ائرپورٹ جاتےہوئےحج کا ایک قافلہ گریٹر نوئیڈا کی ایک مسجد کے سامنے رکا، مرد حضرات جمعہ کی نماز پڑھنے گئے مگر عورتیں باہر ٹہلتی رہیں کیونکہ مسجد میں ان کے لئے گنجائش نہیں تھی۔
اگلے چند دنوں میں مسلمان عید الاضحیٰ کا تہوار منائیں گے۔صبح صبح لوگ نماز پڑھنے عید گاہ یا اپنے علاقے کی کسی بڑی مسجد میں جائیں گے۔ عید کی نماز کے لئے حکم ہے کہ کسی صدر مقام پر پڑھی جائے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سال میں دو بار آپ جس شہر یا قصبہ میں رہ رہے ہیں وہاں کے لوگوں سے ملیں۔ پنج وقتہ نماز مسجد جاکر پڑھنے کا مقصد، فرض کی ادائیگی اور ثواب کے علاوہ، یہی ہے کہ آپ جہاں رہ رہے ہیں وہاں کے لوگوں سے آپ کا رابطہ رہے۔ جمعہ کی نماز کے لئے احسن طریقہ یہ ہے کہ کسی بڑی مسجد میں تین سے چار محلوں کے مسلمان جمع ہوں اور خطبہ پڑھا جائے جس میں دینی امور کے ساتھ ساتھ مقامی امور کا بھی ذکر ہو۔ حج کی ادائیگی کے پیچھے بھی جو فکر ہے وہ یہ کہ زندگی میں کم سے کم ایک بار آپ عالمی برادری سے ملیں۔
ان تمام فرائض کا اطلاق صرف مردوں پر نہیں ہوتا ہے بلکہ عورتیں بھی اس میں شامل ہیں۔ لیکن ہندوستان کی حد تک دیکھنے میں آیا ہے کہ عورتوں پر مساجد کے دروازے بند رہتے ہیں۔ جب ہم حج کرنے جاتے ہیں تو حرم شریف میں عورتیں ہمارے برابر میں کھڑی ہو کر باجماعت نمازیں ادا کرتی ہیں۔ مگر واپس آکر پھر سے مسجد ان کے لئے اجنبی جگہ ہو جاتی ہے۔ عید کے موقع پر یہ محرومی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ صبح صبح اٹھ کر وہ پکوان بناتی ہیں اور بچوں کو تیار کر کے عید گاہ بھیجتی ہیں مگر خود پرانے کپڑوں میں گھر پر رہتی ہیں۔ کوئی ان کی خوشی کے بارے میں نہیں سوچتا۔ انہیں مسجد چلنے کے لئے نہیں کہا جاتا جبکہ رسول الله کے زمانے میں عورتیں مسجدوں میں جایا کرتی تھیں۔ ایسی کئی حدیثیں موجود ہیں جن میں الله کے رسول نے عورتوں کے لئے عید کی نماز میں مسجد آنے کی تاکید کی ہے۔
دراصل یہ مسئلہ شریعت کا نہیں ہمارے رواج کا ہے جو زمانۂ قدیم سے برصغیر میں جاری ہے۔مگر اب زمانہ بدل گیا ہے۔ ہماری عورتیں گھروں سے باہر نکل رہی ہیں۔ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ نوکریاں کر رہی ہیں۔ اور یہ سب کام وہ دین سے وابستگی کے ساتھ کر رہی ہیں۔دینی معاملات کو وہ بھی اتنا ہی سمجھتی ہیں جتنا کہ ایک عام مسلمان مردبلکہ بعض حالات میں مردوں سے زیادہ کیونکہ اکثر دینی احکامات کا حوالہ دے کر ہی ان کی حق تلفی ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر آج کی مسلمان عورت کو آپ اس کا وہ حق جو الله نے اسے دے رکھا ہے نہیں دیں گے تو فساد پھیلے گا – گھر میں بھی اور باہر بھی۔ اس کا ایک تجربہ ذاتی طور پر مجھے اس رمضان میں ہوا جب چند عورتیں گریٹر نوئیڈا کی ایک مسجد میں تراویح پڑھنے پہنچ گئیں اور وہاٹس ایپ پر دیگر عورتوں کو مسجد پہنچنے کا میسج بھیجنے لگیں۔
ایسا ہی ایک میسج میری بیوی کے پاس بھی آیا۔ میں تھوڑا حیران ہوا کیونکہ رمضان شروع ہونے سے پہلے جمعہ کے خطبے میں تراویح کے سلسلے میں جو اعلان ہوا تھا اس میں اس کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ میں نے مسجد کے ایک ذمہ دار سے فون پر استفسار کیا تو انہوں نے لا علمی ظاہر کی۔ ان کا کہنا تھا کہ عورتوں کے لئے کوئی نظم نہیں کیا گیا ہے۔ جب مسجد پہنچا تو معلوم ہوا کہ ایک کمرے میں ان کو جگہ دے دی گئی ہے۔ تھوڑی دیر میں امام صاحب کو اعلان کرتے سنا کہ عورتیں تراویح کے لئے نہ آئیں۔ مگر اگلے دن پھر سے عورتیں آ دھمکیں اور میسیجز بھیجنا شروع کر دیا۔ امام صاحب نے پھر سے اعلان کیا۔ غالباً تیسرے دن تک ان عورتوں کو منا لیا گیا یا یہ کہئے کہ دبا لیا گیا۔ مگر کب تک؟ اور کیوں؟
