‘رپورٹ دیکھکر لگتا ہے کہ اس کو کسی جج نے نہیں بلکہ پولیس افسر نے تیار کیا ہے۔ تمام ان سلجھے سوالوں کو کنارے کرتے ہوئے مدھیہ پردیش پولیس کو بچانے کا کام کیا گیا ہے۔‘
بھوپال :‘دفاع کے لیےجوابی فائرنگ میں ملزم مارے گئے۔’مبینہ انکاؤنٹر کہیں بھی ہو،اس کو صحیح بتانے کے لئے پولیس عام طور پر اسی طرح کا بیان جاری کرتی ہے۔واضح ہو کہ بھوپال میں31اکتوبر 2016 کی صبح سیمی کے آٹھ زیر سماعت قیدیوں کے مبینہ مبینہ انکاؤنٹر کے بعد درج ایف آئی آر میں مدھیہ پردیش پولیس نے بھی اپنے بچاؤ میں یہی بیان درج کروایا تھا۔
مگرمبینہ انکاؤنٹر کے فوراً بعد لیک ہوئی تصویروں اورآڈیوویڈیو کلپ سے مدھیہ پردیش پولیس کی کارروائی پر انگلی اٹھائی جانے لگی ہے۔ دباؤ بڑھنے پر صوبے کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے مبینہ انکاؤنٹر کی جانچ سی آئی ڈی کو سونپ دی اور نومبر کے پہلے ہفتے میں ایک عدالتی تفتیش کا بھی اعلان کر دیا۔
یہ عدالتی تفتیش ریٹائر جج ایس کے پانڈےکو سونپی گئی،جنہوں نے اپنی رپورٹ ریاست کےوزارت داخلہ کو سونپ دی ہے۔ جج ایس کے پانڈے نے مبینہ انکاؤنٹر کرنے والی ٹیم کے دعوے ‘اپنے دفاع میں کی گئی کاروائی ‘پر مہر لگا دی ہے۔غورطلب ہے کہ انہوں نے سیمی کے آٹھ زیر سماعت قیدیوں کے مبینہ انکاؤنٹر کو صحیح مانا ہے۔
مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان 2005 سے وزیراعلیٰ کی کرسی پر فائز ہیں۔ ان کے انتظامی امورپر نظر رکھنے والے اس عدالتی تفتیشی رپورٹ سے حیران نہیں ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ریٹائر جج ایس کے پانڈے کی رپورٹ وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی امیدوں پر کھری اتری ہے۔
مبینہ انکاؤنٹر پر شیوراج سنگھ چوہان سوالوں سے گھرے تھے۔ قومی انسانی حقوق کمیشن نے ریاستی حکومت سے رپورٹ طلب کر لی تھی اور اس مبینہ انکاؤنٹر کی جانچ این آئی اے کو سونپے جانے کا دباؤ بڑھ رہا تھا۔ چوہان نہیں چاہتے تھے کہ مبینہ انکاؤنٹر میں مرکزی ایجنسی دخل دے، لہذا آناً فاناً میں انہوں نے اس کی جانچ سی بی سی آئی ڈی کو سونپ دی اور ایک عدالتی کمیشن کی تشکیل کا اعلان کرکے خود کو اس مشکل سے باہر نکال لیا۔
کمیشن کی رپورٹ دیکھنے والے ایک صحافی نےاس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا’رپورٹ دیکھکر لگتا ہے کہ اس کو کسی جج نے نہیں بلکہ پولیس افسر نے تیار کیا ہے۔ تمام ان سلجھے سوالوں کو کنارے کرتے ہوئے مدھیہ پردیش پولیس کو بچانے کا کام کیا گیا ہے۔’صحافی نے یہ بھی کہا کہ اس رپورٹ میں مدھیہ پردیش پولیس اور جیل محکمےکے لئے اصلاح سےمتعلق سفارشوں کی بھرمار ہے۔یہ کسی مبینہ انکاؤنٹر کی جانچ کم ایک سفارشی خط زیادہ لگتا ہے۔
سیمی کے ملزموں پر لمبے وقت سے رپورٹ کر رہےبھوپال کے ایک کرائم وپورٹرنے کہا’چوہان کوحکومت کرتے ہوئے لمبا وقت ہو گیا ہے۔ ریاست میں اب ایسے افسر نہیں ہیں جو حکومت کے خلاف جاکر کوئی رپورٹ تیار کریں۔ ‘انہوں نے مزید کہاکہ’سی آئی ڈی جانچ کا بھی کوئی مطلب نہیں ہے۔مبینہ انکاؤنٹر پر لیپاپوتی کرنے کے لئے جانچ، ایک ایجنسی کو تھما دی گئی ہے۔’
دہشت گردی کے معاملوں کی نگرانی کر رہی حقوق انسانی کی تنظیم کوئیل فاؤنڈیشن اس متنازع مبینہ انکاؤنٹر پر نظر بنائے ہوئے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر اس تنظیم سے وابستہ فواز شاہین کہتے ہیں’حال ہی میں اس مبینہ انکاؤنٹر کے لےکر متاثر ہ خاندان نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دی تھی۔تب مدھیہ پردیش حکومت نے جانچ کا حوالہ دےکر سپریم کورٹ میں اپنا بچاؤ کی تھا۔ دیکھنا ہوگا کہ جانچ رپورٹ آنے کے بعد سپریم کورٹ کا رخ متاثرین کی عرضی پر کیا ہوتا ہے۔
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد بھی اس مبینہ انکاؤنٹر سے جڑے سوال اپنی جگہ قائم ہیں۔ تمام زیر سماعت قیدیوں کی پی ایم رپورٹ بتاتی ہے کہ پولیس کی گولی ان کے دائیں بائیں سینہ، سر اور کلائی میں لگی۔مگر گولیوں کے زخم بتاتے ہیں کہ ان کو گولی AK-47 یا انساس رائفل سے نہیں بلکہ پسٹل سے قریب سے ماری گئی۔سوال یہی ہے کہ گولی قریب سے مارے جانے پ سینے اور سر میں ہی کیوں لگی؟
واضح ہو کہ یہ مبینہ انکاؤنٹر بھوپال سے سٹے گنگاں تھانہ سے 22 کلومٹر دور ایک پہاڑی منی کھیڑی پر ہوا تھا۔ مبینہ انکاؤنٹر کے بعد گنگاں تھانے میں کرائم برانچ کے ڈپٹی ایس پی دھیان سنگھ چوہان کی تحریر پر مقدمہ درج ہوا۔
ایف آئی آر میں ایک جگہ چوہان کہتے ہیں’مصدقہ ذرائع سے اطلاع حاصل ہوئی ہے کہ 08 مشکوک کھیجڑا نالا کی طرف سے دیکھے گئے ہیں جوکہ منی کھیڑی کوٹ پٹھار کی طرف لکتےچھپتے بھاگ رہے ہیں۔۔۔۔’
‘ پھر منی کھیڑی پٹھار پر پولیس کی ایک ٹیم کو تین اور دوسری ٹیم کو پانچ مشتبہ دکھائی دیے۔ پولیس کی دونوں ٹیموں نے ان کو سرینڈر کرنے کو کہا تو انہوں نے ایس ٹی ایف ٹیم پر دھاردار ہتھیار سے خطرناک چوٹیں پہنچائیں۔ پھر انہوں نے جان سے مارنے کے ارادےسے پولیس پر فائرنگ شروع کر دی۔’
ایف آئی آر میں آگے لکھا ہے’پولیس پارٹیوں کے ذریعے خود کی جان کی حفاظت اور عوام کی جان کی حفاظت کے لئے اپنی جان جوکھم میں ڈالکر ہمت اور بہادری سے جوابی فائر کئےگئے۔ فائرنگ بند ہونے کے آدھے گھنٹے بعد بدمعاشوں کودوبارہ للکارا گیا، لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔اس پر تمام پولیس پارٹیوں نے موقع پر جاکر جانچ کے دوران پایا کہ پٹھار پر آٹھ مشتبہ مردہ حالت میں ملے۔’
مگر اس مبینہ انکاؤنٹر کے کچھ ویڈیو کلپ میں صاف دکھ رہا ہے کہ سیمی کے زیر سماعت قیدی پتھروں پر پڑے ہوئے ہیں اور پولیس ٹیم کا ایک جوان ان کو وہیں کھڑے ہوکر گولی مار رہا ہے۔ اس طرح کے کئی تضاد پولیس کے بیانوں اور مبینہ انکاؤنٹر کے بعد سامنے آئے ثبوتوں سے صاف ہیں ،لیکن 15سال کی حکومت کے بعد ‘شیوراج ‘ میں کسی بھی ہائی پروفائل معاملے میں انصاف پانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
Categories: حقوق انسانی, گراؤنڈ رپورٹ