کرناٹک کا واقعہ دل دہلا دینے والا ہے۔ کیا ہندو سماج نفرت میں اس قدر خودکش ہوچکا ہے کہ اپنے بچوں کی قربانی دینے کو تیار ہے اگر اس سے مسلمانوں کو اور ہراساں کرنے کا کوئی بہانہ ملتا ہو ؟

کرناٹک کا واقعہ دل دہلا دینے والا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے نے اسے نظر انداز کر دیا۔ (السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
کیا آپ اس کنویں میں زہر ڈال دیں گے، جس کا پانی آپ کے بچے پیتے ہیں کیونکہ اس کا الزام پڑوسی پر لگا کر اسے بدنام کیا جا سکتا ہے یا سزا دلوائی جا سکتی ہے؟ کیا اپنے بچوں سے محبت سے زیادہ قوی جذبہ پڑوسی سے نفرت کا ہے؟
یہ سوال پچھلے کئی دنوں سے پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے، کیونکہ کرناٹک کا وہ واقعہ رہ رہ کر یاد آرہا ہے، جس میں ایک ہندوتوا تنظیم رام سینا کے کارکنوں نے ایک اسکول کے پانی میں زہر ملوا دیا ۔ ان کا خیال تھا کہ اس کا الزام اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے سرجائے گا اور اسے سزا ہوگی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہیڈ ماسٹر مسلمان ہیں۔
کرناٹک کے بیلگاوی ضلع کے ہلی کتی گاؤں کے اسکول کی ٹنکی میں جہاں شری رام سینا کے لیڈر ساگر پاٹل اور اس کے دو ساتھیوں کو کیڑے مار دوا ملانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ پاٹل نے اپنے ساتھی کرشنا مادر کو یہ کہہ کر بلیک میل کیا کہ اس کو دوسری ذات کی عورت سےاس کے تعلقات کے بارے میں معلوم ہے اور وہ یہ بات گاؤں میں سب کو بتائے گا۔ اس سے ڈر کر مادر نے اپنے دوسرے دوست ماگن گوڑا پاٹل کے ساتھ مل کر کیڑے مار دوا خریدی۔ انہوں نے ایک اسکولی بچے کو چاکلیٹ اور 500 روپے دے کر اس کیڑے مار دوا کو ٹنکی میں ڈالنے کا لالچ دیا۔ بچوں نے پانی پیا اور انہیں کچھ عجیب سی بو محسوس ہوئی۔ کچھ بچے بیمار پڑ گئے۔ تفتیش پر ٹنکی کے قریب سے ایک بوتل ملی جس میں کیڑے مار دوا بچی ہوئی تھی۔ بچے نے بتایا کہ اسے یہ بوتل کس نے دی تھی اور اس نے اس سے کیا کرنے کو کہا تھا۔
شکر ہے کہ کوئی ہلاک نہیں ہوا۔ کیا اسے سازش کرنے والوں کے حق میں دلیل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے؟ کہ شاید ہندوتوایوں نے کیڑے مار ادویات کے اثرات کے بارے میں معلوم کرلیا ہوکہ اس سے موت نہیں ہوگی؟ لیکن اصل کام ہو جائے گا، یعنی ہیڈ ماسٹر کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور اسے کسی نہ کسی طرح سے سزا دلوائی جائے گی۔
مقصد بچوں کو مارنا نہیں تھا بلکہ ہیڈ ماسٹر کو بدنام کرنا تھا۔ ارادہ نیک تھا، خواہ اس پر عمل کرنے کا طریقہ کچھ غلط رہا ہو! مسلمان کو کسی نہ کسی طریقے سے ہراساں کرنے سے بڑھ کر ‘مذہبی’ کام کیا ہو سکتا ہے؟ اور کیا ہمارے صحیفوں میں بھگوان کرشن نے بھی اپنے دشمنوں کو شکست دینے کے لیے فریب کا سہارا نہیں لیا تھا؟
رام سینا کے ان کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ امید ہے کہ پولیس ان پر مقدمہ چلانے میں ثبوت جمع کرنے اور پیش کرنے میں مستعدی کا مظاہرہ کرے گی اور وہ مالیگاؤں میں دہشت گردانہ تشدد کے ملزمان کی طرح بچ نہیں پائیں گے۔ عام طور پر پولیس اور عدالتیں بھی ایسے معاملات میں کچھ نرمی کا مظاہرہ کرتی ہیں جن میں ملزمان ہندو ہوتے ہیں کیوں کہ کہیں نہ کہیں انہیں لگتا ہے کہ یہ غریب لوگ قوم کے لیے ہی یہ کام کر رہے تھے۔
