سپریم کورٹ نے ایک ایک ہندو خاتون سے شادی کرنے کے بعد تقریباً چھ ماہ سے جیل میں بند ایک مسلمان شخص کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ دو بالغ افراد کے آپسی رضامندی سے ساتھ رہنے پر صرف اس لیے اعتراض نہیں کر سکتا کہ وہ الگ الگ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ایک ہندو خاتون سے شادی کرنے کے بعد تقریباً چھ ماہ سےجیل میں بند ایک مسلمان شخص کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ ریاست دو بالغ افراد کےآپسی رضامندی سے ساتھ رہنے پر صرف اس لیے اعتراض نہیں کر سکتی کہ وہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس بی وی ناگرتنا اور ستیش چندر شرما کی بنچ نے ایک شخص کی اپیل کو قبول کرتے ہوئے یہ حکم دیا، جنہیں اتراکھنڈ ہائی کورٹ نےفروری 2025 میں ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا ۔
درخواست گزار کو اتراکھنڈ فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2018 اور انڈین جسٹس کوڈ 2023 کی دفعات کے تحت اپنی مذہبی شناخت چھپانے اور دھوکہ دہی سے ہندو رسم و رواج کے تحت خاتون سے شادی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ایک حالیہ فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا، ‘مدعا علیہ-ریاست کو اپیل کنندہ اور ان کی بیوی کے ساتھ رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا، کیونکہ انہوں نے اپنے والدین اور خاندانوں کی مرضی کے مطابق شادی کی ہے۔’
بنچ نے مزید واضح کیا کہ جاری فوجداری کارروائی جوڑے کی اپنی مرضی سے ساتھ رہنے کی راہ میں آڑےنہیں آئے گی۔
عدالت نے درخواست گزار کو ضمانت پر رہا کرنے کی ہدایت دی، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ وہ تقریباً چھ ماہ سے جیل میں ہیں اور ان کے خلاف چارج شیٹ پہلے ہی داخل کی جا چکی ہے۔ بنچ نے کہا،’ریکارڈ پر موجود حقائق کو دیکھتے ہوئے ہمارے خیال میں ضمانت کا معاملہ بنتا ہے۔’
عدالت نے درخواست گزار کے سینئر وکیل کی طرف سے پیش کی گئی دلیل پر بھی غور کیا، جنہوں نے استدلال کیا کہ کچھ افراد اور تنظیموں کی جانب سے بین المذاہب شادی پر اعتراضات اٹھائے جانے کے بعد ہی ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ شادی دونوں خاندانوں کی مکمل معلومات اور موجودگی میں ہوئی اور صدیقی نے شادی کے اگلے دن حلف نامہ دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرے گا اور وہ اپنے مذہب کی پیروی کرنے کے لیے آزاد ہوگی۔
جوڑے نے 10 دسمبر کو شادی کی تھی، جس کے صرف دو دن بعد متعلقہ ایف آئی آر اتراکھنڈ کے ادھم سنگھ نگر ضلع کے رودر پور تھانے میں 12 دسمبر 2024 کو درج کی گئی تھی۔ اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے پہلے صدیقی کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ اس کے مذہب سے متعلق حقائق مبینہ طور پر اس کے خاندان کو ظاہر نہیں کیے گئے تھے اور شادی سے پہلے اس کے خاندان کو نہیں بتایا گیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ 28 فروری کو ضمانت مسترد کرنے کے اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ نے استغاثہ کی اس دلیل کو قبول کیا کہ اس شخص کی مذہبی شناخت کو جان بوجھ کر چھپایا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے پایا کہ شادی ہندو رسم و رواج کے تحت کی گئی تھی، لیکن درخواست گزار اور اس کے خاندان نے شادی کے بعد تک اپنی مسلم شناخت ظاہر نہیں کی۔
شکایت خاتون کے ایک چچازاد کی طرف سے درج کروائی گئی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ خاندان کو دولہے کے مذہبی پس منظر کے بارے میں دہلی میں اس کے گھر جانے کے بعد ہی معلوم ہوا جہاں انہوں نے دیکھا کہ ‘زیادہ تر لوگ دوسری برادری کے تھے۔’ 11 دسمبر کو صدیقی کی طرف سے داخل کردہ حلف نامہ کے باوجود اگلے ہی دن ایف آئی آر درج کی گئی، جس میں انہوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کریں گے اور ان کی مذہبی خودمختاری کا احترام کریں گے۔
جبکہ صدیقی کے وکیل نے اس بات پرزور دیا کہ ان کی والدہ ہندو ہیں اور وہ ہندو ماحول میں پلے بڑھے ہیں، ہائی کورٹ کو اس سے اتفاق نہیں تھا۔ اس نے نوٹ کیا کہ جوڑے نے اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی نہیں کی تھی، جو کہ ہندوستان میں بین مذہبی شادیوں کو کنٹرول کرتا ہے، اور یہ کہ اہم حقائق مبینہ طور پر خاتون کے خاندان سے چھپائے گئے تھے، حلف نامے کو ثبوت کے طور پر نشان زد کرتے ہوئے کہا کہ ‘صحیح حقائق کا انکشاف نہیں کیا گیا تھا۔’
اس دفاع کو مسترد کرتے ہوئے کہ یہ باتیں دونوں فریقوں کو معلوم تھیں، ہائی کورٹ نے نتیجہ اخذ کیا، ‘درخواست گزار ضمانت کا حقدار نہیں ہے۔’
اس کے برعکس، سپریم کورٹ نے اس معاملے کو ذاتی آزادی اور ازدواجی خود مختاری کے نقطہ نظر سے دیکھا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ ریاست مذہبی اختلافات کی بنیاد پر بالغ افراد کے ساتھ رہنے کے حق کو سلب نہیں کر سکتی۔
بنچ نے کہا، ‘یہ ایک موزوں کیس ہے جس میں ضمانت کی راحت ملنی چاہیے۔’ بنچ نے عرضی گزار کی دلیل کو نوٹ کیا کہ جوڑے اپنے خاندانوں سے الگ رہنے کا انتخاب کر سکتے ہیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے سکون سے رہ سکتے ہیں۔
Categories: خبریں