خبریں

سشانت سنگھ راجپوت موت معاملے میں سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ اور ریا چکرورتی کا میڈیا ٹرائل

سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے تقریباً پانچ سال بعد داخل ہوئی کلوزر رپورٹ میں ریا چکرورتی اور ان کے خاندان کے افراد کو کلین چٹ دی گئی ہے۔ ان پر سشانت کو خودکشی پر مجبور کرنے اور اس کے پیسے غبن کرنے کا الزام تھا۔ رپورٹ میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ اداکار نے خودکشی کی تھی۔

سشانت سنگھ راجپوت اور ریا چکرورتی۔ (تمام تصاویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا۔)

سشانت سنگھ راجپوت اور ریا چکرورتی۔ (تمام تصاویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا۔)

نئی دہلی: اداکار سشانت سنگھ کی موت کے معاملے میں سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے تقریباً 5 سال بعد کلوزر رپورٹ داخل کی ہے۔ اس رپورٹ میں تحقیقاتی ایجنسی نے کہا ہے کہ سشانت کو خودکشی کے لیے اکسانے کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔ سی بی آئی نے اداکار کی موت میں کسی بھی طرح کی گڑبڑی سے انکار کیا ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، اداکارہ ریا چکرورتی کے وکیل ستیش مانےشندے نے سنیچر (22 مارچ) کو سی بی آئی کی طرف سے کلوزر رپورٹ داخل کرنے کا خیرمقدم کیا اور کہا، ‘ہم سی بی آئی کے شکر گزار ہیں کہ  انہوں تمام زاویوں سے کیس کے ہر پہلو کی مکمل جانچ کی  اور کیس کو بند کردیا۔’

شندے نے مزید کہا کہ اس معاملے کو لے کر سوشل میڈیا اور الکٹرانک میڈیا پر بہت سی جھوٹی  باتیں پھیلائی گئیں ،جو کہ بالکل نامناسب تھیں۔ میڈیا کی وجہ سے کووِڈ وبا کے دوران بے گناہ لوگوں کو ہراساں کیا گیا، انہیں میڈیا ٹرائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ریا چکرورتی کو ناگفتہ حالات اورپریشانیوں سے گزرنا پڑا اور ضمانت پر رہا ہونے سے پہلے 27 دن تک سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑا۔

معلوم ہو کہ اس معاملے میں سشانت کے اہل خانہ نے ریا چکرورتی پر خودکشی کے لیے اکسانے، دھوکہ دہی اور پیسے کے ہیر پھیر کا الزام لگایا تھا، جس کی وجہ سے ریا کو ایک خطرناک میڈیا ٹرائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اس دوران ریا کے خلاف بیہودہ،فحش،خاتون مخالف، توہین آمیز ہیش ٹیگ، جارحانہ اور پراسرار دھمکیوں سے لے کر کار کا پیچھا کرنا، گھر میں داخل ہونے کی کوشش  کرنااور زبردستی اس کے منہ میں مائیک ڈال کر الٹے سیدھے، جارحانہ اور توہین آمیز سوال کرنا سب کچھ جائز ہوگیا تھا تو نیوز چینل کے رپورٹروں کا ایک ہجوم انہیں  گھر سے نکلتے یا کہیں بھی آتے جاتے گھیرتا تھا، کیمرے لگاتار ان کا پیچھا کر رہے تھے اور زبردستی ان  کے گھر میں گھسنے کی کوشش بھی کی جا رہی تھی۔

معلوم ہو کہ 34 سالہ اداکار  سشانت سنگھ راجپوت 14 جون 2020 کو ممبئی کے باندرہ  واقع اپنے گھر میں مردہ پائے گئے تھے۔ سشانت کے والد کے کے سنگھ نے پٹنہ کے راجیو نگر پولیس اسٹیشن میں اداکار کی گرل فرینڈ اور لیو ان پارٹنر رہیں اداکارہ ریا چکرورتی اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے خلاف اداکار کو خودکشی پر اکسانے اور دیگر الزامات کے حوالے سے  شکایت درج کرائی تھی۔

