خاص خبر

آسام: 2015 سے پہلے درج غیر مسلموں کے خلاف فارنرز ٹربیونلز کے مقدمات واپس لے گی حکومت، سی اے اے کا حوالہ دیا

سی اے اے کا حوالہ دیتے ہوئے آسام حکومت نے ضلع حکام اور فارنرز ٹربیونلز کے ارکان سے کہا ہے کہ وہ 31 دسمبر 2014 کو یا اس سے پہلے ریاست میں داخل ہونے والے ہندو، عیسائی، سکھ، بدھ، جین اور پارسی کے کے خلاف مقدمات واپس لیں ۔

ہمنتا بسوا شرما۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کا حوالہ دیتے ہوئے آسام حکومت نے ضلع حکام اور فارنرز ٹربیونلزکے اراکین سے درخواست کی ہے کہ وہ ہندو، عیسائی، سکھ، بدھ، جین اور پارسی – جو 31 دسمبر 2014 کو یا اس سے پہلے ریاست میں داخل ہوئے تھے، کے خلاف مقدمات واپس لے لیں۔

اسکرول ڈاٹ ان کی پورٹ کے مطابق ، ریاست کے محکمہ داخلہ اور سیاسیات نے 17 جولائی کو ایک میٹنگ کی اور سی اے اے کے سلسلے میں فارنرز ٹربیونل سے متعلق معاملات اور مقدمات کی واپسی پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ میٹنگ آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما کی ہدایت پر ہوئی تھی۔

واضح ہو کہ سی اے اے کا مقصد بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے آنے والے چھ اقلیتی مذہبی طبقے (سوائے مسلمان) کے پناہ گزینوں کو شہریت فراہم کرنا ہے، بشرطیکہ وہ چھ سال تک  ہندوستان میں رہے ہوں اور 31 دسمبر 2014 تک ملک میں داخل ہوچکے ہوں۔

یہ قانون پارلیامنٹ نے دسمبر 2019 میں پاس کیا تھا۔ مرکزی حکومت نے مارچ 2024 میں ایکٹ کے تحت اس کے اصولوں کو مطلع کیا۔

واضح ہوکہ آسام میں فارنرز ٹربیونلز نیم عدالتی ادارے ہیں جوخاندانی سلسلے اور 1971 کی کٹ آف تاریخ کی بنیاد پر شہریت کے مقدمات کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر 1971 سے پہلے آسام یا ہندوستان میں اپنے خاندان کی رہائش قائم کرنے کے لیے افراد کی طرف سے جمع کرائے گئے دستاویزات پر انحصار کرتے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ ٹربیونلز پر من مانی اور تعصب کا الزام لگایا گیا ہے اور ہجے کی معمولی غلطیوں، دستاویزوں کی کمی وغیرہ کی بنیاد پر لوگوں کو غیر ملکی قرار دینے کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔

اسکرول کے مطابق، اب تک غیر ملکی قرار دیے گئے 1.6 لاکھ افراد میں سے 69,500 سے زیادہ ہندو ہیں۔

محکمہ داخلہ نے، جس کے تحت بارڈر پولیس اور فارنرز ٹربیونلز کام کرتے ہیں، نے کمشنروں، پولیس سربراہان اور ٹربیونلز کے ممبران کو اس معاملے میں ی گئی کارروائی کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

ایڈیشنل چیف سکریٹری، ہوم اینڈ پالیٹکل ڈپارٹمنٹ اجئے تیواری کے دستخط شدہ میٹنگ کے منٹس میں کہا گیا، ‘شہریت ایکٹ میں کی گئی ترامیم کے مطابق، ایف ٹی چھ مخصوص کمیونٹی (ہندو، عیسائی، بدھ، سکھ، پارسی اور جین کمیونٹی) سے تعلق رکھنے والے غیر ملکیوں، جو 31.12.2014 کو یا اس سے پہلے آسام میں داخل ہوئے تھے، کے معاملوں کو آگے نہیں بڑھانا ہے۔’

