خاص خبر

رمضان کا وہ آخری جمعہ، جب ہم نے غلامی کو الوداع کہا!

پندرہ اگست 1947 کو ایک طویل جدوجہد کے بعد جب ہم نے اپنی سینکڑوں سال کی غلامی کا طوق اتار پھینکا تھا تو اس دن رمضان المبارک کا ستائیسواں روزہ اور آخری جمعہ تھا۔ ایسے میں رمضان، جمعتہ الوداع اور عید نہ صرف اسلامی بلکہ ہماری آزادی اور قومی اتحاد کا جشن بھی ہیں۔

علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی

علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی

ہجری کیلنڈر کے ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو جمعۃ الوداع بھی کہا جاتا ہے اور اس دن مسجدوں  میں الوداع کی جو  نماز ادا کی جاتی ہے، اس کو بہت اہم خیال کیا جاتا ہے۔

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ جمعہ نہ صرف ہندوستان میں اسلام کے ماننے والوں کے لیے بلکہ تمام اہل وطن  کے لیے ایک تاریخی وجہ سے یادگار ہے؟ حالاں کہ، جس طرح  سےاس تاریخی وجہ کو فراموش کر دیا گیا ہے، ‘یادگار ہے’ کہنے کے بجائے ‘یادگار ہو سکتا تھا’ کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔

بہرحال، اگر آپ اس  وجہ کو جانتے ہیں تو یہ انتہائی خوش کن بات ہے اور اگر نہیں جانتے تو آئیےہم اس پر روشنی ڈالتے  ہیں؛ یہ جمعہ ہندوستان کی آزادی کا دن ہے۔ ہجری کیلنڈر کے مطابق اس کی سالگرہ کا دن۔

دراصل،15 اگست 1947 کو ایک طویل جدوجہد کے بعد جب ہم نے اپنے سروں سے سینکڑوں سال کی غلامی کاطوق  اتار پھینکا تو یہ رمضان کا 27 واں روزہ اور آخری جمعہ تھا۔

تفرقہ انگیز ذہنیت

 اگرچہ یہ آزادی ملک کی تقسیم کی شرط پر لاکھوں لوگوں کےجان و مال سے ہاتھ دھو بیٹھنے اور دربدری کے المیے سے گزرکر آئی تھی، عبوری وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی تاریخی تقریر میں اس  کےسلسلے میں ‘ٹرسٹ ود ڈیسٹنی’ (نوشتہ تقدیر) کی  جو بات  کہی تھی،وہ اس دن  جمعۃ الوداع یعنی الوداع کی نماز پڑھنے والوں پر بھی لاگو ہوتی تھی۔ خاص طور پر ان کی اس تفرقہ انگیز ذہنیت پر، جس کا ان دنوں ہر طرف چرچا تھا۔ اس ذہنیت کی وجہ سے جہاں ان کا ایک طبقہ محسوس کر رہا تھا کہ رمضان المبارک ( جس مہینے میں قرآن نازل ہوا، اور جس میں لوگ روزے رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو تقویت دیتے ہیں اور خدا کی عبادت اور غور و فکر سے اپنی روحانی نشوونما کرتے ہیں) کی برکت سے اس کی خوشی دوگنی ہو گئی ہے، جبکہ  دوسرا طبقہ مگن تھا کہ  ‘نیکیوں کا مہینہ کہے جانے والے اس مبارک مہینے میں اسے ان کا مطلوبہ پاکستان مل گیا ہے۔کانگریس کے سینئر لیڈر مولانا ابوالکلام آزاد کے لفظوں میں کہیں تو یہ طبقہ ہجرت کے مقدس نام پر مہاجرت  کے انتخاب پر آمادہ  تھا، جو اس کے لیے ایک تاریخی خودکشی ثابت ہونے والی تھی۔ اس وقت  مولانا نے جامع مسجد سے ان سے اپیل کی تھی کہ وہ اس  مہلک  راستے کو ترک کر دیں اور ہندوستان میں ہی رہیں، جہاں ان کے پاس کسی بات کی فکر کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، جس  کاتھوڑا بہت  اثر بھی نظر آیا۔

اس صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ مختلف وجوہات کی بناء پرہی سہی  کوئی بھی آزادی کی خوشی سے محروم نہیں تھا۔ تاہم، یہ خوشی بھی بے قابو فرقہ واریت کے ہمہ گیر سائے میں تھی۔