سشانت کی موت کو لے کر اٹھ رہے سوالوں کے درمیان بہار حکومت کی درخواست پر مرکزی حکومت نے کیس کی جانچ سی بی آئی کو سونپ دی تھی۔ اس کے بعد بہار حکومت کی سفارش کو برقرار رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو ہدایت دی تھی کہ وہ اداکار کی موت کے معاملے کی تحقیقات کرے۔ عدالت نے مہاراشٹر پولیس سے اس معاملے میں تعاون کرنے کو کہا تھا۔

اس معاملے میں جانچ کےدوران ڈرگس خریدنے اور اس کے استعمال کا انکشاف  ہونے کے بعد نارکوٹکس کنٹرول بیورو (این سی بی) نے ریا کے چھوٹے بھائی اشوک چکرورتی (24)، سشانت سنگھ راجپوت کے گھر کے مینیجر سیموئل مرانڈا (33) اور اداکار کے نجی اسٹاف  کے رکن دپیش ساونت کو بھی گرفتار کیا تھا ۔

آٹھ ستمبر 2020 کو کئی دنوں کی پوچھ گچھ کے بعد این سی بی نے اداکارہ ریا چکرورتی کو بھی اداکار کی موت سے متعلق منشیات کیس میں گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد ریا کو اکتوبر میں بامبے ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی تھی۔

سی بی آئی کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟

اس معاملے سے واقف لوگوں نے اخبار کو بتایا کہ اداکار سشانت سنگھ کی موت کے معاملے میں سی بی آئی کی کلوزر  رپورٹ میں  ان کی موت میں کسی بھی طرح  کی گڑبڑی سے انکارکیا ہے۔

حکام نے بتایا کہ ماہرین کی رائے، جائے وقوعہ کے تجزیہ، گواہوں کے بیانات اور فرانزک رپورٹس کی بنیاد پر تحقیقاتی ایجنسی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے کوئی مواد موجود نہیں ہے کہ کسی نے اداکار کو خودکشی پر مجبور کیا ہو۔

کلوزر رپورٹ  میں  ریا چکرورتی اور ان  کے خاندان کے افراد کو کلین چٹ دی گئی ہے، جن پر راجپوت کو خودکشی کے لیے اکسانے اور ان  کے پیسے کا غبن  کرنے کا الزام تھا اور اس بات کی تصدیق کی گئی  کہ اداکار نے خودکشی کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ایجنسی نے بالآخر بالی ووڈ اداکار کی موت کے ارد گرد پانچ سال سے جاری سازش کی  تھیوری کو ختم کر دیا ہے۔

ریا چکرورتی کا ہولناک میڈیا ٹرائل

شاید آپ کو اس معاملے میں ٹی وی چینلوں  کے مائیک کے درمیان  گھری ریا کی وائرل تصویر یاد ہو۔ سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے بعد میڈیا کو اپنا پہلا انٹرویو دیتے ہوئے ریا نے کہا تھا کہ ان پر جو الزامات لگائے جا رہے ہیں وہ ‘بے بنیاد’ اور ‘من گھڑت’ ہیں۔ ان الزامات کی وجہ سے وہ اور ان کا خاندان اس قدر ‘تناؤ’ کا شکار ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ وہ اپنی جان لے لیں۔ اس دوران ریا نے یہ بھی کہا  تھاکہ وہ محسوس کرتی ہیں کہ روزانہ ‘تشدد’ کے بجائے ‘ ہم سب کو بندوق کے ساتھ لائن میں کھڑا کر کے ایک بار میں مار ہی کیوں نہیں دیتے۔’

