گزشتہ دس سالوں میں مسلم مخالف تعصب اور جذبات عروج پر پہنچ گئےہیں– اور اسے مقتدرہ پارٹی کی خطرناک سیاست نے اوربھڑکایا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جب بھی کشیدگی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، تو اس کا اثر مسلمانوں پر ظلم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پہلگام حملے کے بعد جو ماحول بنا ہے، وہ بالکل وہی ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔
پہلگام حملے کو ایک مہینہ گزر چکا ہے، لیکن این آئی اے کو ابھی تک کوئی ٹھوس سراغ نہیں ملا ہے۔ تفتیشی ایجنسی گواہوں سے پوچھ گچھ اور تکنیکی نگرانی کر رہی ہے۔ پانچ دہشت گردوں پر شبہ ہے، جن میں سے تین پاکستانی ہو سکتے ہیں۔ سینکڑوں لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ تھری ڈی میپنگ بھی کی گئی ہے۔
حکومت چلانے کے لئے تدبر، تحمل اور معاملہ فہم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مہم جوئی فوج اور انٹلی جنس میں تو درست ہے مگر اعلیٰ سیاسی عہدوں میں اس طرح کا مزاج خطرناک ہوتا ہے۔
دنیا بھر کے دفاعی ماہرین ہندوستانی فضائیہ کی اس کارروائی کی کامیابی کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک متفق ہیں کہ میزائل ٹارگٹ سے خاصے دور گرے۔
پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد پاکستان کی حکمت عملی آرمی چیف، وزیر اعظم، خفیہ ایجنسی، اور خزانہ اور خارجہ کی وزارتیں طے کر رہی ہیں۔ حتمی فیصلوں میں کس کا کیا اور کتنا کردار ہوگا، تفصیل سے ملاحظہ کریں۔
پہلگام حملے کے دو دن کے اندر ہی وادی میں گیارہ مکانوں کو تہس نہس کر نے اور گرفتاریوں کے سلسلہ کی وجہ سے خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ مکانات ان خاندانوں کے تھے، جن کے افراد خانہ نے واردات میں مدد دی تھی۔ ابھی تو تفتیش کا آغاز بھی نہیں ہوا۔یہ کس طرح کا انصاف ہے؟
سینکڑوں کشمیری طلبہ پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ پہلگام حملے کے بعد نشانہ بنائے گئے 45 کشمیری طالبعلم پنجاب سے واپس آ گئے ہیں۔ انہیں امید نہیں ہے کہ وہ جلد ہی کالج لوٹ سکیں گے، اور اس سے ان کےمستقبل پر اثر پڑسکتا ہے۔
جب کوئی معاشرہ انسداد دہشت گردی کی کارروائی کے بجائے، نمائشی اور کھوکھلے ‘انصاف’ کا انتخاب کرتا ہے تو اس کا فائدہ دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کو ہوتا ہے۔
جنوبی کشمیر کے پہلگام میں دہشت گردوں کے ذریعے سیاحوں پر حملے کے بعد وزیر داخلہ کے علاقے میں سیکورٹی اور امن قائم ہونے کے دعووں پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سینئر صحافی سنجے کے جھا اور دی وائر کی نیشنل افیئرز کی ایڈیٹر سنگیتا بروآ پیشاروتی سے تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری ۔
مرکزی حکومت نے 24 اپریل کو بلائی گئی آل پارٹی میٹنگ میں کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں کاروبار کی ترقی اور سیاحت کی واپسی سمیت سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود پہلگام دہشت گردانہ حملہ ایک ‘چوک’ تھی۔ اپوزیشن پارٹیوں نے میٹنگ میں پی ایم مودی کی غیر حاضری اور حملے کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پر شروع کی گئی نفرت انگیز مہم پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
پہلگام کی بیسرن وادی میں 22 اپریل کو ہوئے دہشت گردانہ حملے میں کم از کم 26 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔عینی شاہدین کے مطابق، کم از کم دو حملہ آوروں نے غیر مسلموں کو چن کر نشانہ بنایا۔ دہشت گردوں نے لوگوں کی مذہبی شناخت کی تصدیق کی اورنزدیک سے گولی مار ی۔
کشمیر کے پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری ٹی آر ایف (دی ریزسٹنس فرنٹ) نے قبول کی ہے، جو لشکر طیبہ کا ایک حصہ ہے۔ یہ تنظیم کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد بنائی گئی تھی اور اس کے بعد سے یہ غیر مقامی لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ حکومت نے 2023 میں اس پر پابندی لگا دی تھی۔