فرض کیجیے، اگر اس کا بچوں پر زیادہ شدید اثر ہوتا اور دوا کی بوتل نہ ملتی اور نہ ہی وہ بچہ پکڑا جاتا جس نے دوا ڈالی تھی۔ پھر ہیڈ ماسٹر کا کیا حال ہوتا؟ تو کیا کرناٹک کے ایک دیہی اسکول کی یہ خبر قومی خبر بن گئی ہوتی؟ کیا ٹی وی چینل اور اخبارات دن بھر اس خبر کو چیخ چیخ کر نہیں سنا رہے ہوتے؟
ہندوتوا کے غنڈوں کا مقصد اسکول کے ہیڈ ماسٹر کو ہراساں کرنا تھا، لیکن اس خبرسے مسلمانوں کے بارے میں نفرت پھیلانے میں کتنی آسانی ہوتی؟ شکر ہے ایسا نہیں ہوا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ میڈیا نے ہندوتوا غنڈوں کے اس گھناؤنے فعل کو کیوں دبایا؟
اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے میڈیا کو ملک کے عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اور وہ محض مسلم دشمنی کا پروپیگنڈہ کرنے والے بن گئے ہیں۔ وہ لوگوں کو ہندوتوا تنظیموں کی حقیقت بتانا بھی نہیں چاہتے۔
اسی میڈیا نے کورونا وبا کے دوران ہفتوں تک دن رات ایک فرضی خبر نشر کی، جو سراسر جھوٹ تھی کہ تبلیغی جماعت کے لوگ ملک میں کورونا پھیلانے کی سازش کر رہے ہیں۔ ہم نے اس وقت تقریباً روزانہ مختلف میڈیا سے یہ خبریں بھی سنی تھیں کہ مسلمان سبزیوں، پھلوں اور کھانے پینے کی چیزوں پر تھوکتے ہیں۔ یہ سب جھوٹ تھا، لیکن اس بھیانک جرم کے لیے کسی پر مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ بالآخر اس جھوٹ کی وجہ سے ہزاروں مسلمانوں کی روزی روٹی متاثر ہوئی، کئی گرفتار ہوئے۔
عدالت میں ثابت ہوا کہ یہ سب جھوٹ تھا۔ عدالتوں نے مسلمانوں کو الزامات سے بری کر دیا۔ لیکن انہوں نے جھوٹ بول کر مسلمانوں کو پھنسانے کے جرم میں پولیس، حکومت ہند اور دہلی حکومت کے اہلکاروں اور ٹی وی چینلوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں۔ کیوں؟
ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف شک اور نفرت پھیلانے کے لیے جھوٹ کا استعمال جائز سمجھا جاتا ہے۔ یہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی نسلوں سے آزمودہ حکمت عملی ہے۔ کرناٹک کے اس واقعہ کے بارے میں پڑھتے ہوئے للت واچھانی کی فلم ’ مین ان دی ٹریز ‘ کی یاد آگئی ۔
اس فلم میں آر ایس ایس کے سینئر سویم سیوک دیس راج گوئل کا انٹرویو اور ان کے بہت بعد کی نسل کے ایک دوسرے سویم سیوک کا انٹرویو بھی شامل ہے۔
گوئل بتاتے ہیں کہ 1947-48 میں جب ہر طرف فسادات ہو رہے تھے، ان کا شہر موگا کچھ پرامن تھا۔ سنگھ کے لوگ ان پر تنقید کرنے لگے: آخر ان کے رہنے کا کیا فائدہ اگرمسلمان ان کے شہر میں چین سےہیں؟ پھر گوئل اور ان کے ساتھیوں نے مل کر پوسٹر بنائے جس میں لکھا تھا کہ رمضان کے مہینے میں کافروں کو مارنے سے ثواب ملتا ہے۔ یہ پوسٹر شہر کے مختلف مقامات پر لگائے گئے تھے۔ شہر بھر میں خوف وہراس پھیل گیا۔ ہندوؤں نے اسلحہ خریدنا شروع کر دیا۔ تشدد پھوٹ پڑا۔ اس تشدد میں گوئل صاحب کی گائے کی دیکھ بھال کرنے والے گاما مارا گیا۔ وہ مسلمان تھا۔ گوئل کو صدمہ ہوا، گویا وہ اس کے قتل کے لیے ذمہ دار ہوں۔
گوئل صاحب کے بعد کی نسل کے آر ایس ایس کے ایک سابق سویم سیوک نے بھی اپنی نوعمری کا ایک واقعہ سنایا۔ ان کی شاکھا میں شاکھا سنچالک کی ہدایت پر 13-14 سال کے بچوں نے ایسے خط لکھے جس سے یہ وہم پیدا ہوتا تھاکہ مسلمان ہی ایک دوسرے کو لکھ رہے ہیں۔ ان میں لکھا تھا کہ ہم نے اپنے گھر پر اتنا اسلحہ اور ہتھیار خرید رکھا ہے، تم کیا کر رہے ہو؟ فلاں فلاں تاریخ کو ہندوؤں کو ٹھکانے لگانا ہے۔ پھر اتفاق سے وہ خط کچھ بڑے بچوں کے ہاتھ لگےاور وہ گھر اور اسکول میں ان کے بارے میں بات کرتے تھے۔ اس سے خوف اور شک کا ماحول پیدا کرنے میں مدد ملی۔ کچھ والدین نے اپنے بچوں کو شاکھا میں بھیجنا بند کر دیا لیکن بہت سے لوگوں نے اپنے بچوں کو شاکھا میں داخل کرایا۔