Capture

اس سلسلے میں بامبے ہائی کورٹ نے میڈیا ٹرائل سے متعلق کئی پی آئی ایل کی سماعت کرتے ہوئے ریپبلک ٹی وی کو ہیش ٹیگ ‘ریا کو گرفتار کرو’ کے لیے پھٹکار لگائی تھی اور پوچھا تھا کہ  جس معاملے کی جانچ چل رہی ہے، اس کے بارے میں کیا ناظرین سے یہ پوچھا جانا کہ ؎ کس کو گرفتار کیا جانا چاہیے، تفتیشی صحافت ہے؟

تاہم، ایک ایسے وقت میں جب تحقیقاتی ایجنسیوں نے ریا چکرورتی کے خلاف کوئی چارج شیٹ بھی داخل نہیں کی تھی، اس وقت کئی  نیوز چینل اسے نہ صرف قتل مان  رہے تھے بلکہ اس سازش میں ملوث مبینہ ملزمان کی پہچان تک طے کر چکےتھے، سازش کی تہیں کھولنے کا دعویٰ کر رہے تھے اور مبینہ ملزمان کے خلاف کنگارو عدالت میں مقدمہ بھی چلا رہے تھے۔

چینل نے اچانک ناظرین کو بتانا شروع کر دیا تھا کہ سشانت اتنے  نادان تھے کہ وہ صرف اپنی گرل فرینڈ ریا کے حکم کے غلام تھے۔اس کی وجہ سے وہ بھوت پریت میں  یقین کرنے لگے اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئے۔ ٹی وی چینلوں کئی الزام لگائے، قتل، سازش، حوالہ، کروڑوں روپے ہتھیانے کی کوشش، بالی ووڈ میں اقربا پروری، باہری اداکاروں  کے ساتھ امتیازی سلوک، دبئی کنکشن اور بالی ووڈ میں منشیات وغیرہ لیکن حقائق اور شواہد ندارد۔ سب کچھ قیاس آرائیوں، الزامات، سلیکٹیو لیک اور غیر مصدقہ معلومات کی بنیاد پر چلایا جا رہا تھا۔

اس دوران تفتیشی ایجنسیوں کی مدد سے منتخب پرائیویٹ چیٹس کو پبلک کیا جا رہا تھا اور اس شخص اور اس کے خاندان کی پرائیویسی میں مداخلت کی جا رہی تھی اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی تھی۔ میڈیا ٹرائل کو کئی  چینلوں  اور ان کے اسٹار اینکرز- مدیران  نے ایک طرح کے ‘بدلے کے کھیل’ اور ‘خون کے کھیل’ میں تبدیل کر دیا تھا۔ بہت سے رپورٹروں اور اینکروں کی بدتمیزی اور برتاؤ سماجی شائستگی کی حدیں پار کر رہے تھے۔ ان  کی زبان، لہجہ اور برتاؤ میں جو بے حیائی، بدتمیزی اور بدزبانی تھی وہ گلی کے غنڈوں کو مات دے رہی تھی۔

ملک کے پرائم ٹائم نیوز چینلوں پر ریا کو ایک ولن کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا ، جس نے ایک شخص کو ورغلا کر اسے اپنی محبت کے جال میں پھنسایا اور پھر اسے ‘ذہنی ڈپریشن’ میں مبتلا کر دیا۔

سی این این نیوز 18 چینل پر، آنند نرسمہن نے ریا چکرورتی کا ایک پرانا ویڈیو چلایا، جس میں وہ دوستوں کے درمیان کھیل کھیل میں اداکاری کرتی نظر آ رہی ہیں۔آنند نرسمہن نے اس ویڈیو کی وضاحت اس طرح کی: ‘انہیں  (ریا چکرورتی) یہ شیخی بگھارتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے بوائے فرینڈ کو آسانی سے کنٹرول کر سکتی ہے، وہ خود کو اصلی ڈان اور اپنے بوائے فرینڈ کو اپنا چھوٹاموٹا غنڈہ کہتی… یہ انہی کے  الفاظ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ ویڈیو دوستوں کے درمیان مذاق ہو، لیکن جو بھی ہو اس نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا۔’

