“وہ سوچ رہا تھا ادیب کے گھر میں بھی مٹی کے چولہے ہیں ۔اگر اس کے گھر چولہے میں آگ نہ جلے تو پیٹ کی آگ کیسے بجھے گی اور جب پیٹ میں آگ دہک رہی ہو تو ادیب کہانی کیوں کر لکھے گا۔اگر ادب کو زندہ رکھنا ہے تو ادیب کو زندہ رکھنا بھی ضروری ہے۔ادیب مرجائیں گے تو ادب بھی مر جائے گااور ہندوستان مردہ پرست ہی ہے۔جب ہم مر جائیں گے تو لوگ کہیں گے بیچارہ مرگیا بہت بڑا ادیب تھا۔”
یہ اس ادیب اور دانشور کے افسانے کا اقتباس ہے ،جن کو زندگی بھر اپنے گھر میں روشنی نہیں ملی۔انہوں نے تمام کتابیں لالٹین کی روشنی میں تصنیف کیں ،اور اپنے ادب میں کسانوں کے استحصال کےخلاف صدائے احتجاج بلند کی ۔ادب ان کے لیے سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کا ہی نام تھا ۔اس ادیب اور دانشور کو دنیا شانتی رنجن بھٹا چاریہ کے نام سے جانتی ہے۔
ان کی مادری زبان بنگلہ تھی ۔لیکن وہ اُردو میں ایک بڑے محقق اور مترجم کے طور پرمشہور ہوئے ۔شانتی رنجن بھٹا چاریہ 24ستمبر 1930کو ضلع فرید پور،جوجیشور،مسورہ گاؤں]موجودہ بنگلہ دیش[میں پیدا ہوئے۔یہیں دوسری جماعت تک ان کی تعلیم بنگلہ میڈیم اسکول میں ہوئی۔7سال کی عمر میں حیدر آباد گئے جہاں کم وبیش 27سال تک رہے۔ان کے والدبیکنٹھ ناتھ بھٹاچاریہ ریلوے کی ملازمت کے سلسلے میں 1930میں حیدرآبادگئے۔جہاں وویک بردھن ہائی اسکول میں اردومیں ان کی تعلیم ہوئی۔یہاں انہو ں نے تیلگو اور تمل سے بھی واقفیت حاصل کی۔محبوب کالج (ہائی اسکول )سکندر آباد میں انگریزی بھی پڑھی ۔انگریزی ادب کا گہرا مطالعہ تھا۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ پرانےقلم،رائل بلیوروشنائی کا استعمال کرتے تھے ۔انہیں اردو کتابیں خریدنے اور پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ان کا زیادہ تر وقت مطالعے میں گزرتا تھا ۔وہ اکثر دیر ر ات تک لکھتے پڑھتے تھے ۔
حیدرآبادمیں انہوں نےکسانوں پر ہونے والے جبر و استبدادکو بہت قریب سے دیکھا۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے غزل کی شاعری کو اس ظلم و جبر کی وجہ سے ہی خیرباد کہااور18سال کی عمر میں افسانہ نگاری شروع کی ۔پہلا مجموعہ راہ کا کانٹا یکم اکتوبر 1960کو بھٹا چاریہ پبلی کیشنز سے شائع ہوا۔
1950میں ممبئی کے ایک روزنامہ میں ان کاناول ’دھرتی سے آکاش تک‘قسط وارشائع ہوا۔انہوں نے حیدرآباد میں 1950سے1952تک اسٹیٹ ٹرانسپورٹ میں ملازمت کی۔اسی زمانے میں تلنگانہ تحریک میں شامل ہوئے۔اس تحریک کی وجہ سے ان کی ملازمت بھی چلی گئی ۔ کہتے ہیں ضلع عادل آبادمیں1950کےقریب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شامل ہوئے۔ اس وجہ سے ان کی تخلیقی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئیں ۔
شانتی رنجن بھٹا چاریہ 1956میں کلکتہ لوٹ آئے ۔ یہاں انہوں نے اپنے دوست خلیل احمدکے تعاون سےایک پریس قائم کیا،جس میں وہ کلینڈرچھاپتے تھے۔اس کے علاوہ الگ سے کتابت کاکام بھی کرتے تھے۔انہوں نے کلکتہ سے ’فلم ویکلی‘بھی جاری کیا۔
