مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہندو سماج کے مزاج کا لازمی عنصر بنانے کی مہم نریندر مودی کی قیادت میں کامیاب رہی ہے۔ قاتل کو مقتول کا سرپرست بناکر پیش کرنے سے بڑھ کر بے شرمی بھلا اور کیا ہو سکتی ہے۔

(پوسٹر بہ شکریہ: بی جے پی)
جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ بے حیائی اور گھنونے پن کی ساری حدیں پار کی جا چکی ہیں، بھارتیہ جنتا پارٹی ہمیشہ ہمیں اس حد کے بارے میں سوچنے کو مجبور کر دیتی ہے۔ نفرت اور تشدد بے شرمی ہیں یا نہیں؟ یہ سوال دوسرے ذہنوں میں بھی پیدا ہوئے جب خبر آئی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی عید کے موقع پر 3200000 مسجدوں میں 32 لاکھ مسلمانوں کے درمیان ‘سوغات مودی’ تقسیم کرے گی۔ ایک تصویرذہن میں ابھری خون میں لتھڑا ہاتھ اپنے شکار کے منہ میں مٹھائی ٹھونس رہا ہے۔
سوغات دینے کا کام اس کا اقلیتی مورچہ کرے گا۔ یعنی راشٹر وادی یا ہندوہردیہ والے مسلمان چہرے۔مورچے کا کہنا ہے کہ رمضان میں ضرورت مندوں اور غریبوں کی مدد کرنے کی روایت ہے، اس لیے اس بار بی جے پی نے یہ مقدس کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
صرف اسلام میں نہیں، ہندو دھرم میں بھی مانا جاتا ہے کہ دوسروں کی مدد کرنا، خاص طور پر کمزوروں کی مدد کرنے سے نیکی ملتی ہے۔ لہٰذا، اس امداد سے ضرورت مندوں کو جتنا فائدہ پہنچتا ہے، اسے دینے والے کو بھی تقریباً اتنا ہی یا زیادہ فائدہ ملتا ہے۔ ایک طرح سے وہ اپنی بعد کی زندگی کو بہتر بنا رہا ہوتا ہے۔
لیکن نیکی صرف اس عمل سے حاصل ہوتی ہے جس کے بدلے کسی چیز کی خواہش کیے بغیر دوسروں کی مدد کی جائے۔ تقریباً ہر کلچر میں کہا گیا ہے کہ اصل صدقہ وہی ہے جس میں بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا ہے۔ لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کسی روحانی مقصد کے ساتھ ایسا نہیں کر رہی ہے۔ اس کا مقصد بالکل دنیاوی ہے۔
لوگ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کر سکے گی اور ان کے کچھ ووٹ حاصل کر سکے گی۔ وہ ہندوستانی رائے دہندگان میں اپنی بنیاد بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ علاقہ مسلمانوں کا ہے جہاں اس کی رسائی نہیں ہے۔ اب اس طرح ہاتھ بڑھا کر وہ اس علاقے میں قدم جمانا چاہتی ہے۔
یہ اس کے اقلیتی مورچہ کے عہدیدار کے بیان سے معلوم ہوتا ہے؛’جمال صدیقی نے کہا کہ عید ملن کی تقریبات کا انعقاد ضلع سطح پر بھی کیا جائے گا۔ اقلیتی مورچہ کے قومی میڈیا انچارج یاسر جیلانی نے کہا کہ ‘سوغات مودی’ اسکیم بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے مسلمانوں کے بیچ فلاحی اسکیموں کو فروغ دینے اور بی جے پی اور این ڈی اے کی سیاسی حمایت کے لیےشروع کی گئی مہم ہے۔’
خبر پڑھنے کے بعد پہلی چیز جس نے میری توجہ مبذول کرائی وہ یہ تھی کہ بی جے پی نے ایک اقلیتی مورچہ کھول رکھا ہے۔ یعنی وہ ہندوستان میں اقلیت کے تصور کو درست تسلیم کرتا ہے۔ یہ اس کے نظریاتی موقف سے مختلف ہے کیونکہ اس کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ ہندوستان میں اقلیت جیسی کوئی آبادی ہے۔ اگر ہے بھی تو وہ مسلمانوں کو اقلیت نہیں مانتی کیونکہ ان کی تعداد کروڑوں میں ہے۔
جس مودی کے نام کی سوغات بے چارے مسلمانوں کو دی جا رہی ہے، انہوں نے بھی مسلمانوں کی جگہ پارسیوں کا نام لیا تھا ان کو مائیکرو اقلیت کہہ کر تاکہ مسلمانوں کے اقلیت ہونے کے دعوے کا مذاق اڑایا جا سکے۔ آپ بی جے پی کے کسی بھی شخص سے بات کریں تو وہ کہے گا کہ مسلمان اقلیت کیسے ہوسکتے ہیں!
