فکر و نظر

بلیٹ ٹرین کے مفت ہونے کا دعویٰ جھوٹا ہے

اگر 50برسوں  کے حساب سے دیکھا جائے، تو افراط زر میں فرق کے حساب سے جاپان کو اداکی جانے والی رقم کہیں زیادہ بڑی ہوگی۔

Narendra-Modi-Shinzo-Abe

وزیر اعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا ہے کہ جاپان کی مدد سے بنائی جانے والی بلیٹ ٹرین پر ایک طرح سے کوئی خرچ نہیں آئے‌گا۔ جاپان اس پروجیکٹ کے لئے 0.1 فیصد کی شرح سے 88000 کروڑ روپے کے برابر کی اپنی کرنسی(yen) میں قرض دستیاب کرا رہا ہے، جس کو 50 سال میں ادا کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم اس قرض کو جاپان کی طرف سے مفت میں ملا ہوا بتا رہے ہیں۔ یہ دعویٰ پوری طرح سے جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔

ہندوستان ان شرطوں پر جاپان سے چاہے جتنی تعداد میں بلیٹ ٹرین حاصل کر سکتا ہے، لیکن کسی کو اس بات کا جھانسا نہیں دیا جانا چاہئے کہ یہ ٹرین مفت میں مل رہی ہیں۔ پہلی بات، ہندوستان کو 50 سالوں میں88000 کروڑ سے کہیں زیادہ چکانا پڑ سکتا ہے، کیونکہ طویل مدت میں ہندوستانی روپے کی قیمت میں جاپانی کرنسی کے مقابلے میں گراوٹ ہونے کا کافی امکان ہے۔

ایسا کیوں ہے؟ اگر آسان لفظوں میں کہا جائے، تو اس کا سبب یہ ہے کہ دونوں ملک کی کرنسیوں کی لین دین شرح (ایکس چنج ریٹ) کا تعین ان کی افراط زر کے فرق کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

اگر ہندوستان کی افراط زر کی شرح اگلی دو دہائیوں میں اوسطاً 3 فیصدرہتی ہے اور جاپان کی افراط زر شرح صفر پر رہتی ہے، جس کاقوی امکان ہے، تو اس کا معنی یہ ہوا کہ روپے میں ہرسال 3فیصدکی کمی ہوگی، کیونکہ یین کی قیمت میں کوئی کمی نہیں آنے کی وجہ سے ہندوستانی روپے کی قیمت میں ہرسال 3 فیصدکی گراوٹ آئے‌گی۔

یعنی اگلی دو دہائیوں میں ہندوستانی روپے کا 60فیصدسے زیادہ کمزور ہو جانا طے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 20برسوں کے بعد88000 کروڑ کے قرض کے بدلے ادا کی  جانے والی رقم بڑھ‌کر150000کروڑ سے زیادہ ہو جائے‌گی۔

اگر 50 سالوں کے حساب سے دیکھا جائے، تو افراط زر میں فرق کے حساب سے جاپان کو ادا کی  جانے والی رقم کہیں زیادہ بڑی ہوگی۔ ہندوستان اور جاپان کے درمیان افراط زر کے فرق کا بنا رہنا لازمی ہے، کیونکہ ہندوستان ایک بڑھتی ہوئی معیشت ہے، جہاں غریبوں کی ایک بڑی آبادی ہے اور جو اگلی کچھ دہائیوں میں درمیانی یا بڑی آمدنی والے ملک کے زمرے میں آنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ اس لئے اگلے 50 سالوں میں روپے کے حساب سے قرض کی ادائیگی کے طور پر ہندوستان کو بہت بڑی رقم چکانی پڑے‌گی۔

اگر ایسا ہے، تو ہم آنے والی نسلوں کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں، جن کے سر پر قرض کا بڑا بوجھ پڑنے والا ہے۔ قومی قرض کی ادائیگی کے معاملے میں دو پشتوں کےبیچ برابری ہونی چاہئے، بھلےہی یہ 0.1 فیصد سودکی  شرح پر یین میں لیا گیاقرض ہی کیوں نہ ہو!

