سپریم کورٹ الٰہ آباد کے وکیل ذوالفقار حیدر، پروفیسر علی احمد اور دیگر کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کر رہی تھی، جن کے گھروں کو2021 میں منہدم کر دیا گیا تھا۔ بنچ نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ نوٹس جاری کرنے کے 24 گھنٹے کے اندر اپیل کا وقت دیے بغیر بلڈوزر سے مکانات گرا دیے گئے۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: ایکس)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار (24 مارچ) کو الہ آباد میں گھروں کو منہدم کرنے پر اتر پردیش حکومت کی تنقید کی اور کہا کہ اس کارروائی سے اس کے ضمیر کو جھٹکا لگا ہے۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس اجل بھوئیاں کی بنچ نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ نوٹس دینے کے 24 گھنٹے کے اندر اور اپیل کے لیے وقت دیے بغیر مکانات کو بلڈوزر سے مسمار کر دیا گیا۔
بنچ نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے حوالے سے کہا،’یہ دیکھ کر ہمارے ضمیر کو جھٹکا لگاہے کہ کس طرح رہائشی کمپلیکس کو من مانی طور پر منہدم کر دیا گیا۔جس طرح سے یہ سارا عمل انجام دیا گیا وہ حیران کن ہے۔ عدالتیں ایسے عمل کو برداشت نہیں کر سکتیں۔ اگر ہم ایک معاملے کو برداشت کریں گے تو یہ جاری رہے گا۔’
معلوم ہو کہ سپریم کورٹ وکیل ذوالفقار حیدر، پروفیسر علی احمد اور دیگر کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی، جن کے گھر 2021 میں گرائے گئے تھے، انہوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں مسماری کے خلاف درخواست مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
پی ٹی آئی کے مطابق، عدالت نے کہا کہ وہ درخواست گزاروں کو اپنے خرچ پر گھر دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دے گی، لیکن انہیں کچھ شرائط سے اتفاق کرنا ہوگا۔ انہیں حلف نامہ دینا ہوگا کہ وہ مقررہ وقت کے اندر اپیلٹ اتھارٹی کے سامنے اپیل کریں گے، پلاٹ پر حق کا دعویٰ نہیں کریں گے اور کسی تیسرے فریق کو شامل نہیں کریں گے۔ اگر ان کی اپیل مسترد ہو جاتی ہے تو انہیں اپنے خرچ پر گھروں کو پھر سے توڑنا ہوگا۔
اس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی تاکہ درخواست گزار حلف نامہ داخل کر سکیں۔
اس معاملے میں اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی نے نوٹس جاری کرنے میں ‘صحیح طریقہ کار’ پر عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔ بڑے پیمانے پر غیر قانونی تجاوزات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت کے لیے غیر مجاز تجاوزات پر قابو پانا مشکل ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہدام کے حوالے سے پہلا نوٹس 8 دسمبر 2020 کو بھیجا گیا تھا، اس کے بعد جنوری 2021 اور مارچ 2021 میں نوٹس بھیجے گئے تھے۔ اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی مناسب طریقہ کار نہیں اپنایا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ عدالت نے قبل ازیں الہ آباد میں مناسب قانونی طریقہ کار کی پیروی کیے بغیر مکانات گرانے پر اتر پردیش حکومت کی سرزنش کی تھی اور کہا تھا کہ یہ کارروائی چونکا دینے والی ہے۔
درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا تھا کہ ریاستی حکومت نے یہ سوچ کر کہ زمین گینگسٹر عتیق احمد کی ہے، غلط طریقے سے گھروں کو گرا دیا۔ عتیق کو 2023 میں قتل کر دیا گیا تھا۔
Categories: خبریں