اسی لیے جب تین دن بعد 18 اگست کو عید منائی گئی تو فضا میں بے چینی (جو اس وجہ سے بڑھتی جا رہی تھی کہ ملک کو تقسیم کرانے میں کامیاب ہونے والی مسلم لیگ کے رہنما مسلسل یہ پروپیگنڈہ کر رہے تھے کہ اب ہندوستان ایک ہندو ملک بن جائے  گا، جس میں مسلمان رہ نہیں پائیں گے) نے اس کی  خوشی کو صرف اس مفہوم میں قائم رہنے دیا تھا کہ وہ فرضی تھی۔ ہاں، ایک بات خوش آئند تھی کہ تقسیم نے بھلے ہی دلوں میں بہت دوریاں پیدا کر دی تھیں، لیکن زمینی سطح پر ہندو مسلم ہم آہنگی کی جڑیں سلامت تھیں۔ پاکستان کا وجود انہیں مکمل طور پر کھود نہیں پایا تھا۔ اس لیے ملک میں  جہاں ایسے لوگ تھے جن کے لیے صدیوں سے اکٹھے رہتےاور نبھاتے آ رہے مسلمان اچانک اجنبی ہو گئے تھے، وہیں ایسے باشعور لوگ بھی تھے (اور بہت زیادہ  تھے) جو تمام تر تلخیوں کے باوجود رشتوں کی کلائی مروڑنے اور انہیں بے موت  مارنے کوتیار نہیں تھے۔ یہ باشعور لوگ آگے آئے اور مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ ملک جیسے تقسیم سے پہلےان کا  تھا، آگے بھی ویسے ہی ان کا رہے گا اور انہیں اسے چھوڑ کر کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

تاریخ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس یقین کو مضبوط کرنے کے لیے کانگریس کمیٹیاں نہ صرف ملک اور ریاستی دارالحکومتوں میں بلکہ ملک بھر کی چھوٹی بڑی عیدگاہوں میں جاکر عید کی تقریبات کا حصہ بنی تھیں۔

کلکتہ میں گاندھی

 کانگریس کے کارکن عیدگاہوں میں  نماز ادا کرنے پہنچے  لوگوں سے  گلے ملے تھے، انہیں مٹھائیاں  کھلائی  تھیں اور روایتی ہندو مسلم ہم آہنگی کی تصدیق کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت ان کی آنکھیں پوچھ رہی تھیں کہ اتنا خوبصورت ملک چھوڑ کرانہیں  کیا ملے گا اور پاکستان جا نے کا حاصل کیا ہے؟

لیکن صورتحال کا ایک قدرے پیچیدہ پہلو بھی تھا۔ ملک کے کئی حصوں سے آنے والی تشدد کی خبروں سے پریشان مہاتما گاندھی نے آزاد ہندوستانی یونین کے پہلے گورنر جنرل لوئس ماؤنٹ بیٹن اور عبوری وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی 15 اگست کو دارالحکومت دہلی میں رہنے اور جشن آزادی میں شرکت کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔

وہ کلکتہ (اب کولکاتہ) یہ کہتے ہوئے روانہ ہوگئے  کہ وہاں ان کی زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ فرقہ وارانہ تشدد کے بے قابو شعلے وہاں سب کچھ خاک کر دینے کو آمادہ  ہیں۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے الفاظ مستعار لیں تو 14 اگست کی رات جب ہندوستان آزاد ہو رہا تھا اور نہرو پارلیامنٹ کے سینٹرل ہال میں اپنی تاریخی ‘ٹرسٹ ود ڈیسٹینی’ والی تقریر کر رہے تھے، تین دہائیوں سے ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑنے والے عظیم ترین لیڈر (یعنی باپو) حیدری منزل کے ایک اندھیرے کمرے میں فرش پر گہری نیند سو رہے تھے۔

تاہم، جب مہاتما کلکتہ گئے تو وہاں ان کا سامناحیوان بن گئے انسانوں کے  جنگل اورایک خوفناک فرقہ وارانہ آگ سے ہوا۔

لیکن وہاں  امن بحالی کے لیے ان کی انتھک کوششیں رنگ لائیں اور عید کے دن انہوں نے محمڈن اسپورٹنگ فٹ بال کلب کے گراؤنڈ میں دعائیہ اجتماع کا اہتمام کیا۔ یہ  نہ صرف ایک دعائیہ اجتماع تھا بلکہ عید ملن کی تقریب کی شکل بھی تھی جس میں جانی دشمن بن گئے دونوں مذاہب کے تقریباً پانچ لاکھ افراد نے شرکت کی۔