میں پچھلے چھ سالوں سے گریٹر نوئیڈا میں رہ رہا ہوں جو کہ دہلی کے مضافات میں بسا ایک نیا شہر ہے۔ اوکھلا، جہاں جامعہ ملیہ واقع ہے، سے پچیس کیلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اوکھلا میں دو مسجدیں ایسی ہیں جہاں عورتوں کے لئے الگ سے جگہیں مقرر ہیں۔ میں عید کی نماز پڑھنے اپنے خاندان کے ساتھ اوکھلا جاتا ہوں کیونکہ گریٹر نوئیڈا کی چار مسجدوں اور ایک عید گاہ میں سے کسی میں بھی عورتوں کے لئے انتظام نہیں ہوتا ہے۔گریٹر نوئیڈا کی مسلم آبادی دو طرح کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ ایک وہ جو مقامی ہیں جن کا پیشہ کاشتکاری ہے یا کاروبار۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو تعلیم یافتہ ہے اور اچھی ملازمتوں میں ہے۔ یہ طبقہ بہار اور اتر پردیش کے مختلف علاقوں سے آکر یہاں بسا ہے۔
پچھلے چھ برسوں میں یہاں چار نئی مسجدیں بن کر تیار ہوئی ہیں (نالج پارک مسجد، بیگم پور مسجد، ایچهر مسجد اور کاسنہ مسجد)۔ اس کے علاوہ عید گاہ کے لئے بھی تیس بیگہ کا ایک پلاٹ خریدا گیا ہے جس پر پچھلے سال سے نماز ہو رہی ہے۔ چار مسجدوں میں کاسنہ مسجد سب سے بڑی ہے (رقبہ قریب تین بیگہ)۔ یہ مسجد عید گاہ مسجد کے نام سے بھی جانی جاتی ہے کیونکہ اس جگہ پر پہلے عید گاہ ہوا کرتی تھی۔اس مسجد کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ایک شاہ راہ جیسی سڑک پر واقع ہے جو بلند شہر اور سکندرہ جیسے شہروں کو دہلی سے جوڑتی ہے۔ جمعہ کی نماز میں یہاں مسافروں کی اچھی خاصی تعداد رہتی ہے۔ ان مسافروں کے ساتھ اکثر عورتیں بھی ہوتی ہیں مگر مسجد میں ان کے لئے کوئی انتظام نہیں ہے۔ چنانچہ مرد حضرات عورتوں اور بچوں کو گاڑیوں میں چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں۔ کسی کے لئے بھی بند گاڑی میں، خاص کر جب چلچلاتی دھوپ ہو، تو دیر تک بیٹھنا ممکن نہیں۔ لہٰذا عورتیں سایوں کی تلاش میں ادھر سے ادھر بھاگ رہی ہوتی ہیں۔ فرض کی یہ ادائیگی سمجھ سے بلا تر ہے۔ ساتھ ہی مسجد تک پہنچ کر کسی کو نماز پڑھنے سے باز رکھنے کی ادا بھی نرالی ہے۔
ابھی تین ہفتہ پہلے کی بات ہے۔ حج پر جا رہا ایک قافلہ بس کے ذریعہ ائرپورٹ جاتے ہوئے مسجد کے سامنے رکا۔مرد حضرات نماز پڑھنے اندر چلے گئے اور عورتیں سڑک پر گھومتی رہیں۔ نماز کے بعد میں نے مسجد کے ایک ذمہ دار سے استفسار کیا تو انہوں نے مسجد کی اصل عمارت سے الگ ایک کمرے کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ جگہ خواتین کے لئے ہے۔ مگر میں نے گراج نما اس کمرے کو کبھی کھلا ہوا نہیں دیکھا ۔ نہ پہلے نہ بعد میں۔ میں نے کہا پھر عورتیں یہاں آتی کیوں نہیں۔ ان کا جواب تھا ‘مرد حضرات لے کر نہیں آتے، میں کیا کروں’۔ میں نے کہا ممکن ہے مسافروں کو اس کا علم نہ ہو کیونکہ کوئی بورڈ تو لگا نہیں ہے۔ آپ امام صاحب سے اعلان کیوں نہیں کرواتے۔ بولے آپ ٹھیک کہتے ہیں، اگلے جمعہ سے کرواؤں گا۔تین ہفتے گزر چکے ہیں، اب تک اعلان سننے میں نہیں آیا ہے۔ جب عورتوں کو مسجد آنے سے روکنا تھا تو لگاتار اعلان ہوا۔ اب انہیں ایک سہولت کی اطلاع دینی ہے تو یہ ترجیح میں شامل نہیں۔ یہ ذکر تو صرف ایک مسجد کا ہے مگر ملک کی بیشتر مساجد کا حال اسی جیسا ہے۔ اس میں ریفارم لانے کی ضرورت ہے۔
Categories: فکر و نظر