اس میں مزید کہا گیا کہ ‘ایسے تمام معاملات کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی۔’

اس میں مزید کہا گیا ہے،’اس سلسلے میں، ڈسٹرکٹ کمشنرز اور پولیس کے سینئر سپرنٹنڈنٹس کو فوری طور پر اپنے متعلقہ ایف ٹی ممبران کے ساتھ میٹنگ کرنی چاہیے اور وقتاً فوقتاً پیش رفت کا جائزہ لینا چاہیے اور اس محکمے کو کیے گئے اقدامات کی رپورٹ پیش کرنی چاہیے۔’

ضلع حکام کو بھیجے گئے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کی دفعات کے مطابق، غیر ملکیوں کو ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دینے کے لیے ‘حوصلہ افزائی اور حمایت’ کی جانی چاہیے۔

اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ آسام حکومت نے گورکھا اور کوچ-راجبونگشی برادریوں کے لوگوں کے خلاف درج تمام مقدمات واپس لینے کے لیے ‘واضح’ ہدایات جاری کی ہیں۔ حکومت نے کہا کہ اس پر فوری عمل کیا جانا چاہیے۔’

اس سے قبل جولائی 2024 میں، آسام حکومت نے ریاستی سرحدی پولیس سے کہا تھا کہ وہ غیر مسلموں کے مقدمات کو غیر مسلموں کے ٹربیونلز کو نہ بھیجے جو 2014 سے پہلے غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔

شہریت کے معاملات کی تحقیقات کرنے والی سرحدی پولیس کو آسام کے محکمہ داخلہ نے اس وقت بتایا تھا کہ چھ برادریوں کے غیر دستاویزی تارکین وطن کو شہریت ترمیمی قانون کے پورٹل پر شہریت کے لیے درخواست دینے کے لیے ‘مشورہ’ دیا جانا چاہیے، اور ان کے مقدمات کا فیصلہ مرکزی حکومت کرے گی۔

شرما نے اس وقت کہا تھا کہ موجودہ مقدمات کو واپس نہیں لیا جائے گا۔

اسامیا راشٹروادی ‘غیر قانونی تارکین وطن’ کو، چاہے ان کا مذہب کچھ بھی ہو، ریاست کی ثقافت اور وسائل کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

سی اے اے کے خلاف 2019 اور 2020 میں آسام اور ملک کے بہت سے دوسرے حصوں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ تاہم، ترمیم شدہ قانون کا آسام کے بنگالی ہندوؤں نے خیر مقدم کیا تھا۔

مارچ 2024 میں وزیر اعلیٰ شرما نے کہا تھا کہ پانچ لاکھ بنگالی ہندو، دو لاکھ آسامی ہندو گروپ- کوچ-راجبونگشی، داس، کلیتا اور شرما (آسامی)، اور ڈیڑھ لاکھ گورکھوں کو شہریوں کے قومی رجسٹر سے باہر رکھا گیا ہے۔

چیف منسٹر نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ رجسٹر سے باہر کیے گئے 19 لاکھ لوگوں میں سات لاکھ مسلمان شامل ہیں۔

حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ آسام میں رجسٹر سے نکالے گئے ہندو ترمیم شدہ قانون کے تحت شہریت حاصل کر سکیں گے۔ اندیشہ ہے کہ ایسی مشق میں صرف مسلمان ہی اپنی شہریت کھو دیں گے۔

حکومت کے اس اقدام کی مخالفت

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) اور آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو) جیسی تنظیموں نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی ہے ۔

ان کا استدلال ہے کہ یہ 1971 کے آسام معاہدے کو نقصان پہنچاتا ہے، جس نے غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت اور ملک بدری کے لیے 24 مارچ 1985 کی آخری تاریخ مقرر کی تھی، چاہے ان کا مذہب کچھ بھی ہو۔

مقامی گروہوں نے خبردار کیا ہے کہ ان اصولوں میں نرمی سے آسام میں آبادیاتی تبدیلی میں تیزی آ سکتی ہے۔