یہ بھی یاد رکھیے کہ بی جے پی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اقلیتی حیثیت کو ختم کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ وہ اسکول اور اعلیٰ تعلیمی سطحوں پر اقلیتوں کے وظائف کو ختم کر رہی ہے۔ مدارس کو بند کر رہی ہے اور مختلف مقامات پر مختلف بہانوں سے انہیں چلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کر رہی ہے۔
مجھے اپنا ابتدائی زمانہ یاد ہے، جب آر ایس ایس کے میرے ایک جاننے والے کہتے تھے کہ مسلمانوں کو محمدیہ ہندو کہا جانا چاہیے، انہیں بھی اپنے آپ کو یہی کہنا چاہیے۔ اب معلوم ہوا کہ بی جے پی مسلمانوں کو مسلمان مانتی ہے اور اقلیت بھی۔ لیکن ان کے بیان سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی لالچی نگاہ میں وہ محض ایک ممکنہ ووٹر ہیں، جنہیں اس سوغات سےرجھانےکی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ سوچتے ہوئے کہ غریب اور ضرورت مند مسلمان عید اچھی طرح منا سکیں، بی جے پی نے ایک عیدکی تھیلی تیار کی ہے، جس کی مالیت 500-600 روپے ہے۔اس میں چینی ہے، کچھ خشک میوہ جات اور کپڑا بھی ہے!
بی جے پی کو یقین ہے کہ مسلمان اس کی سخاوت کا کچھ تو لحاظ کریں گے اور ووٹوں سے اس کی جھولی بھر دیں گے۔ بی جے پی کے پاس پیسہ ہے، مسلمانوں کے پاس ابھی صرف ووٹ رہ گیا ہے۔ اس سے اس کے تمام حقوق چھین لیے گئے ہیں۔ بس، یہ بچا رہ گیا ہے۔ وہ بھی بی جے پی کو چاہیے۔
لیکن پہلے ہم اس سوغات کے نام کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اس نے اسے سوغات بھاجپا نہیں کہا، حالانکہ یہ ملک گیر سوغات دینے کا کام بی جے پی ہی کرے گی۔ اس کا نام نریندر مودی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہ ایک بار پھر ظاہر کرتا ہے کہ بی جے پی نے خود کو مودی کے ساتھ مکمل طور پر ضم کر لیا ہے اور اسے اس میں کوئی شرم نہیں ہے۔ اتحاد کی حکومت کو این ڈی اے حکومت تو چھوڑیے،بی جے پی کی حکومت بھی نہیں کہا جاتا۔ وہ مودی حکومت ہے۔ بی جے پی کی یہ قابل رحم حالت تاریخ میں پہلے ہی درج ہو چکی ہے۔
یہ سوغات اسی نریندر مودی کے نام پرہے جو صرف ایک سال پہلے ہندوؤں کو یہ کہہ کر ڈرا رہا تھا کہ اگر انہوں نے بی جے پی کو ووٹ نہ دیا تو مسلمان ہندوؤں کا حصہ چھین لیں گے۔
مودی-بی جے پی کے لوگ کیا غریب مسلمانوں کی لائن لگوائیں گے اور انہیں یہ تھیلیاں دیں گے؟ یا وہ گھر گھر جائیں گےاورعید مبارک کہتے ہوئے یہ تحفہ دیں گے؟ کیا وہ فیضان کے گھر جائیں گے جسے ان کی حکومت کی پولیس نے قومی ترانہ گانے کے لیے مارااور وہ مر گیا؟ کیا وہ پہلو خان کے گھر بھی جائیں گے یا علیم الدین کے؟
ہم انہیں مشورہ دیں گے کہ وہ دہلی میں حمزہ، امین، بھورے لال، مرسلین، آس محمد، عقیل احمد، ہاشم علی اور عامر خان کے گھر جائیں،جنہیں 5 سال قبل دہلی تشدد کے دوران جئے شری رام نہ کہنے پر ماردیا گیا تھا۔
وہ دادری کے محمد اخلاق، ادھم پور کے زاہد رسول بھٹ، لاتیہار کے محمد مظلوم اور آزاد خان، آسام کے ابو حنیفہ اور ریاض الدین کے گھر بھی جائیں، جنہیں گزشتہ سالوں میں گئو رکشا کے نام پر مار ڈالا گیا۔
یہ ان ڈھیر سارے ناموں میں سے چند نام ہیں جنہیں بی جے پی کی سیاست نے قتل کر دیا۔ ان سینکڑوں خاندانوں کا نام نہیں لیا جا رہا،جن کے گھر بی جے پی حکومتوں نے بلڈوزر سے منہدم کر دیے ہیں۔ وہ اس سوغات کو کہاں سنبھال کر رکھیں گے؟
مودی کی بی جے پی کے لوگوں کو ان لوگوں سے بھی ملنا چاہیے جن کی روزی روٹی تباہ ہو چکی ہے کیونکہ ہر ہندو تہوار پر ان کی دکانیں بی جے پی والوں نے بند کروائی ہیں۔
یہ سوغات نریندر مودی نامی اسی بی جے پی لیڈر کے نام پرہے جو صرف ایک سال پہلے ہندوؤں کو یہ کہہ کر ڈرا رہا تھا کہ اگر انہوں نے بی جے پی کو ووٹ نہ دیا تو مسلمان ہندوؤں کا حصہ غصب کر لیں گے۔
نریندر مودی بی جے پی کی سیاست کا سب سے کامیاب چہرہ ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی گزشتہ کئی دہائیوں سے جس کی تلاش میں تھی، وہ انہیں نریندر مودی میں مل گیا۔ جو اینٹی مسلم سوچ کی مجسم صورت ہے۔ جو منہ کھولے نہ کھولے، مسلمانوں کے خلاف نفرت، ان کے وجود کے تئیں حقارت خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے۔ مودی نے ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کے وجود سے مکمل انکار ہی اصل ہندوتوا ہے۔
مودی حکومت نے 2002 کے تشدد کے بعد مسلمانوں کے ریلیف کیمپوں کو زبردستی بند کروا دیا تھا۔ مودی نے یہ کہہ کر ان کا مذاق اڑایا تھا کہ کیا دہشت گردوں کو پیدا کرنے کی فیکٹری چلنےدینی چاہیے؟
مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہندو سماج کے مزاج کا لازمی عنصر بنانے کی آر ایس ایس کی مہم اگر کسی کی قیادت میں کامیاب ہوئی ہے تو اس شخص کا نام نریندر مودی ہے۔
قاتل کو مقتول کا سرپرست بنا کر پیش کرنے سے بڑھ کر بے حیائی بھلا اور کیا ہو سکتی ہے؟ طلاق ثلاثہ قانون کے بعد بی جے پی کے ایسے پوسٹر دیکھے گئے جن میں مودی کو مسلمان عورتوں کا بھائی بتایا گیا تھا۔ مسلمان عورتوں کا بھائی جو ان کو مسلمان مردوں کے ظلم سے بچائے گا۔اس پبلسٹی کو دیکھ کر بھی گھن پیدا ہوئی تھی۔
مسلمانوں کو مدد کی ضرورت ہے۔ دوستی کی مدد کی۔ جیل میں قید مسلمانوں کے لیے وکیل، ضمانت، جومسلمان مار ڈالے گئے ان کے خاندانوں کی کفالت، جن کے گھر، مکان ، دکان گرادیے گئے ان کے لیےچھت کی مدد۔ یہ سوغات نہیں ہوگی۔ مسلمان جو مطالبہ کر رہے ہیں وہ مساوی حقوق اور انصاف ہے۔ وہ عیدی نہیں مانگ رہے ہیں۔ مساوات اور انصاف سوغات کے طور پر نہیں ملتے۔ انہیں حق کی طرح حاصل کرنا ہوتا ہے۔ مسلمان صبر اور استقامت کے ساتھ اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ کیا اس عید پر ہندو یہ عہد کر سکتے ہیں کہ وہ اس جدوجہد میں ان کا ساتھ دیں گے؟
اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