این ڈی اے امیدوار سی پی رادھا کرشنن ہندوستان کے 15ویں نائب صدر منتخب ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپوزیشن کے بی سدرشن ریڈی کو 152 ووٹوں سے شکست دی۔ 752 ووٹوں میں سے رادھا کرشنن کو 452 اور ریڈی کو 300 ووٹ ملے۔ نتائج نے اپوزیشن خیمے میں کراس ووٹنگ کے اندیشے کو گہرا کر دیا ہے۔

سی پی رادھا کرشنن کو جیت پر مبارکباد نے دیتے ہوئےبی جے پی کے سینئر لیڈر اور مرکزی وزیر داخلہ نے کہا،’مجھے یقین ہے کہ ان کا دور پارلیامانی جمہوریت میں نئے معیارات قائم کرے گا اور سیاسی ڈسکورس کی سطح کو نئی بلندیوں تک لے جائے گا۔تصویر: ایکس / امت شاہ
نئی دہلی: این ڈی اے امیدوار سی پی رادھا کرشنن منگل کو ہندوستان کے 15ویں نائب صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار بی سدرشن ریڈی کو 152 ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ 67 سالہ رادھا کرشنن، جو اس وقت مہاراشٹر کے گورنر ہیں، کو 752 ووٹوں میں سے 452 ووٹ ملے۔ جن میں سے 15 ووٹ کالعدم قرار دیے گئے۔ ریڈی کو کل 300 ووٹ ملے۔
نائب صدر کے انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں کے اراکین پر مشتمل ہوتا ہے۔ دونوں ایوانوں کے ارکان کی کل منظور شدہ تعداد 788 ہے، جن میں سے چھ نشستیں راجیہ سبھا اور ایک لوک سبھا میں خالی ہے۔ یعنی پارلیامنٹ کے 781 ارکان پر مشتمل الیکٹورل کالج تشکیل دیا گیا۔ منگل کو ان میں سے 767 نے ووٹ ڈالے (98.2فیصدووٹنگ)، جن میں سے 752 ووٹ درست پائے گئے، یہ معلومات الیکشن کے لیےریٹرننگ افسر اور راجیہ سبھا کے سکریٹری جنرل پی سی مودی نے دی۔
چودہ ممبران نے ووٹنگ سے دوری بنالی تھی، جن میں بی جے ڈی کے 7، بی آر ایس کے 4، شرومنی اکالی دل کے 1 اور پنجاب کے 2 آزاد ممبران شامل تھے۔ ان سب نے پہلے ہی ووٹنگ سے دور رہنے یا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔
ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے نائب صدارتی انتخابات کی تاریخ میں یہ دوسرا سب سے کم مارجن والا الیکشن ہے۔ اس سے قبل 2002 میں این ڈی اے کے امیدوار بھیرو سنگھ شیخاوت نے اپوزیشن کےامیدوار سشیل کمار شندے کو 149 ووٹوں سے شکست دی تھی۔
فتح اور شکست کی مختلف تشریحات
رادھا کرشنن کی جیت یقینی مانی جا رہی تھی کیونکہ اکیلے این ڈی اے کے پاس 427 ووٹ تھے، جو اکثریت (377) سے زیادہ تھے۔ اس کے علاوہ اس کے امیدوار کو وائی ایس آر سی پی کی حمایت بھی حاصل ہوئی،جس کے 11 ارکان پارلیامنٹ ہیں۔ لیکن حتمی نتائج این ڈی اے کی توقعات سے بھی بہتر رہے۔ این ڈی اے نے اندازہ لگایا تھا کہ رادھا کرشنن کو تقریباً 440 ووٹ ملیں گے، لیکن یہ تعداد اس سے بھی زیادہ رہی۔
دوسری طرف کانگریس ہے جو اپنی شکست کی الگ طرح تشریح کر رہی ہے۔ پارٹی کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کے سربراہ جئے رام رمیش نے کہا، ‘نائب صدر کے انتخاب میں اپوزیشن متحد تھی۔ اس کی کارکردگی بلاشبہ انتہائی قابل احترام تھی۔ ہمارے مشترکہ امیدوار جسٹس (ریٹائرڈ) بی سدرشن ریڈی کو 40فیصد ووٹ ملے۔ 2022 کے انتخابات میں اپوزیشن کو صرف 26 فیصد ووٹ ملے تھے۔ بی جے پی کی یہ ریاضی جیت دراصل اخلاقی اور سیاسی شکست ہے۔ نظریاتی جنگ اب بھی اتنی ہی مضبوط ہے۔’
اپوزیشن کو جھٹکا کیوں لگا؟
انتخابات سے قبل اپوزیشن اتحاد کو 320 سے زائد ووٹ ملنے کی توقع تھی۔ اس کے بعد، جیسے ہی شام 5 بجے ووٹنگ ختم ہوئی، کانگریس لیڈر جئے رام رمیش نے اعتماد کے ساتھ کہا؛’اپوزیشن متحد ہے، اس کے تمام 315 ایم پی ووٹ ڈالنے کے لیے آئے۔ یہ 100 فیصد حاضری ہے، جس کی اب تک کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔’
تاہم، حتمی نتائج نے اشارہ کیا کہ حزب اختلاف کی صفوں میں کچھ کراس ووٹنگ ہوئی۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق ، جب اس بارے میں پوچھا گیا تو اپوزیشن کے ایک سینئر لیڈر نے کہا، ‘غلط ووٹوں کا مطلب کراس ووٹنگ نہیں ہے۔’ انہوں نے اشارہ کیا کہ جو 15 ووٹ غلط پائے گئے وہ سب اپوزیشن کے ارکان پارلیامنٹ کے تھے۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ان ووٹوں کا تعلق کس طرف سے ہے۔ بی جے پی کو اس کے کل ووٹوں (427+11 = 438) سے 14 زیادہ ووٹ ملے۔ جبکہ اپوزیشن اتحاد کو اپنی صلاحیت سے 15 ووٹ کم ملے۔ اس سے کراس ووٹنگ کا امکان پیدا ہوتا ہے۔
مختلف میڈیا رپورٹس میں بی جے پی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اپوزیشن کے کم از کم 15 ارکان نے این ڈی اے امیدوار کو ووٹ دیا۔ مرکزی وزیر پیوش گوئل نے ایک ٹی وی چینل کو بتایا کہ این ڈی اے کو اضافی 25 ووٹ ملے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ اپوزیشن لیڈروں نے رادھا کرشنن کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس میں وائی ایس آر کانگریس کے 11 ووٹ اور 14 اضافی ووٹ گن رہے تھے۔
اگرچہ اپوزیشن پارٹیاں کراس ووٹنگ کے امکان سے انکار کر رہی ہیں، لیکن سی پی آئی کے ایم پی پی سنتوش کمار نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ نتائج اور کراس ووٹنگ کا امکان اپوزیشن پارٹیوں کے اندر سنجیدگی سے غوروخوض کا مطالبہ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘پارٹیوں کو عوام کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے اور جو وہ کہتے ہیں وہی کرنا چاہیے۔ دونوں امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد عجیب ہے اور ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔’