حقوق انسانی

کیا ہادیہ کو انصاف مل پائیگا ؟

حقوق نسواں کے لیے جد و جہد کر نے والی کئی تنظیموں نے کل جنتر منتر پر پرزور مظاہرہ کیا اور احتجاج کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا ہے کہ جلد از جلد ہادیہ کو والدین کی حراست سے آزاد کیا جائے اور اس کو اپنی مرضی سے زندگی جینے کی آزادی دی جائے ۔

Hadiya

اکھیلا سے ہادیہ بنی 24سالہ خاتون کی شادی کوکورٹ سے خارج کیے جانے کے معاملے میں ایک بار پھر سے بحث چھڑ گئی ہے ۔ہادیہ اس وقت والدین کی حراست میں ہے ۔اس معاملے میں حقوق نسواں کے لیے جد و جہد کر نے والی کئی تنظیموں نے کل جنتر منتر پر پرزور مظاہرہ کیا اور احتجاج کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا ہے کہ جلد از جلد ہادیہ کو والدین کی حراست سے آزاد کیا جائے اور اس کو اپنی مرضی سے زندگی جینے کی آزادی دی جائے ۔

اکھیلا کے مذہب تبدیل کرنے اور مسلمان لڑکے سے شادی کرنے کے معاملہ کو لے کرسوشل میڈیا پر بھی لوگوں کے ردعمل سامنے آرہے ہیں  ۔ اس شادی کولوجہاد کے نام پر سازش بتاتے ہوئے سوشل میڈیا پر اس معاملے کی مذمت بھی کی جارہی  ہے ۔ انتہا پسند ہندو تنظیمیں پہلے سے ہی اس طرح کی شادی کو لو جہاد بتاتی رہی ہیں ۔اس معاملے میں خاص بات یہ ہےکہ انسداد دہشت گردی کے لیے کام کرنے والاادارہ این آئی اے اس کی تفتیش کررہا ہے۔واضح ہو کہ سپریم کورٹ نے این آئی کو حکم دیا تھا کہ وہ معاملے کی تفتیش کرے اور یہ پتا لگائے کہ اس شادی میں دہشت گردی کا کوئی پہلو تو شامل نہیں ہے۔ہندو شدت پسندتنظیموں کا  الزام ہے کہ داعش اور دوسری دہشت گرد تنظیموں  کی ایما پر ہندو لڑکیوں کومسلمان بنایا جاتا ہے اورشادی کی جاتی ہے۔اس سلسلے میں یہ دعویٰ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ مبینہ لو جہاد کو غیرممالک سے فنڈنگ کی جاتی ہے۔ حالاں کہ وزارت داخلہ کی رپورٹ نے ابھی تک اس طرح کے کسی معاملے کی تصدیق نہیں کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق کچھ مہینے پہلے کیرالامیں شفیع جہاں نامی  شخص نے اکھیلا نام کی ہندو لڑکی سے شادی کی تھی ،اکھیلا نےاپنی مرضی سے اسلام قبول کیا تھااور اپنا نام ہادیہ رکھاتھا۔ اس کے بعد ہادیہ کے والد نے کیرالا ہائی کورٹ میں پٹیشن فائل کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ان کی بیٹی کو مسلم انتہا پسندوں نےاپنے جال میں پھنسا یا ہے۔ دوسری طرف ہادیہ نے عدالت میں یہ بیان دیا تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔لیکن عدالت نے شفیع اور ہادیہ کی شادی یہ کہتے ہوئے رد کر دی تھی کہ شادی کسی بھی لڑکی کی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ ہوتا ہے اس لیے اس فیصلے میں والدین کا شامل ہونا ضروری ہے ۔عدالت کا یہ فیصلہ مئی میں آیا تھا۔

اس کے  بعد سے ہی ہادیہ اپنے گھر میں والدین کی حراست میں ہے۔اس سلسلے میں شفیع جہاں نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی۔لیکن معاملے میں سپریم کورٹ نےمداخلت کرتے ہوئے  ہادیہ کی آزادی کو لے کر کوئی فیصلہ نہیں سنایا بلکہ این آئی اے کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے میں لو جہاد اور دہشت گردی کے زاویے سے تفتیش کرے۔اس معاملے میں سوشل میڈیا پر جاری بحث میں کہا جارہا ہے کہ این آئی اے سے کسی کی شادی میں دہشت گردی کے نظریے سے تفتیش کرانے سے اچھا تھا کہ عدالت ہادیہ کو غیرقانونی نظربندی سے آزاد کرنے کا حکم دیتی اور براہ راست اس سے  پوچھ گچھ کرتی ۔ اس معاملے کو لے کر دی وائر کے ساتھ بات کرتے ہوئے لوگوں نے ہادیہ کو والدین کی قید میں رکھے جانے کی مذمت کی ہے ۔

سماجی کارکن کویتا کرشنن کا کہنا ہے کہ ہندوستانی روایت کا حوالہ دے کر عدالت کا یہ کہنا کہ  جب تک کسی لڑکی کی “پروپر” شادی نہ ہوجائے وہ اپنے والدین کی حراست میں ہوتی ہے ۔عدالت کی طرف سے اس طرح کی نگرانی اور حراست کو جائز قرار دینا ہے ۔یہ ایک خطرناک سوچ ہے ۔کیوں والدین کو حق دیا جارہا ہے ۔یہ غیر آئینی ہے ۔کسی کا مذہب تبدیل کرنا اپنی مرضی سے شادی کرنا آئین کے لحاظ سے ٹھیک ہے ۔لیکن کورٹ کو عورتوں کی آزادی پسند نہیں آرہی ۔بالغ عورتیں فیصلہ لے سکتی ہیں ۔سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے میں ڈھنگ سے مداخلت نہیں کی۔ہادیہ کو اس کے والدین  کی حراست سے فوراً رہا کیا جانا چاہیے ۔عجیب بات یہ بھی ہے کہ کورٹ اس کو لڑکی مان رہی ہےعورت نہیں ۔

HadiyaProtest

سپریم کورٹ میں وکیل پیولی سواتیجہ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ صرف ایک لڑکی اوراس کے خاندان سے متعلق نہیں ہے ۔یہ وقت ہر عورت کے بیدار ہوجانے کاہے ۔ہادیہ ہندوستان کی بالغ اور معزز شہری ہے ۔آئین نے اس کو بھی بنیادی حقوق دیے ہوئے ہیں ۔اس لیے کوئی بھی اس کے ساتھ غلط نہیں کر سکتا۔عدالت اپنے فیصلے میں جس طرح سے بات کر رہی ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس فیصلے میں عورت کو کمزور کہا جارہا ہے ۔عدالت ہمیں بتارہی ہے کہ عورت کے لیے سب سے بڑی بات اس کی شادی ہوتی ہے ۔جس میں  والدین  کا شامل ہونا ضروری ہے ۔عورتیں صدیوں سے غلام رہی ہیں اس غلامی سے نکلنے کی صورتیں عدالت کو پسند نہیں ہے ۔عدالت بتا رہی ہے کہ کسی عورت کی زندگی کی سب سے بڑی بات کیا ہوگی ۔

کیرالا ہائی کورٹ نے پہلے بھی باقاعدہ کئی معاملوں میں لوجہاد جیسے لفظ کو استعمال کیا ہے اور لڑکی کی اپنی  مرضی کی شادی کو غلط قرار دیا ہے ۔عجیب بات یہ ہے کہ ان باتوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا۔ہادیہ کے معاملے میں عدالتوں کا رویہ افسوس ناک ہے اور  کہیں نہ کہیں بالغ عورت کی خودمختاریت پر یہ حملہ ہے۔پہلے کورٹ اس کے حلف نامہ کو مان چکی تھی  بعد میں کورٹ نے ہادیہ کے اسی حلف نامہ کو نظر انداز کردیا ۔سپریم کورٹ کو لڑکی کو سننا چاہیے ۔یہ فیصلہ آئین کی خلاف ورزی ہے اورقانون کی غلط انداز میں تشریح ہے ۔