بعض لوگوں کی رائے میں انہوں نےادب برائے زندگی کا نعرہ اس شدت سے لگایا کہ ادب ادب نہ رہ کر کمیونزم کا اشتہار بن گیا۔اس لیے ان افسانےکو مقصدی قرار دیتے ہوئے کمزور افسانہ کہا جاتا ہے۔لیکن ان کی تحقیق کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔بنگال میں اردو کو لے کر انہوں نے سروے بھی کیا،اعداد و شمار جمع کیے۔انہوں نے لکھا تھا “نہ صرف مغربی بنگال بلکہ ہندوستان کے وہ تمام علاقے جہاں جہاں اردو بولنے والوں کی دس فیصد آبادی ہے وہاں اردو کو ریاستی زبان کا قانونی حق ملنا چاہیے۔”
ان کے افسانوں میں بنگالی تہذیب و تمدن ،رسوم وعقائد کا ذکر خوب ہوا ہے۔اپنے لسانی تحقیق میں انہو ں نے بنگلہ زبان و ادب میں عربی ،فارسی اور ترکی الفاظ کی نشاندہی بھی کی ۔
’بنگالی ہندوؤں کی اردوخدمات‘ان کی معروف تصنیف ہے۔اس تحقیقی کتاب کے لیے ان کو رابندر ناتھ ٹیگور ایوارڈ بھی ملا۔اس کتاب کی تحسین کرنے والوں میں ہندستان کےنائب صدر ڈاکٹر ذاکرحسین کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ماہر لسانیات اوردانشورسینتی کمار چٹرجی بھی ان کے قدردانوں میں تھے۔
شانتی رنجن بھٹا چاریہ نے رائٹرس بلڈنگ میں اردو مترجم اورانگریزی پروف ریڈر کی حیثیت سے شعبہ اطلاعات وپبلک ریلیشن میں بھی ملازمت کی ۔ ایک زمانے میں وہ کلکتہ دور درشن میں اردو کے نیوزایڈیٹر تھے۔1967میں اورینٹل کالج (ممبئی )نےانہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔1991میں ساہتیہ اکیدمی نے انہیں ترجمہ کے لئے اعزاز بخشا۔
ان کی تحقیق کا خاص موضوع بنگال اور بنگلہ ادب تھا۔ انہو ں نے بنگلہ اوراردو زبان کی غیرمعمولی خدمت کی ۔کم وبیش 30 کتابیں تصنیف/ تالیف/ترجمے کیے۔قابل ذکر کتابوں میں”بنگالی ہندوؤں کی اردوخدمات،اردواوربنگال،آزادی کےبعد بنگال میں اردو،غالب اوربنگال،اردو ادب اور بنگالی کلچر،اقبال،ٹیگوراورنذرل تین شاعر ایک مطالعہ،مغربی بنگال میں اردو زبان اوراس کےمسائل،مختصرتاریخ ادب بنگلہ،مغربی بنگال کی زبانوں سےاردو کا رشتہ ایک لسانی مطالعہ، رابندر ناتھ ٹھاکرحیات وخدمات،آزادی کے بعد بنگال میں صحافت،آفتاب علم وادب ڈاکٹر سینتی کمار چٹرجی حیات وخدمات، کلکتہ میں اردوکاپہلامشاعرہ اورپرنس دلن کا یارگار مشاعرہ،مولاناابوالکلام آزادکےپاسپورٹ کا خفیہ فائل،پختونستان کامطالبہ، اردو سے بنگلہ سیکھو،بنگلہ کاآسان قاعدہ،روہت لال مجمدار حیات وخدمات غیرہ اہمیت رکھتے ہیں ۔
ان کے بعض اہم مضامین میں “سڑک خاندان کی بولیاں اور اردو،بھوکی پیڑھی کابنگلہ ادب ایک مختصر جائزہ، غالب کا ایک شاگرد،بنگال کے چند کتب خانوں میں محفوظ اردو مخطوطات،اردو ادب پر ٹیگورکا اثر،اردو ادب پرسرت چندرکا اثر،بنگالی ڈاکٹروں کی اردو خدمات،ٹیگور گھرانےسےاردوکاتعلق،جام جہاں نمااورہریہردت،مولانا آزاد کا ایک گمشدہ تاریخی خط،کلکتے میں غالب کامکان،وغیرہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔
Categories: ادبستان