ادبستان

بھوپال : صرف ڈیڑھ گھنٹے کی تیز بارش میں تاریخی اقبال لائبریری تباہ

 ڈرامہ نگار رفیع شبیر کا کہنا ہے کہ ہزاروں کتابیں تباہ ہو گیئں۔ ‘کتابوں کے علاوہ مشہور زمانہ رسالہ کھلونا ، شمع سے لے کر آجکل جیسے رسالوں کی فایئلیں، سب بھیگ کر خراب ہو گیئیں، یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے ۔

IqbalLib_Bhopal

بھوپال : صرف ڈیڑھ گھنٹے کی تیز بارش  تھی جو بھوپال کی ادبی اور علمی دنیا پر سانحہ بن کر برس گئ۔سنیچر کی شام کو ہوئ اس بارش میں شہر کی مشہور اقبال لایئبریری میں اس قدر  پانی بھر گیا  کہ انگنت کتابیں تباہ ہو گیئں۔کتابوں کی الماریاں  آدھی پانی میں ڈوب گیئں اور جب پانی کسی طرح کم ہوا،   پتہ چلا کہ کتنا بڑا نقصان ہو چکا تھا۔لایئبریری   سڑک سے نیچے ایک بیسمینٹ نما  ہال میں ہے مگر پانی دروازے یا کھڑکیوں سے نہیں آیا بلکہ لایئبریری کے نیچے سے جانے والے ڈرینیج چیمبر ایکدم سے پھٹ پڑے اور ایک ریلا تھا جس میں سب کچھ تیرنے لگا۔ کتابیں ذرا سی دیر میں بھیگ کر اس حالت میں آ گیئں تھیں کہ لگدی بن چکی تھیں۔اس بیچ کتابوں کو اٹھا بچانے  کی کوشش کے باوجود ، بہت بڑا سرمایہ  تباہ ہو گیا،  لایبیریری کے اسٹاف ممبرس کیحالت بیان کے باہر تھی،  سب کے چہرے فق تھے۔بلدیہ کی بد انتطامی اور غیر ذمہ داری  پرافسوس اپنی جگہ، اس وقت سب سے بڑا سوال ہے کس طرح کتابوں کو بچایا جاۓ ۔بمشکل  ڈیڑھ گھنٹے کی بارش تھی مگر نقصان اتنا ہوا ہے کہ اندازہ لگانے میں بھی ابھی کئ روز لگ جایئنگے۔

ایک ایک کر الماریاں کھولنا اور لگدی بن چکی کتب کو نکال کر ان  کتابوں کا انتخاب  جو ایکسپرٹس کی مدد سے کسی طرح بچائ جا سکتی ہیں، یہ ایک لمبا عمل ہے۔ فی الحال کئ الماریوں میں کتابوں کا یہ  حال ہے کہ ہاتھ لگانے سے ہی صفحات الگ  ہو رہے ہیں۔لایئبریری کے منتظم رشید انجم کہتے ہیں کہ اب کوشش یہ ہے کہ لائیبریری کو ایسی جگہ منتقل کیا جاۓ جہاں مستقبل میں کتابیں محفوظ رہ سکیں۔ہزاروں کتابوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اقبال لاییبریری ایک غیر سرکاری ادارہ ہے، جہاں اسٹاف اپنی علم دوستی کی وجہ سے بیحد کم مشاہرہ پر  اور اکثر تو بلا معاوضہ ہی،   کام کرتے رہے۔ مرحوم عمر انصاری نے  تو خود کو اس لایئبریری کے لیئے وقف کر دیا  تھا۔

شام کے وقت یہاں کی رونق دیکھنے والی ہوتی ہے۔ ہندوستان بھر کے مشہور ادبی رسایل اس لایئبریری میں آتے ہیں۔  اقبال لایئبریری  جو 1939 میں قایئم ہوئ  اور آج  نہ صرف بھوپال  بلکہ وسطی ہندوستان کی سبسے بڑی لایئبریرییز میں سے ایک ہے- یہاں نادر و نایاب کتب کا ایک خزانہ ہے۔ریڈنگ روم فری ہے۔ مگر اس لاییبریری کے اپنے مسایل ہیں، بیحد قلیل گرانٹ ملتی ہے اور مستقل ممبران جو فیس دیتے  ہیں انکی تعداد بہت کم ہے۔علامہ اقبال سے موسوم یہ لایئبریری شیش محل کے سامنے  واقع ہے۔شیش محل وہ تاریخی عمارت ہے جہاں علامہ اقبال بھوپال آمد کے دوران رکے تھے۔ بھوپال ریاست کے آخری نواب حمید اللہ خان  نے اپنے دور حکومت میں علامہ اقبال کو انکی علالت کے زمانے میں یہاں قیام کی دعوت دی تھی۔

 تقریباً 80  ہزار کتابیں اس لایئبریری  میں ہیں جس میں سب سے زیادہ تعداد اردو کی کتابوں کی ہے۔پرانے رسایئل کی فایلیں بھی اس لایئبریری میں موجود ہیں۔ اردو کے علاوہ، عربی ،  فارسی، ہندی، انگریزی اور سنسکرت کی کتابیں   بھی یہاں موجود ہیں۔ ایک طرف ادبی کتب  ہیں تو دوسر طرف ابن صفی سے لے کار اکرم الہٰ آبادی اور اپنے دور کے تماممشہور پاپولر رایئٹرس کی ناولز یہاں موجود ہیں۔

 ڈرامہ نگار رفیع شبیر کا کہنا ہے کہ ہزاروں کتابیں تباہ ہو گیئں۔ ‘کتابوں کے علاوہ مشہور زمانہ رسالہ کھلونا ، شمع سے لے کر آجکل جیسے رسالوں کی فایئلیں، سب بھیگ کر خراب ہو گیئیں، یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے ۔یہ لایبریری طلبا کے لیئے بھی بڑی اہم ہے۔ مقابلہ جاتی امتحانات کی کتابیں بھی یہاں لگاتار خریدی جاتی ہیں۔