خواتین اور Queerکے حقوق کےلیے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں فعال تنظیم دھنک نے  اس معاملے میں ہادیہ اور شفیع جہاں کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا ہے ۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ ہادیہ کو تمام قانونی اور آئینی اختیارات حاصل ہیں ٗلیکن یہاں جس طرح سے قانونی اختیارات کو قبول کیا گیا ہے وہ غلط ہے ۔اگر یہ صحیح معنوں میں قانونی سوال تھا تو ہادیہ اور شفیع کا معاملہ قانونی دائرے میں ہی تھا ۔لیکن جب یہ عورت کا سوال بنتا ہے تو پھر برہمنواد نے جو کچھ عورتوں کے لیے طے کیا ہوا ہے اسی کے حساب سے طے ہوتا ہے اور اسلام کی مذمت کی جاتی ہے ۔اس لیے مسلمان مرد کا اپنی مرضی سے شادی کرنا کچھ اور ہوجاتا ہے اور تمام قانونی اختیارات بالائے طاق رکھ دیے جاتے ہیں ۔

لکھنؤمیں قانونی معاملوں کے جانکار اور سماجی کارکن معراج احمد کا کہنا  کہ ہادیہ کیس ذاتی آزادی کے ارتقا کی تاریخ میں بالخصوص عورتوں کے تناظر  میں ہماری بدقسمتی ہے ۔ اس کیس کا سب سے خراب پہلو یہ ہے کہ اس میں ہادیہ کہیں نہیں ہے ۔ہادیہ میڈیکل سائنس کی طالبہ ہے ،بالغ ہے اور ہندوستانی دستور اس کو اپنا فیصلہ لینے کی آزادی دیتا ہے ۔لیکن اس پورے معاملے میں اکھیلا بھارتیہ سنسکاروں والی ایک عورت محض ہے ،یوں کہیں تو وہ ان مبینہ سنسکاروں کی بلی چڑھ گئی ہے۔ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک ایسا لگ رہا ہے کہ اس کی آواز دبا دی گئی ہے ۔ جہاں تک اکھیلا یعنی ہادیہ کے والدین کا سوال ہے تو ہادیہ اپنی شادی کو بنائے رکھتے ہوئے بھی اپنے فرائض کو پورا کر سکتی ہے ۔لیکن اس میں بھی اس کی اپنی آزادی اور ترجیحات ہو سکتی ہیں۔ اس معاملے میں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ دائیں بازوں کی طاقتیں اپنی گڑھی ہوئی کہانیوں کو کو سچ ثابت کر نا چاہتی ہیں ۔ حالاں کہ اس معاملے کے دوسرے پیروکاروں کو بھی اس کو مذہب نہیں بلکہ آئین کے نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے ۔عدالت عالیہ کو بھی میڈیا ٹرائل اور لو جہاد جیسے پروپیگنڈہ سے اس کیس کو بچانا چاہیے اور اس کے لیے ذاتی آزادی کو ہی بنیاد بنایا جاسکتا ہے ۔

ادھر جامعہ  ٹیچرس سالڈیریٹی ایسوسی ایشن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہادیہ کیس صرف پدریت کی نفی اور اپنی مرضی سے شوہر کے انتخاب کا معاملہ نہیں ہے ۔یہ ایک خاص معاشرے پر انگلی اٹھانا اور اس کو مجرم قرار دینا بھی ہے  ۔اس معاملے میں  قانون بذات خود اسلامی قدروں کو دہشت گردی کے نظریے سے دیکھ رہا ہے ۔ہمیں اس پر حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور اس کے لیے انسداد دہشت گردی کے معاملوں میں تفتیش کرنے والی ایجنسی کو منتخب کیا گیا۔

یوتھ فورم فار ڈسکشن اینڈ ویلفیئر اکٹیویٹیز (وائی ایف ڈی اے)کی کنوینر ہبہ احمد کا کہنا ہے کہ ہادیہ معاملہ اصل میں جمہوریت میں بے جا طور پر دخل اندازی اور جمہوری قدروں پر پابندی کا معاملہ ہے ۔آئین کے مطابق اس کو اپنی مرضی سے شادی کا حق حاصل ہے ۔لیکن اس کے معاملے میں اس کا خیال نہیں رکھا گیا ہے ۔ہادیہ معاملہ سماج ،معاشرے اور ریاست کی طرف سے پدری جبر کی ایک مثال ہے۔ظاہر ہے اس معاملے میں مسلمانوں کے خلاف ایک تعصب بھی ہے ۔

ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کیا ہادیہ کو انصاف مل پائیگا  ؟