اس لئے مودی کو یین میں لئے گئے 50 سال کے قرض کو ‘ ایک طرح سے مفت ‘ قرار دیتے وقت احتیاط برتنی چاہئے۔ مجھے یاد ہے کہ ہندوستان کے کچھ کارپوریٹ گھرانوں نے دو دہائی پہلے 50 سالہ ڈالر بانڈوں کے سہارے بین الاقوامی قرض حاصل کرنے کو لےکر کچھ ایسے ہی جوش اورولولہ کا مظاہرہ کیا تھا۔

اس وقت بھی ان کی یہی دلیل تھی کہ اس رقم کو طویل وقت تک چکانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن بعد میں 15 سال بعد، جب ڈالر کے مقابلے روپیہ 50 فیصد تک کمزور ہوا، تب انہی تجارتی گھرانوں کو سوجھ بوجھ آئی اور انہوں نے اس قرض کے بڑے حصے کو وقت سے پہلے ہی چکا دیا۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ وہ آنے والی نسلوں کو ایسے جوکھم بھرے قرض کے بھنور میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ یہ دلیل آج بھی اتنی ہی صحیح ہے۔

یہ قرض ایک چھوٹے سے روٹ پر بلیٹ ریل ٹرین کی تعمیر کے لئے لیا گیا ہے۔  اندازوں کے مطابق جاپانیوں کے ذریعے جنوبی ہندوستان، شمالی ہندوستان، اور مشرقی ہندوستان میں دیگر شہروں کو آپس میں جوڑنے کے لئے ایسی تین اور پروجیکٹس کی فنڈنگ کی جا سکتی ہے۔

ویڈیو : بلیٹ ٹرین،جی ایس ٹی کے ہندوستانی معیشت پر اثرات

گر ایسا ہوتا ہے تو اس سے ہمارے اوپر غیر ملکی قرض کا کتنا بڑا بوجھ پڑے‌گا، اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔آخر لوٹائے جانے والے ہر قرض کے ساتھ ایکس چنج ریٹ  کا جوکھم ہوگا۔ اس بات کو دھیان میں رکھنا چاہیےکہ آج کی بڑی عالمی کرنسیوں میں یین سب سے غیرمستحکم ہے۔

ایک اور بات کی طرف دھیان دیا جانا چاہیے۔ بھلےہی 0.1فیصدکی سود شرح ہندوستانی نظریے سے بےحد معمولی نظر آئے، لیکن جاپان میں ایسا نہیں ہے۔ جاپانی شارٹ ٹرم انٹریسٹ ریٹ- ٹوکیو انٹر بینک آفر ریٹ 0.06 فیصدہے۔

جاپانی حکومت کے 10 سال کے بانڈ پر 0.04 فیصدکی شرح سے سود دیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں دس سال کے سرکاری بانڈ پر 6.5 فیصدکی در سے سود دیا جاتا ہے۔

جاپان کے 0.04 فیصداور ہندوستان کے 6.5 فیصدکے درمیان فرق ہونے کی وجہ  دونوں ملک میں افراط زر کی پیش گوئی میں فرق کا ہونا ہے۔اس زاویےکو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے جاپان کو روپے میں جو پیسہ واپس کیا جائے‌گا، وہ لئے گئے قرض سے کہیں زیادہ ہوگا۔ یہ بات نہیں بھلائی جانی چاہئے کہ دنیا میں کوئی بھی چیز مفت نہیں ملتی، اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔

آخری بات، جس پر دھیان دیا جانا ضروری ہے،صرف احمد آباد سے ممبئی کے چھوٹے حصہ پر بلیٹ ٹرین چلانے کے پروجیکٹ کی قیمت110000کروڑ روپے آئے‌گی۔

اب اس رقم کا مقابلہ سابق ریلوے وزیر سریش پربھو کے پہلے بجٹ سے کیجئے، جس میں پورے ملک میں نیٹ ورک کی توسیع پر پانچ سالوں میں اتناہی خرچ آنے کی بات کی گئی تھی،اور ریلوے تحفظ کو مضبوط کرنے کے لئے بھی پانچ سال میں اتناہی رقم خرچ ہوتا۔

اگر آپ کے پاس ان میں سے انتخاب کا اختیار ہوتا، تو آپ کس کو منتخب کرتے؟ آخر ہندوستان جیسے غریب ملک میں خرچ کے لیے ترجیحات ہونی ہی  چاہئے۔