خاص خبر

پنجاب: پہلگام حملے کے بعد کشمیری طلبہ پر حملہ، پڑھائی بیچ میں چھوڑ کر لوٹنے کو مجبور

سینکڑوں کشمیری طلبہ پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ پہلگام حملے کے بعد نشانہ بنائے گئے 45 کشمیری طالبعلم پنجاب سے واپس آ گئے  ہیں۔ انہیں امید نہیں ہے کہ وہ جلد ہی کالج لوٹ سکیں گے، اور اس سے ان کےمستقبل پر اثر پڑسکتا ہے۔

پنجاب سےبھاگ کر بس سے اتر تا ایک غمگین کشمیری طالبعلم۔ (تمام تصاویر بہ شکریہ: عبید مختار)

پنجاب سےبھاگ کر بس سے اتر تا ایک غمگین کشمیری طالبعلم۔ (تمام تصاویر بہ شکریہ: عبید مختار)

سری نگر: خورشید کے لیے 23 اپریل کو پریشانی اس وقت شروع ہوئی،  جب وہ پنجاب کے موہالی کے مضافات میں ایک آٹو رکشہ میں اپنے کالج جا رہے تھے، جہاں وہ بیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریشن  کی پڑھائی کر رہے ہیں۔

موہالی میں رایت بہرا یونیورسٹی کے اس 20 سالہ طالبعلم نے بتایاکہ اس کے دوستوں نے انہیں کالج نہ آنے پر راضی کرنے کی کوشش کی تھی، کیونکہ ایک دن پہلے پہلگام میں ہوئے حملے کے بعد ملک بھر میں غصے اور احتجاج کے ماحول کا مشاہدہ کیا جا رہا  تھا ۔

انہوں نے کہا، ‘ہمارے امتحان آنے والے ہیں۔ مجھے لگا کہ ہم پنجاب میں محفوظ ہیں۔’

مبینہ طور پر ہریانہ اور ہماچل پردیش سے تعلق رکھنے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ایک گروپ نے شروع میں خورشید کو عجیب نظروں سے دیکھا۔ اس رکشہ میں خورشید واحد کشمیری تھے۔ اس کے بعد ان نوجوانوں نے کشمیر کو لے کر فرقہ وارانہ بیان بازی شروع کر دی، جس کی وجہ سے سری نگر کے رہنے والے خورشید بھی بحث میں الجھ گئے۔

خورشید نے کہا کہ ‘انہوں نے مجھے دہشت گرد کہا اور میری ماں اور بہن کو بھی گالیاں دیں۔’ ‘جب میں کالج پہنچا تو وہاں سب مجھے شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ بہت کم لوگوں نے مجھ سے بات کی۔ اگلے دن سوشل میڈیا پر طلبہ کے خلاف مار پیٹ کے ویڈیوز وائرل ہونے لگے۔ میرے ایک دوست کو بھی مارا پیٹا گیا،‘ انہوں  نے بتایا۔

خورشید ان 45 طلبہ کے گروپ میں شامل ہیں، جو سوموار (28 اپریل) کو پنجاب سے کشمیر میں اپنے گھروں کو لوٹے تھے۔ یہ واقعہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے چھ دن بعد پیش آیا، جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

متاثرہ طالبعلموں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جنہیں شرپسندوں نے ہراساں کیا۔ ان حملوں کی اطلاعات کھرڑ، ڈیرہ بسی، ہوشیار پور، چندی گڑھ، جالندھر اور پنجاب کے کچھ دوسرے حصوں سے موصول ہوئی ہیں۔

موہالی کے لالرو قصبے میں یونیورسل گروپ آف انسٹی ٹیوشنز (یو جی آئی) کے ایک نوجوان نے دی وائر کو بتایا کہ گزشتہ ہفتے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کو لوہے کی راڈ اور چاقوؤں سے مسلح غیر پنجابی طلبہ کے ایک گروپ نے کشمیری طلبہ کو نشانہ بنایا۔

انہوں نے بتایا،’میرے ایک دوست کو مارا پیٹا گیا اور اس کے ساتھ بدسلوکی کی گئی، جبکہ کالج انتظامیہ اور سیکورٹی اہلکاروں نے ہماری حالت زار پر آنکھیں بند کر لیں۔’

یوجی آئی میں ایک کشمیری طالبہ پر مبینہ طور پر حملہ کیا گیا اور اس کو بالوں سے گھسیٹا گیا اس سے پہلے کہ وہ ایک اور کشمیری طالبہ کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو پاتی۔ اس پریشان لڑکی کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں وہ کچھ پنجابی نوجوانوں کو اپنی آپ بیتی بیان کر رہی تھی، جو اسے بچانے آئے تھے۔

پنجاب میں زیر تعلیم دو کشمیری طالبات، جنہیں پہلگام حملے کے بعد واپس جانے پر مجبور ہونا پڑا۔

پنجاب میں زیر تعلیم دو کشمیری طالبات، جنہیں پہلگام حملے کے بعد واپس جانے پر مجبور ہونا پڑا۔