Capture

اس پر ریا چکرورتی کو اپنا بیان جاری کرنا پڑا اور کہا کہ یہ ویڈیو واقعی ایک مذاقیہ اداکاری  ہی تھی۔

آج تک کی جانب  دیکھیں تو اس کے ایک پروگرام کا عنوان تھا، ‘سشانت پر ریا کا کالا جادو’۔ انجنا اوم کشیپ نے سشانت پر ایک کے بعد ایک کئی شو کیے۔ سرخیاں خود آپ کو بحث کا معیار بتا دیتی ہیں: (الف) پوتر  رشتہ، سشانت کا پیار، ریا کا ہتھیار، دل بے چارہ ، گینگس کا مارا۔

اپنے پروگراموں میں انجنا پوچھتی ہیں، ‘اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سشانت کے پیار کو ریا نے  ہتھیار بنا لیا؟’ انجنا مزید کہتی ہیں، ‘ ریا چکرورتی کا وہ  کیسا جال تھا کہ سشانت کی زندگی اس میں دم گھٹنے سے سانس نہیں لے پائی؟’

Capture

اس سب کے درمیان ریپبلک ٹی وی نے تمام حدیں پار کر دی تھیں۔ کیس کے آغاز سے ہی ارنب نے اپنی پوری توجہ سشانت سنگھ راجپوت کے کیس پر مرکوز کی اور اس سلسلے میں کئی پروگرام بھی کیے۔ ہر بار ان کے پروگرام میں ایک خطرناک میڈیا ٹرائل دیکھا گیا۔ ان کے رپورٹر نے  سشانت کے فٹنس ٹرینر کی خفیہ طور پرریکارڈ کیا۔ ریکارڈنگ میں آپ واضح طور پر سن سکتے تھے کہ نام نہاد صحافی اپنے ذرائع سے صاف جھوٹ بول رہی ہیں کہ یہ بات آف دی ریکارڈ ہے۔

ایک موقع پر نام نہاد صحافی کو یہ پوچھتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، ‘کیا وہ کرن جوہر ہے؟ ڈپریشن؟ صحت کے مسائل؟’، اور ہنستے ہوئےایک جگہ  کہنا کہ اب  سشانت سے متعلق طرح طرح کی  چیزیں سامنے آ رہی ہیں۔

اس دوران اسٹوڈیو میں بیٹھے ارنب نے مشورہ دیا کہ اس معاملے میں ممبئی پولیس کو بھی شک کے دائرے میں رکھا جانا چاہیے۔

maxresdefault (1)

خیال رہے کہ جب ممبئی پولیس نے ارنب گوسوامی سے پال گھر قتل سے متعلق ان کے پروگرام کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کی،  تو انہوں نے ممبئی پولیس کو ہی کٹہرے میں کھڑا کرنا شروع کردیا۔ سشانت سنگھ راجپوت کی موت نے انہیں ایک موزوں ہتھیار دیا ہے جسے وہ پولیس اور مہاراشٹر کی شیوسینا این سی پی کانگریس حکومت کے خلاف استعمال کر سکتے تھے ۔

غور طلب  ہے کہ اس معاملے میں میڈیا نے اپنا صبر و تحمل کھو دیا۔ اس کے اندر جوابدہی کا خوف یا احساس ذمہ داری دور دور تک نظر نہیں آئی۔ کسی معروف اداکار کی مشتبہ حالات میں موت پر میڈیا کے لیے ضروری ہے کہ وہ سوال اٹھائے اور اس سے متعلق تمام پہلوؤں کو سامنے لائے۔ لیکن یہاں ریا چکرورتی کی بات رکھنے والوں کو دوسرا رخ دکھانے کے لیے ‘بکاؤ’، ‘جھوٹا’ اور ‘اینٹی نیشنل ‘ یعنی ملک مخالف تک  کہا گیا۔