ان دنوں یہ بہت بڑی تعداد تھی۔ اس  وجہ سے اور کہ  شہر کا جو  ماحول تھا، اس کے باعث یہ خدشات پیدا ہو گئے تھے مسلمان ٹھیک سے عید منا پائیں گے یا نہیں۔ مغربی بنگال کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پی سی گھوش نے بھی میٹنگ میں شرکت کی اور دونوں مذاہب کے درمیان اعتماد کی بحالی کے لیے مہاتما کی کوششوں کے لیے اپنی مکمل حمایت کا اظہار کیا۔

اجتماع میں مہاتما نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ عید منا رہے ہیں اور وزیر اعلیٰ گھوش نے کہا کہ ہندو مسلم اتحاد کا یہ مظاہرہ فرقہ وارانہ سیاست کی شکست ہے۔

اس سے پیدا ہونے والے ماحول کا اثر ملک کے دیگر فساد زدہ علاقوں پر بھی پڑا اور بالآخر مسلم لیگ نے بھی اعتراف کیا کہ مہاتما گاندھی کی کلکتہ میں امن کی بحالی اور بھائی چارے کو فروغ دینے کی بے خوف اور دیانتدارانہ کوششوں کی وجہ سے ہزاروں معصوم جانیں بچ گئی ہیں۔ کانگریسیوں کے ساتھ ساتھ کئی مسلم سماجی تنظیموں کے کارکنوں نے بھی عید سے متعلق تقریبات میں بار بار اس بات کا اعادہ کیا کہ یہ عید بہت خاص ہے، کیونکہ اس نے ہماری غلامی کو ہمیشہ کے لیے وداع کر دیا ہے اور یہ پہلی بار آزاد ہندوستان میں منایا جا رہا ہے۔

اب بہت کم لوگ رہ گئے ہیں جو ملک کے کسی کونے میں اس عید کے شاہد ہیں اور اس کی یادیں شیئر کر سکتے ہیں اور اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ بعد میں ایسا کیا ہوا کہ آزادی کے دن  کے طور پر 15 اگست ہی ہماری یادوں  میں رہ گیا اور 27واں  رمضان یا اس کے آخری جمعہ  کوبھلا دیا گیا؟  کیا اس کے پیچھے صرف سرکاری کیلنڈر کی مرکزیت  ہی تھی یا کچھ اور بھی تھا؟

لیکن اتر پردیش کے تاریخی بستی ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے شاعر ساحل بھارتی (جنہوں نے اپنی زندگی فیض آباد کے مدرسوں میں پڑھاتے ہوئے گزاری، جو راقم کے دوست تھے اور اب اس دنیا میں نہیں ہیں)، جب تک زندہ  رہے، اپنے دوستوں کے ساتھ آزادی کی اس پہلی عید کی یادیں جوش و خروش سے بانٹتے رہے۔

جب بھی انہیں شہر میں فرقہ وارانہ کشیدگی، بدامنی کے خوف، مسلمانوں کو ولن بنانے کی کوشش یا ‘ پاکستان جاؤ’ جیسی صورتحال کا سامنا ہوتا تو وہ اس عید کی یادوں کا خزانہ کھول کر  بیٹھ جاتے اور اس وقت کی تاریخ کو زندہ کر دیتے۔

بتاتے کہ جب ملک تقسیم ہوا تو ان کے دادا تشویش  اور تذبذب میں مبتلا ہوگئے کہ کیا کریں، بستی  میں جہاں  پیدا ہوئے اور پرورش پائی، وہیں رہیں یا پاکستان جائیں؟ اگر یہیں رہیں تو مسلسل بگڑتے  ماحول کو کیسے برداشت کریں اور پاکستان جائیں تو کیسے جائیں، گانٹھ کے پورے بھی تو نہیں ہیں،  پیسے کوڑی بھی تو نہیں ہیں۔ پھر اگر ہجرت کے دوران کچھ برا ہوا تو کیا کریں گے، اس پر کیسے قابو پائیں گے؟ کیا پتہ  پاکستان میں کہاں پناہ ملے؟

