خبریں

پہلگام دہشت گردانہ حملہ: کشمیریوں نے کہا – سیاحتی صنعت بری طرح متاثر ہوگی

وادی کشمیر میں سیاحت کی واپسی بے روزگاری اور بڑھتے ہوئے منشیات کی لت کے درمیان امید کی کرن بن کر ابھر رہی تھی،لیکن پہلگام میں تازہ ترین دہشت گردانہ حملہ خطرے کی دستک  بن گیا ہے۔ ٹریول ایجنٹ اور تاجر مایوس ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے لیے سیاحت کا سیزن منگل کو ہی ختم ہوگیا۔

پہلگام حملے کے خلاف سری نگر کے گھنٹہ گھر لال چوک پر احتجاجی مظاہرہ۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@jkpdp)

پہلگام حملے کے خلاف سری نگر کے گھنٹہ گھر لال چوک پر احتجاجی مظاہرہ۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@jkpdp)

نئی دہلی: کشمیر کے پہلگام میں منگل (23 اپریل) کو اب تک کے سب سے بڑے دہشت گردانہ حملوں میں سے ایک میں تقریباً 26 لوگ مار دیے گئے ۔ مرنے والوں میں زیادہ تر سیاح ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ حکومت حالیہ برسوں میں وادی میں سیاحت میں اضافے کو سب کچھ نارمل ہونے کا ثبوت بتا رہی تھی۔ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ جنرل منوج سنہا نے دعویٰ کیا تھا کہ ‘سیاحت میں اضافہ وادی میں حالات کے نارمل ہونے کا اہم  اشارہ ہے۔’

یہ واقعہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد وادی کشمیر میں ‘نارمل  حالات’ کے دعوے پر سوال اٹھاتا ہے۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جب بھی کوئی بڑا پرتشدد واقعہ یا دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے تو وادی میں سیاحت کا شعبہ متاثر ہوتا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، کشمیر ٹریول ایجنٹس ایسوسی ایشن کے صدر رؤف ترمبو نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں سیاحت میں نمایاں اضافہ ہوا  تھا، لیکن اب اس واقعہ کے فوراً بعد گراہکوں اور بزنس پارٹنروں کی جانب سے بکنگ منسوخ کرنے کی درخواستیں آرہی ہیں۔’ انہوں نے اس واقعے کو ’بڑا صدمہ‘ قرار دیا۔

وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے گزشتہ ماہ اسمبلی میں کہا تھا کہ سال 2024 میں تقریباً 2.3 کروڑ سیاحوں نے ریاست کا دورہ کیا تھا۔ ریاستی محکمہ سیاحت کے مطابق، سال 2018 میں، یعنی آرٹیکل 370 کو ہٹانے سے ایک سال پہلے تقریباً 1.6 کروڑ سیاح ریاست میں آئے تھے، جن میں سے 8.3 لاکھ صرف کشمیر گئے تھے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، سال 2019 میں یہ تعداد گھٹ کر 5.65 ہزار اور پھر 2020 میں صرف 41 ہزار رہ گئی، واضح رہے کہ وہ لاک ڈاؤن کا سال تھا۔ سال 2023 میں یہ تعداد تیزی سے بڑھ کر 2 کروڑ سے زیادہ ہو گئی جس میں 27 لاکھ افراد نے صرف وادی کا دورہ کیاتھا۔

گزشتہ ماہ کے اوائل میں عمر عبداللہ نے کہا تھا، ‘سیاحت کو معمول کی صورتحال نہیں کہا جا سکتا۔ یہ صرف معاشی سرگرمیوں کا ایک اشاریہ ہے۔’

منگل کے دہشت گردانہ حملے کے بعد وادی کے باشندے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے یہ کہتے بھی نظر آرہے ہیں کہ اس واقعہ سے ان کی روزی روٹی پر برا اثر پڑے گا۔ حملے کی شام پہلگام میں ہلاک شدگان کے لیے نکالے گئے کینڈل مارچ میں مقامی لوگوں کو ‘ٹورازم ہماری جان  ہیں‘ جیسے نعرے لگاتے ہوئے دیکھا گیا ۔ ٹیکسی ایسوسی ایشن اور سیاحت سے وابستہ دیگر تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ صرف سیاحوں پر نہیں بلکہ ان کی روزی روٹی پر بھی حملہ ہے۔