یہ سوال بجا طور پر پوچھا گیا کہ اگر یہ خطوط پکڑے بھی جاتے تو یہ معلوم کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا کہ یہ کس شاکھا میں کس سےاور کس کی ہدایت پر لکھے گئے ہیں۔ ان سے ہندوؤں کے ذہنوں میں مسلمانوں کے بارے میں شکوک پیدا ہوئے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد بھی ہوتا۔ اس کا ذمہ دار کون ہوتا اور وہ کیسے پکڑا جاتا؟
کرناٹک میں ہی پچھلے دنوں میں ایسے معاملات سامنے آئے ہیں جن میں ہندوتوا کے حامی ‘پاکستان زندہ باد’ کے نعرے لگا رہے ہیں یا پاکستان کا پرچم لہرا رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے، یا پاکستان کا جھنڈا بھی وہی لگا سکتے ہیں۔ اس کا الزام ان پر لگاکر مقدمہ کروایا جا سکتا ہے۔ لیکن معلوم ہوا کہ یہ کام ہندوتوا کے حامیوں نے کیا تھا۔
جیسا کہ ہم نے کہا، رام سینا کے لوگ وہی کام کر رہے تھے جو آر ایس ایس کرتا رہا ہے۔ کیرالہ میں آر ایس ایس دہائیوں تک کام کرنے والے سدھیش منی نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ؛
میں بڑے جوش اور ولولے سے سنگھ کی سرگرمیوں میں مصروف تھا۔ اب میں مایوس ہوں…. سنگھ تحریک کے سفر میں جن [سویم سیوکوں] سے میری ملاقات ہوئی وہ ہوس کے بے لگام گھوڑوں کی طرح ہیں۔ وہ سارا دن سوتے ہیں اور اندھیرے میں شکاری جانوروں کی طرح شکار کی تلاش میں نکل آتے ہیں…. …سویم سیوک خود ہی تباہی کا باعث بنتے ہیں – مندروں کو سبز رنگ کر کے اور ایک مردہ گائے کو مندروں کے صحن میں پھینک کر۔ وہ مختلف قسم کے ہتھیار جمع کرتے ہیں…. ہر سویم سیوک شیطانی سرگرمیوں کے اتھاہ اور خطرناک پاتال کی طرف بڑھ رہا ہے۔
فیلکس پال اور نہا چودھری کے اس مضمون میں منی اور چار دیگر سابق سویم سیوکوں کی سوانح عمریوں کی مدد سے یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح آر ایس ایس جھوٹ کی مدد سے تشدد کو ہوا دیتا ہے۔ بہت سی جگہوں پر وہ خود تشدد کرتے ہیں تاکہ الزام مسلمانوں پر ڈالا جا سکے۔
مالیگاؤں تشدد کیس میں ہندوتوا کارکنوں کی رہائی کے حالیہ فیصلے میں عدالت نے لکھا کہ اس کی تحقیقات میں کافی لاپرواہی کی گئی ہے۔ اس کی تفصیلی جانچ میں ہندوتوا کارکنوں کے ملوث ہونے کے پختہ ثبوت ملے تھے لیکن بعد میں این آئی اے نے ان کے ملوث ہونے کے ثبوت کو کمزور کردیا۔
آر ایس ایس کے تین پرچارکوں کو 2007 کے اجمیر شریف بم دھماکے کے لیے مجرم ٹھہرایا گیا اور سزا سنائی گئی۔ عدالت نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ تفتیشی ایجنسی نے آر ایس ایس کے سینئر عہدیداروں جیسے پرگیہ ٹھاکر اور اندریش کمار کے کردار کی تحقیقات میں سستی کا مظاہرہ کیا۔
کرناٹک کا واقعہ دل دہلا دینے والا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے نے اسے نظر انداز کر دیا۔ تو کیا ہندو سماج نفرت میں اس قدر خودکش ہو چکا ہے کہ اپنے بچوں کی قربانی دینے کو تیار ہےاگر اس سےمسلمانوں کو اور ہراساں کرنے کا کوئی بہانہ مل سکے ؟
(اپورواننددہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)