ذرائع نے بتایا کہ متاثرہ لڑکی کو دو دیگر طالبات کے ساتھ ان کے اہل خانہ نے سری نگر واپس بھیج دیا ہے۔ پنجاب اسٹیٹ ویمن کمیشن نے اس حملے کو’وحشیانہ’ قرار دیا۔ کمیشن نے پولیس کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ذمہ دار لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے یا نہیں۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئےرایت بہرا یونیورسٹی میں نرسنگ کی ایک طالبہ امت شبیر، جو موہالی میں ایک مکان لے کر رہ رہی تھیں، نے بتایا کہ 22 اپریل کو پہلگام حملے کی خبر آنے کے بعد سے وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی۔ پہلگام حملے کے بعدرایت بہرا یونیورسٹی کے زیادہ تر طلبہ اپنے ہاسٹل اور نجی رہائش گاہوں کے اندر ہی رہے، کیونکہ یونیورسٹی حکام نے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان ان کی حفاظت کی ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔

شمالی کشمیر کے ایک قصبے کے رہنے والے شبیر نے کہا، ‘ہمارے گھر کے قریب رہنے والی ایک خاتون دکانداروں پر چیخ رہی تھی کہ وہ سوسائٹی میں رہنے والے کشمیریوں کو گروسری کا سامان  نہ دیں۔ وہ بار بار یہی کہہ رہی تھی کہ تمام کشمیری دہشت گرد ہیں۔ بتائیے میرا پہلگام سے کیا لینا دینا؟ میں تو صرف ایک طالبعلم ہوں۔’

موہالی میں یونیورسٹی کا ایک طالبعلم سوموار کوبس سے باہر نکلتا ہوا۔

موہالی میں یونیورسٹی کا ایک طالبعلم سوموار کوبس سے باہر نکلتا ہوا۔

دیگر ریاستوں میں بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے

سینکڑوں کشمیری طلبہ پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے کچھ طلبہ غریب معاشی پس منظر سے آتے ہیں، جو جموں و کشمیر اور لداخ کے طلبہ کے لیے 2011 میں شروع کی گئی وزیر اعظم کی خصوصی اسکالرشپ اسکیم کی مدد سے نجی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق، اس سکیم کے تحت ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں 20 ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ملک میں سیاسی بحران کے باوجود زیادہ تر طلبہ اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پہلگام حملے کے فوراً بعد پنجاب وہ واحد صوبہ نہیں تھا، جہاں طلبہ اور دیگر کشمیری شہریوں کے خلاف تشدد کا مشاہدہ کیا گیا۔ 2019 کے پلوامہ خودکش بم دھماکے کے بعد کشمیریوں کے خلاف ٹارگٹڈ تشدد سے ایک غیر معمولی مماثلت تھی، جس کی وجہ سے سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی تھی۔

پچھلے چھ دنوں میں ہندوستان بھر میں کم از کم 17 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں کشمیری طلبہ پر حملہ کیا گیا ہے۔ ان حملوں کے بعد جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنے کابینہ کے ساتھیوں کو ملک کے مختلف شہروں میں بھیجا تاکہ جموں و کشمیر کے باشندوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

ہیلپ لائن سے کوئی مدد نہیں ملی

بڑھتے ہوئے حملوں کے درمیان عبداللہ حکومت نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا  کہ ملک کے دیگر حصوں میں مسائل کا سامنا کر رہے جموں کشمیر کے باشندوں کے لیے ایک ہنگامی ہیلپ لائن قائم کی گئی ہے۔

تاہم، رایت بہرا یونیورسٹی کے طلبہ نے الزام لگایا کہ ہیلپ لائن سے بہت زیادہ مدد نہیں ملی کیونکہ یا تو ان کے فون کال کا جواب نہیں دیا گیا یا حکام نے ‘کھوکھلی یقین دہانیاں’ کرائیں۔

خورشید نے کہا، ‘ہمیں جموں و کشمیر حکومت سے کوئی مدد نہیں ملی۔ ہم سب نے ہیلپ لائن پر کال کرنے کی کوشش کی، لیکن صرف دو سے تین کالوں کا ہی جواب دیا گیا اور ان معاملات میں بھی انہوں نے ہماری مدد نہیں کی۔ اس مشکل وقت میں صرف شرومنی اکالی دل امرتسر، پنجاب پولیس اور صبر شکایت سیل (ایک سماجی تنظیم) کے ارکان نے ہماری دیکھ بھال کی۔’

پہلگام حملے کے بعد ملک میں پولرائزیشن کا پہلا شکار بننے والے طلبہ سوموار (28 اپریل) کو اداس اور غمگین ماحول کے درمیان ایک بس سے سری نگر پہنچے۔ یہ بس ہفتہ کو پنجاب سے روانہ ہوئی تھی۔ کشمیر میں ان کی واپسی سے ان کے خاندانوں کو راحت ملی ہے، لیکن طلبہ کو جلد ہی اپنی کلاسوں میں واپسی کی امید نہیں ہے،جس کی وجہ سے ان کا کیریئر خطرے میں پڑ گیا ہے۔

بی ایس سی کرنے والے عابد لطیف نے بتایاکہ پنجاب میں رہنے والے ہریانہ اور ہماچل پردیش کے کچھ باشندے پہلگام حملے کے بعد سے کشمیری طلبہ کو ان کے کرائے کے فلیٹوں سے باہر نکالنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کالج انتظامیہ بھی ان کی سکیورٹی سے ہاتھ پیچھے کھینچ رہی ہے۔

انہوں نے بتایا، ‘ہم دو دن سے بھوکے تھے اور جب میں جمعرات کو گروسری خریدنے گیا تو دکاندار نے مجھے یہ کہہ کر بھگا دیا کہ تمام کشمیری دہشت گرد ہیں۔ میں خوش ہوں کہ میں زندہ واپس آگیا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)