کئی رپورٹوں کے مطابق وادی اس وقت بے روزگاری اور منشیات کے مسئلے سے دوچار ہے۔ ایسے میں سیاحت معاشی راحت کی امید بن کر ابھری۔ اتنا بڑا پرتشدد واقعہ کشمیر کو مزید مایوسی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

ٹریول ایجنٹ نے کہا –  ہمارے لیے سیاحتی سیزن ختم ہو گیا

انڈین ایکسپریس کے مطابق ، لدھیانہ میں قائم ٹریول کمپنی ٹریول ود کرن کے مالک کرن سگر نے اخبار کو بتایا، ‘بدھ کی صبح سےہمیں صرف کینسلیشن  کے کال موصول رہے ہیں۔ سری نگر میں موجود کئی سیاح جلد واپس آنا چاہتے ہیں۔’

سگر نے کہا کہ پہلگام حملے کے بعد سے ان کی کمپنی کے ساتھ 30 سے ​​زیادہ موسم گرما کے دورے منسوخ ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر امرناتھ یاترا سے متعلق تھے۔ عام طور پر سیاح مشترکہ سفر کا منصوبہ بناتے ہیں – پہلے امرناتھ یاترا اور پھر سری نگر میں دیکھنے کے لیے مقامات۔ یہ واقعہ یقینی طور پر نہ صرف ٹریول ایجنٹ بلکہ سری نگر کی پوری سیاحتی صنعت کو متاثر کرے گا۔’

اسی طرح، جموں ہوٹل اینڈ ریستوراں ایسوسی ایشن کے سینئر نائب صدر اور جموں میں ایشیا ہوٹل کے مالک رتندیپ آنند نے ہوائی کرایوں کی گراوٹ  کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا، منگل کی صبح حملے سے پہلے جموں سے سری نگر تک پرواز کا کرایہ 18000 روپے فی شخص تھا۔ آج، یہ گر کر 5000 روپے پر آ گیا ہے – اور اب بھی کوئی لینے والا نہیں ہے۔’

سرینگر کے ایک معروف ہوٹل کے جنرل منیجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا؛ ‘منگل کی رات سے، میں صرف کینسل ہی کر رہا ہوں، بہت سے گروپس نے پہلے ہی اپنے سفر کا منصوبہ بنا رکھا تھا، لیکن سری نگر میں پہلے سے موجود سیاح فلائٹ ملتے ہی وہاں سے نکل جانا چاہتے ہیں۔ دیگر ہوٹلوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ گزشتہ سال سری نگر میں ڈیسٹینیشن ویڈنگ،کارپوریٹ ٹورازم اور ٹورازم سیزن میں اچھال آیا تھا۔ لیکن منگل  کا دن سری نگر کے لیے یوم سیاہ بن گیا۔’

کشمیر پرنٹرز ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سری نگر کے رہائشی شبیر احمد نے کہا، ‘پہلگام واقعے کے بعد ہم صدمے میں ہیں۔ مقامی لوگ شدید صدمے میں ہیں۔ بدھ کی صبح سری نگر کے تمام بازاروں میں بے گناہوں کے قتل عام کی مذمت میں یوم سیاہ منایا گیا۔ پہلگام میں بہت سے مقامی ٹرانسپورٹر بھی مفت سواریوں کی پیشکش کر رہے ہیں تاکہ سیاحوں کو ہندوستان میں کہیں بھی بحفاظت گھر لوٹنے میں مدد ملے۔ ہم مشکل کی اس گھڑی میں سیاحوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔’

انھوں نے کہا، ‘اس میں کوئی شک نہیں کہ بدھ کے روز سیاح بہ مشکل ہوٹلوں سے  باہر نکلے اور جلد از جلد نکل گئے۔ ہمارے لیے سیاحتی سیزن منگل کو ہی ختم ہو گیا۔’

احمد نے کہا کہ سیاحتی صنعت پچھلے سال ‘بہت عروج پر’ تھی۔ لیکن اب ہوٹلوں اور ریستورانوں سے لے کر ٹرانسپورٹرز، پرنٹرز اور یہاں تک کہ ایک چھوٹا کافی بیچنے والا بھی متاثر ہوگا۔’