ایک تھالی میں کھا لیں گے، جانے نہ دیں گے

 ایک دن اسی تشویش میں  گھر میں چولہا بھی نہیں جلا اور پڑوسیوں کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے گاؤں کے دوسرے لوگوں کو بھی اطلاع دی۔ پھر گاؤں والے آئے  اور بولے،من میلا مت کرو میاں اور بلاوجہ پریشان نہ ہو۔ مزے سے عید مناؤاور سوئی پکاؤ ۔ گھر میں کسی  چیزکی کمی  ہو تو بتاؤ۔’

دادا کچھ نہیں بولے۔ ان  کی آنکھیں بھر آئیں تو  اماں انہیں سنبھالنے لگیں۔ تبھی ان کے منھ بولے  پنڈت دادا نے آگے بڑھ کر ان  کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے،’ ماحول سے مت گھبراؤ میاں۔ ضرورت پڑی تو ہم تمہارے ساتھ ایک ہی تھالی  میں کھالیں گے، لیکن تمہیں بچھڑنے نہیں دیں گے۔’

اتنا سنا کر ساحل ‘پاکستان جاؤ’ کے نعرے لگانے والوں سے پوچھتے، ‘اب دو نسلوں کے بعد تم ہم کو پاکستان بھیجنا چاہتے ہو تو کیاصرف ہمارے آباؤ اجداد کو شرمندہ کر رہے ہو، اپنے نہیں ؟’ پھر تو بکواس کرنے والے منہ چھپانے لگتے۔

ایک دن کسی  کمزور لمحے میں انہوں  نے راقم سے کہا، ‘تمہیں اعتبار نہیں ہوگا۔ تقسیم کے باوجود اس وقت کے مسلمان آج جتنے بیگانے نہیں ہوئے تھے۔ نہ ہی اتنے ولن بنے تھے۔… اس وقت  انہیں وہاں (پاکستان) بلانے اورلے جانے والے تھے  تو یہاں روکنے اور ہرگز نہ جانے دینے کی بات کہنے والے بھی ۔ لیکن آج یہاں  ‘پاکستان جاؤ’ کے نعرے سننے پڑتے ہیں اور جو پاکستان  چلےگئے ہیں،انہیں مہاجر کہا جاتا ہے۔ وہ زمانہ تھا، جب ملک کی تقسیم کے باوجود تہواروں کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ عید ہو، دسہرہ ہو، ہولی ہو یا دیوالی، سب مل کر مناتے تھے۔’

اگر وہ آج ہوتے تو کون جانے، وہ اپنی بات میں اتنا اضافہ کر دیتے کہ اب تو ہولی رمضان میں کسی جمعہ کوپڑ جائے  تو اس کے بہانے بھی دوریاں بڑھانے کے لیے ہنگامہ برپا کر دیا جاتا ہے۔ گھر میں قید رہنے کو کہا جانے لگتا ہے۔

ہندوستان کے مسلمان

 اتفاق سے تقسیم ہند کے وقت اردو کے مقبول شاعروں میں ایک تھے جگن ناتھ آزاد ، جنہوں نے جناح کی درخواست پر پاکستان کا پہلا قومی ترانہ لکھا تھا، کیونکہ جناح نہیں چاہتے تھے کہ یہ کوئی مسلمان شاعر لکھے۔ آزاد نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندوستان میں ان کے مستقبل کے بارے میں یقین دلاتے ہوئے، ‘ہندوستان کے مسلمان’ کے عنوان سے ایک طویل نظم لکھی تھی، جس میں انھوں نے کہا تھا، ‘تلسی کا دل آویز ترانہ ہے تیرا بھی…/ جوکرشن نے چھیڑا تھا فسانہ ہے تیرا بھی … میر ہی نہیں یہ  خزانہ ہے تیرا بھی!’

