیا گیا۔ جمعہ کو کارتک ہندو نامی مقامی شخص کی شکایت پر یونیورسٹی انتظامیہ اور خالد دونوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔
گنگا نگر پولیس اسٹیشن میں درج معاملہ بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 299 کے تحت درج کیا گیا تھا، جو مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے ارادے سے بدنیتی پر مبنی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ انفارمیشن ٹکنالوجی (ترمیمی) ایکٹ، 2008 کی دفعات سے متعلق ہے۔
دوسری طرف، آئی آئی ایم-ٹی گروپ کے میڈیا انچارج سنیل شرما نے تصدیق کی کہ محکمہ جاتی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ نماز ایک کھلی جگہ پر ادا کی گئی تھی اور ویڈیو کے نشر ہونے سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کا امکان تھا۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، آئی آئی ایم ٹی کے میڈیا انچارج سنیل شرما نے کہا، ‘ویڈیو سامنے آنے کے بعد واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ ہمیں معلوم ہوا کہ کیمپس میں نماز ادا کرنے کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ سے کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی… یہ ایک خالی میدان تھا اور ایسا لگ رہا تھا یہ ایک بے ساختہ عمل تھا۔’
سپرنٹنڈنٹ مشرا نے پولیس کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ طلباء پر غیر قانونی اجتماع کا الزام عائد کیا گیا، کیونکہ انہوں نے احتجاج کی اجازت نہیں لی تھی اور انہوں نے افسران سے بات چیت کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔
Categories: خبریں