خبریں

پہلگام حملہ: سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا

پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستان نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ہے۔ یہ قدم پاکستان پر دباؤ بنانے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ہندوستان  کنٹرولڈ واٹر فلو  کو روک سکتا ہے، لیکن قدرتی بہاؤ پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اثرات محدود ہوں گے،لیکن پیغام واضح ہے۔

علامتی تصویر۔ (فوٹو: محمد عثمان غنی/IWMI فلکر فوٹوز/فلکر (CC BY-NC-ND 2.0)

علامتی تصویر۔ (فوٹو: محمد عثمان غنی/IWMI فلکر فوٹوز/فلکر (CC BY-NC-ND 2.0)

نئی دہلی: پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستان نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا ہے۔ بدھ (23 اپریل) کی شام سکریٹری خارجہ وکرم مصری نے کہا ، ‘1960 کا سندھ طاس معاہدہ اس وقت تک فوری اثر سے معطل کیا جا رہا ہے جب تک کہ پاکستان دہشت گردی کی حمایت سے بالکلیہ اور قابل اعتبار طور پرباز نہیں آجاتا۔ ‘

گزشتہ22 اپریل کے دہشت گردانہ حملے میں 26 سیاحوں  کی ہلاکت کے بعدیہ ہندوستان  کی جانب سے پاکستان کے خلاف اٹھائے گئے سفارتی اقدامات میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان  نے اٹاری بارڈر پوسٹ کو بند کرنے ، ویزا رد کرنے اور کئی پاکستانی اہلکاروں کو ہندوستان سے نکالنے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔

ہندوستان  سندھ طاس آبی معاہدے  کی معطلی کو کیسے لاگو کرے گا ؟

ہندوستان دو کام کر سکتا ہے ۔

سب سے پہلے ، ہندوستانی  حکومت مغربی ندیوں (سندھ ، جہلم اور چناب ) کے کنٹرول شدہ پانی کے بہاؤ کو روک سکتی ہے ، یعنی ان ندیوں  پر بنائے گئے ڈیموں اور پن بجلی کے منصوبوں سے پانی چھوڑنا بند کر سکتی ہے۔ اگرچہ ان ندیوں  کا قدرتی بہاؤ جاری رہے گا ، لیکن کنٹرول شدہ بہاؤ (جو پاکستان کی آبپاشی اور پینے کے پانی کے لیے ضروری ہے ) کو  روکا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر ، چناب پربنا  بگلیہار ڈیم پانی کو روک سکتا ہے ، جس سے پاکستان کی طرف بہاؤ کم ہو سکتا ہے۔

دوم ، ہندوستان  مغربی ندیوں پر پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبوں جیسے چناب پر پکل ڈل (1000 میگاواٹ) اور ساولکوٹ (1856 میگاواٹ) کو تیزی سے مکمل کرنے کی سمت کام کر سکتا ہے ۔ اس سے ہندوستان مستقبل میں چناب کے پانی کے بہاؤ پر مزید کنٹرول حاصل کر سکے گا۔

اس کے علاوہ انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت تکنیکی اجلاسوں ، ڈیٹا شیئرنگ اور تنازعات کے حل کے عمل کو بھی ملتوی کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان  کو اب پاکستان کو پانی کے بہاؤ یا منصوبوں کے ڈیزائن میں تبدیلی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

قدرتی بہاؤ اور کنٹرول شدہ بہاؤ میں کیا فرق ہے ؟

انڈس واٹر ٹریٹی کے تناظر میں، قدرتی بہاؤ اور کنٹرول شدہ بہاؤ میں فرق یہ ہے کہ پانی کا بہاؤ قدرتی طور پر بہہ رہا ہے یا اسے انسانی مداخلت سے کنٹرول کیاگیا ہے ؟

قدرتی بہاؤ پانی کی وہ مقدار ہے جو ایک مقررہ وقت میں کسی دریا سے گزرے گی اگر انسان کے بنائے ہوئے ڈیم ، ذخائر یا رکاوٹیں نہ ہوں ۔ اس میں بارش سے آنے والا پانی ، گلیشیئر پگھلنے اور زیر زمین پانی کے ذرائع  سے حاصل ہونے والا اپانی شامل ہوتا ہے۔

کنٹرول شدہ بہاؤ کا مطلب ہے انسان کے بنائے ہوئے ڈیموں،ذخائر، ،  دروازوں وغیرہ سے پانی کے بہاؤ کوکنٹرول کرنا۔اس میں پانی کو روکنا، وقت پر چھوڑنا ، یا اسے بڑھانا یا کم کرنا شامل ہے۔ انڈس واٹر ٹریٹی ہندوستان  کو مغربی ندیوں  پر ‘رن آف دی ریور’ ہائیڈرو پاور پروجیکٹس بنانے کی اجازت دیتا ہے – یعنی وہ پانی کو عارضی طور پر موڑ سکتا ہے ، لیکن اس کی مجموعی مقدار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کر سکتا ۔

سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو کتنا پانی ملتا ہے؟

سندھ،جہلم اور چناب سے ہر سال اوسطاً 135ایم اے ایف (اوسط سالانہ بہاؤ یا سالانہ اوسط پانی کا بہاؤ ) پانی پاکستان  کو ملتا ہے۔ ہندوستان ان ندیوں  پر جتنے چاہے رن آف دی ریور پروجیکٹ بنا سکتا ہے ، جیسے بگلیہار ڈیم ، 7.01 لاکھ ایکڑ رقبہ کی سینچائی  کرسکتا ہے ، اور زیادہ سے زیادہ 3.6 ایم اے یف پانی ذخیرہ کرسکتا ہے ۔

معاہدے کے تحت ہندوستان  کو جموں و کشمیر اور لداخ میں 13.4 لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے کی اجازت ہے لیکن اب تک صرف 6.42 لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کیا جا رہا ہے۔ مزید برآں، ہندوستان  مشرقی ندیوں  سے 33 ایم اے ایف پانی حاصل کرتا ہے ، جس میں سے صرف 90 فیصد استعمال ہو رہا ہے۔ راوی سے 2 ایم اے ایف  پانی اور ستلج/بیاس سے 5.5 ایم اے ایف  پانی پاکستان کی طرف جاتا ہے کیونکہ ہندوستان  میں اس لیے  کے لیے بنیادی ڈھانچےمکمل نہیں ہیں۔

معاہدہ معطل کرنے سے کیا اثر پڑے گا ؟

ان ندیوں کا اوسطاً 135 ایم اے ایف گلیشیئرزکے پگھلنےاور مونسون سے آتا ہے ، جو معاہدے کی معطلی سے متاثر نہیں ہو گا۔ لیکن ہندوستان  کے زیر کنٹرول بہاؤ – جو کہ تقریباً 3.6 ایم اے ایف کے ذخائر سے ہوتا ہے – کو روکا جا سکتا ہے۔

فی الحال ہندوستان  کے پاس جموں و کشمیر میں ذخیرہ کرنے کی گنجائش بہت کم ہے ، اس لیے زیادہ پانی ذخیرہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ بگلیہار ڈیم میں صرف 1.5 ایم اے ایف تک ذخیرہ ممکن ہے۔ ہندوستان  صرف اتنا ہی پانی روک  سکتا ہے جتنا اس کے پاس ترقی یافتہ ڈھانچے میں ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ اس کے بعد اس  پانی  کوچھوڑنا  ہی پڑے گا۔

اگر ہندوستان  3.6 ایم اے ایف کی مکمل صلاحیت پیدا کرتا ہے تو وہ پاکستان کو پانی کی فراہمی کو عارضی طور پر کنٹرول کر سکتا ہے ، خاص طور پر کھیتی کے سیزن میں۔ لیکن وہ اس پانی کو مستقل طور پر ذخیرہ یا خود استعمال نہیں کر سکتا۔

پاکستان کو نقصان ہو سکتا ہے ؟

مغربی ندیوں کا 60-70 فیصد پانی گلیشیئرز سے آتا ہے اور 30-40 فیصد مونسون سے آتا ہے ، جس پر ہندوستان  کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اس لیے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے باوجود پاکستان کو ہر سال انڈس واٹر ٹریٹی کا 131.4فیصد پانی ملتا رہے گا ۔

مونسون کے دوران (جولائی تا ستمبر )ان ندیوں میں پانی کا بہاؤ 5800 کیوبک میٹر فی سیکنڈ سے زیادہ ہوتا ہے ، جو ہندوستان کی مصنوعی رکاوٹ کو ناکام بنا سکتا ہے۔ اس لیے اس کا فوری اثر واضح نہیں ہے۔ لیکن 2025 کے موسم گرما میں، جب فصلیں بوئی جاتی ہیں ، اس کے اثرات دیکھنے کو مل سکتے ہیں ۔

طویل مدت میں اگر ہندوستان بڑے منصوبے مکمل کرتا ہے اور پاکستان لچک دکھانے سے قاصر رہتا ہے ، تو اس سے پاکستان میں پانی کا بحران  گہرا ہو سکتا ہے۔

تو ان سب کا کیا مطلب ہے ؟

قدرتی جغرافیہ ، نامکمل ڈھانچے اور معاہدوں کی شرائط کی وجہ سے ہندوستان  کے لیے پاکستان کو پانی سے محروم کرنا مشکل ہے۔ انڈس سسٹم  کا زیادہ تر پانی پاکستان کو ملتا رہے گا۔

ہندوستان کسی حد تک کنٹرول شدہ بہاؤ (3.6 ایم اے ایف) کو کنٹرول کر سکتا ہے ، لیکن 131.4ایم اے ایف قدرتی بہاؤ ہندوستان کے کنٹرول سے باہر ہے۔ ہندوستان کے لیے اس وقت تک پانی کے اس بہاؤ کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں جب تک وہ بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر نہیں بنالیتا۔