جسٹس روپنوال کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ روہت نے خودکشی کا قدم یونیورسٹی انتظامیہ کے ذریعہ کی گئی کاروائی سے متاثر ہو کر نہیں بلکہ ذاتی وجوہات کی بنا پر اٹھایا تھا۔
حیدرآباد یونیورسٹی کے طالب علم روہت ویمولا کی خودکشی معاملے میں تشکیل دی گئی جسٹس روپنوال کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ روہت نے خودکشی کا قدم یونیورسٹی انتظامیہ کے ذریعہ کی گئی کاروائی سے متاثر ہو کر نہیں بلکہ ذاتی وجوہات کی بنا پر اٹھایا تھا. بالفاظ دیگر کمیٹی نے مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی، جو کہ اس وقت بہبود انسانی وسائل کی وزیر تھیں، اور وزیر محنت بنڈارو دتّاتریہ کو اس الزام سے بری کر دیا ہے کہ ان دونوں نے یونیورسٹی انتظامیہ پر روہت کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے دباؤ ڈالا تھا جو مبینہ طور پر روہت کی خود کشی کی وجہ بنا.
ٹائمس آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق جج اے. کے. روپنوال کی صدارت میں بنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ 15 اگست کو جاری کر دی تھی. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روہت ذاتی طور پر پہلے سے ہی ذہنی تناؤ کا شکار تھے. لہٰذا یونیورسٹی اور ہاسٹل سے برخواستگی کے فیصلوں کو ان کی خود کشی کے فیصلے سے نہیں جوڑا جا سکتا. رپورٹ میں روہت کے دلت ہونے پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے.
رپورٹ کے مطابق روہت کے تناؤ میں رہنے کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما تھے اس بارے میں ان کو ہی بہتر پتہ ہوگا۔ مگررپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ بچپن سے اکیلے رہے تھے اور زندگی میں کسی نے ان کا حوصلہ نہیں بڑھایا ۔ چنانچہ ان کی محرومیاں ان کی خودکشی کی وجہیں ہو سکتی ہیں. رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ روہت نے اپنے سائیڈ نوٹ میں بھی صاف طور پر کسی وجہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بی جے پی کی قانون ساز کونسل کے ممبر رام چندر راؤ، مرکزی وزراء بنڈارو دتّاتریہ اور اسمرتی ایرانی عوامی نمائندہ ہونے کے ناطے اپنے فرائض نبھا رہے تھے. انہوں نے ہرگز یونیورسٹی انتظامیہ کو طالب علموں کے خلاف کاروائی کے لئے کسی طرح کا دباؤ نہیں ڈالا. لہٰذا ان تینوں میں سے کسی کو بھی روہت کی خود کشی کے لئے ذمّہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا.
روہت کی خودکشی میں یونیورسٹی کے کردار کو لےکر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر روہت نے یونیورسٹی کے فیصلے سے ناراض ہوکر خودکشی کی ہوتی تو اپنے سائیڈ نوٹ میں اس کا ذکر کیا ہوتا. اس ذکر کا نہ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ خودکشی کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ زمہ دار نہیں۔
روہت اور اس کے دوستوں پر کی گئی کاروائی پر رپورٹ اس نتیجے پر پہنچی کہ ایگزیکٹو کونسل کے ذریعے لیا گیا فیصلہ اس وقت کے حساب سے مناسب تھا۔ کونسل کا کام صرف تعلیم پر توجہ دینا نہیں بلکہ طالب علموں کے تمام معاملات پر نظر رکھنا ہوتا ہے.
رپورٹ کے مطابق کونسل کے رویہ میں دکھائی گئی لچک یہ بتاتی ہے کہ وہ کسی کے دباؤ یا اثر میں آکر کام نہیں کر رہی تھی، ورنہ پروکٹوریل بورڈ کے ذریعے دی گئی سزا کو کم کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
دلت پہچان پر سوال
روہت ویمولا کی ذات کو لےکر رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان کا تعلق دلت برادری سے نہیں تھا۔ حالانکہ رپورٹ میں اس بات کا ذکر بھی ہے کہ یونیورسٹی میں عام طبقے کے طالب علموں اور پسماندہ طبقوں سے آنے والے طالب علموں کی شکایتوں کو سلجھانے کے لئے کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔
رپورٹ کے مطابق روہت ویملا کی ماں وڈیرا طبقے سے آتی ہیں،جو دیگر پسماندہ طبقے میں شامل ہے۔اس لئے روہت کو جاری کی گئی درج فہرست ذات کے شناختی کارڈ کو صحیح نہیں کہا جا سکتا۔ وہ درج فہرست ذات سے نہیں تھے لیکن کسی طرح سے ان کی ماں کو ملے درج فہرست ذات کے شناختی کارڈ کی بنا پر وہ اپنے آپ کو دلت بتاتے تھے۔
Categories: حقوق انسانی, خبریں