اس نظم کی چند سطریں درج ذیل ہیں؛

اس دور میں تو کیوں ہے پریشان و ہراساں

کیا بات ہے کیوں ہے متزلزل تیرا ایماں

دانش کدۂ دہر کی اے شمع فروزاں

اے مطلع تہذیب کے خورشید درخشاں

حیرت ہے گھٹاؤں میں تیرا نور ہو ترساں

بھارت کے مسلماں

تو درد محبت کا طلب گار ازل سے

تو مہر و مروت کا پرستار ازل سے

تو محرم ہر لذت اسرار ازل سے

ورثہ تیرا رعنائی افکار ازل سے

رعنائی افکار کو کر پھر سے غزل خواں

بھارت کے مسلماں

ہرگز نہ بھلا میرؔ کا غالبؔ کا ترانہ

بن جائے کہیں تیری حقیقت نہ فسانہ

قزاق فنا کو تو ہے درکار بہانہ

تاراج نہ ہو قاسمؔ و سیدؔ کا خزانہ

اے قاسمؔ و سیدؔ کے خزانے کے نگہباں

بھارت کے مسلماں

حافظؔ کے ترنم کو بسا قلب و نظر میں

رومیؔ کے تفکر کو سجا قلب و نظر میں

سعدیؔ کے تکلم کو بٹھا قلب و نظر میں

دے نغمۂ خیامؔ کو جا قلب و نظر میں

یہ لحن ہو پھر ہند کی دنیا میں ہو افشاں

بھارت کے مسلماں

طوفان میں تو ڈھونڈھ رہا ہے جو کنارا

امواج کا کر دیدۂ باطن سے نظارا

ممکن ہے کہ ہر موج بنے تیرا سہارا

ممکن ہے کہ ہر موج نظر کو ہو گوارا

ممکن ہے کہ ساحل ہو پس پردۂ طوفاں

بھارت کے مسلماں

ظاہر کی محبت سے مروت سے گزر جا

باطن کی عداوت سے کدورت سے گزر جا

بے کار دل افگار قیادت سے گزر جا

اس دور کی بوسیدہ سیاست سے گزر جا

اور عزم سے پھر تھام ذرا دامن ایماں

بھارت کے مسلماں

اسلام کی تعلیم سے بیگانہ ہوا تو

نا محرم ہر جرات رندانہ ہوا تو

آبادئی ہر بزم تھا ویرانہ ہوا تو

تو ایک حقیقت تھا اب افسانہ ہوا تو

ممکن ہو تو پھر ڈھونڈھ گنوائے ہوئے ساماں

بھارت کے مسلماں

اجمیر کی درگاہ معلیٰ تیری جاگیر

محبوب الٰہی کی زمیں پر تری تنویر

ذرات میں کلیر کے فروزاں تری تصویر

ہانسی کی فضاؤں میں ترے کیف کی تاثیر

سرہند کی مٹی سے ترے دم سے فروزاں

بھارت کے مسلماں

ہر ذرۂ دہلی ہے ترے ضو سے منور

پنجاب کی مستی اثر جذب قلندر

گنگوہ کی تقدیس سے قدوس سراسر

پٹنے کی زمیں نکہت خواجہ سے معطر

مدراس کی مٹی میں نہاں تاج شہیداں

بھارت کے مسلماں

بسطامیؔ و بصریؔ و معریٰؔ و غزالیؔ

جس علم کی جس فقر کی دنیا کے تھے والی

حیرت ہے تو اب ہے اسی دنیا میں سوالی

ہے گوشۂ پستی میں تری ہمت عالی

افسوس صد افسوس تری تنگئ داماں

بھارت کے مسلماں

مذہب جسے کہتے ہیں وہ کچھ اور ہے پیارے

نفرت سے پرے اس کا ہر اک طور ہے پیارے

مذہب میں تعصب تو بڑا جور ہے پیارے

عقل و خرد و علم کا یہ دور ہے پیارے

اس دور میں مذہب کی صداقت ہو نمایاں

بھارت کے مسلماں

بلاشبہ،آج ملک میں نفرت اور بداعتمادی کی جو صورت حال پیدا کی گئی  ہے وہ مسلمانوں سے ایک بار پھر اس یقین دہانی کے ساتھ اس کا ازالہ کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ جس طرح سے فرقہ پرست طاقتیں ہمیں روزانہ کی بنیاد پر دھمکیاں دے رہی ہیں، اس کے پیش نظر ہمیں مزید بین فرقہ وارانہ مکالمے اور اجتماعات کی ضرورت ہے۔

یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ رمضان، جمعتہ الوداع اور عید صرف اسلامی نہیں، بلکہ ہماری آزادی اور قومی اتحاد کا جشن بھی ہیں۔ آخر پنڈت نہرو نے جس نوشتہ تقدیر کی بات کی تھی، کچھ سوچ سمجھ کر ہی  ہماری آزادی کا رمضان اور اس کے جمعۃ الوداع سے میل کرایا گیا ہوگا۔