میں مسلمانوں کو الگ سے اہمیت نہیں دیتا۔ مسلمانوں کے اندر زیادہ تر پچھڑے (پسماندہ) لوگ ہیں جیسے جلاہے، دھنیے۔ پانچ کروڑ میں یہ چار ساڑھے چار کروڑ پچھڑے مسلمان میں۔ میں ان کو اہمیت دیتا ہوں، پڑھائی لکھائی میں، غریبی میں، ہر معاملے میں۔
آج سے ٹھیک پچاس سال قبل سوشلسٹ لیڈر، مجاہد آزادی اور جدید ہندوستان کے ایک اہم مفکر رام منوہر لوہیا اس دنیا سے چل بسے، مگر ان کے افکار و نظریات آج بھی زندہ ہیں۔ شمالی ہند کی متعدد سیاسی اور سماجی جماعتیں لوہیا کے افکار و نظریات پر مبنی ہیں اور ایسی بہت سی سیاسی جماعتیں وقتاً فوقتاً اقتدار میں بھی رہی ہیں۔لوہیا کی پیدائش اترپردیش کے ضلع فیض آباد میں 1910 ء میں ہوئی تھی۔ لوہیا کے خاندان والوں کا پیشہ تجارت تھا اور ان کا عقیدہ ہندو مذہب کے ویشنو مسلک پر تھا۔ لوہیا لقب ان کے ساتھ اس لیے جڑا کہ ان کاخاندان لوہے کی تجارت سے وابستہ تھا ۔ سانولے رنگ اور پستہ قد کے لوہیا پوری طرح سے سبزی خور (Vegetarian) تھے۔ بھارت چھوڑو تحریک کے دوران لوہیا کے ساتھ متحرک رہی اندومتی کالکر نے رام منوہر لوہیا کی سوانح لکھی تھی جس میں انھوں نے لوہیا کو ملحد کہا ہے۔ لوہیا غیر شادی شدہ تھے ۔
لوہیا کے خاندان والے کانگریس کے حمایتی تھے۔ ان کے والد صاحب کانگریس کے متحرک کارکن تھے جنھیں تحریک سول نافرمانی کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ لوہیا بھی کچھ اسی طرح سیاست میں دلچسپی رکھتے تھے اور وہ اپنے گریجویشن کے دنوں سے ہی طلبا سیاست سے وابستہ تھے ۔ 1934 ء میں جب کانگریس سوشلسٹ پارٹی تشکیل دی گئی تب انھوں میں اس میں نمایاں کردار ادا کیا اور سوشلسٹ نظریے پر مبنی سیاست کو فروغ دینے میں اہم کارنامہ انجام دیا۔لوہیا کے افکار پر کارل مارکس اور گاندھی کا زبردست اثر رہا ہے۔ حالانکہ انھوں نے کبھی بھی پوری طرح سے مارکسزم اور گاندھی ازم کو نہیں اپنایا۔ جہاں وہ مارکسزم کے طبقاتی جدوجہد کو جائز ٹھہراتے تھے وہیں مارکسزم کے نام پر ہو رہے تشدد پر مبنی طریقہ کار کو پوری طرح خارج کر رہے تھے۔ گاندھی کا نظریہ، اقتدار کی لامرکزیت پر ان کا پختہ یقین تھا مگر وہ ان کے گرام سوراج کے نظریے سے غیر متفق تھے۔
لوہیا نے تاریخ، سیاست، معیشت، تہذیب، کلچر جیسے بہت سے موضوعات پر اپنی رائے ظاہر کی ہے۔1963ء میں حیدرآباد میں منعقد ایک تقریب میں لوہیا نے ہندو اور مسلم عنوان سے ایک پرزور مقالہ پڑھا تھا۔ یہ مقالہ آج بھی اپنی معنویت رکھتا ہے۔ مقالے کی ابتدا میں ہی رام منوہرلوہیا نے ہندو اور مسلمان کو ہندستانی تاریخ سے متعلق اپنی سوچ کو بدلنے کی دعوت دی ۔ انھوں نے کہا کہ ہندو اور مسلم تنازعہ کی جڑ میں گذشتہ 800-700سال کی تاریخ ہے۔ دوسرے لفظوں میں انھوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کو انتباہ کیا کہ جب تک وہ اپنی سوچ اور تاریخ کو دیکھنے کا نظریہ نہیں بدلیں گے اور دونوں ایک مشترکہ سیکولر تاریخ میں اپنا یقین نہیں رکھیں گے تب تک ہندو مسلم تعصب کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے ہندو اور مسلمانوں سے درخواست کی کہ وہ گذشتہ 800-700سال کی تاریخ کو ہندو بنام مسلم کشمکش کے طور پر نہ دیکھیں ۔ انھوں نے مزید کہا کہ اقتدار کے لیے مسلمانوں نے خود ہی مسلمانوں کا قتل کیا ہے۔ تیمور لنگ نے چار سے پانچ لاکھ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاڑ دیا جس میں تین لاکھ مسلمان تھے۔ ان مسلمانوں میں پٹھان مسلمانوں کی تعداد نمایاں تھی۔ وہ آگے کہتے ہیں کہ مغل مسلمانوں کی لڑائی پٹھان مسلمانوں سے تھی۔ اس لیے عہد وسطیٰ کی تاریخ کو ہندو بنام مسلم کی عینک سے دیکھنا بالکل غلط ہے۔ لوہیا کے مطابق یہ لڑائی ہندو بنام مسلم کے بجائے دیسی بنام بدیسی عناصر میں تھی۔ انھوں نے آگے کہا کہ عرب مسلمان اور دوسری جگہوں کے مسلمان سب سے پہلے ہندستان میں آئے۔
اس طرح ہندستان میں آنے والے وہ پہلے اجنبی مسلم تھے۔ پچاس یا سو سال کے بعد وہ یہیں بس گئے اور وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ دوسرے مرحلے میں کچھ دوسرے ملکوں کے مسلمان حملہ آوروں نے ہندستان پر حملہ کیا اور انھوں نے ہندستان کے ہندو اور مسلمان دونوں کے خلاف جنگ لڑی۔ اس سے لوہیا یہ بات ثابت کرنا چاہتے تھے کہ لڑائی ہندو بنام مسلم کی نہیں بلکہ ملکی بنام غیر ملکی افراد میں تھی۔
“عام طور سے ہندو اور مسلمان دونوں طبقوں کی ذہنوں میں یہ وہم بیٹھا ہوا ہے۔ ہندو سوچتا ہے کہ گذشتہ 800-700سال میں مسلمانوں کی حکومت رہی۔ مسلمانوں نے ظلم کیا اور مسلمان سوچتا ہے ، چاہے وہ غریب سے غریب کیوں نہ ہو کہ 800-700سال تک ہماری حکومت رہی اب ہمیں برے دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ ہندو اور مسلمان دونوں کے دلوں میں یہ غلط فہمی بیٹھی ہوئی ہے جو سچی نہیں ہے۔ اگر سچی ہوتی تو اس پر میں کچھ نہیں کہتا۔ اصلیت یہ ہے کہ گزشتہ 800-700سال میں مسلمانوں نے مسلمانوں کو مارا ہے۔ مارا ہے، کوئی روحانی معنی میں نہیں جسمانی معنی میں مارا ہے۔تیمور لنگ جب چار پانچ لاکھ آدمیوں کو قتل کرتا ہے تو اس میں تین لاکھ تو مسلمان ہی تھے۔ پٹھان مسلمان تھے، جن کا قتل کیا۔ قتل کرنے والا مغل مسلمان تھا۔ یہ چیز اگر مسلمانوں کے گھر گھر میں پہنچ جائے کہ کبھی مغل مسلمان نے پٹھان مسلمان کا قتل کیا ہے اور کبھی افریقی مسلمان نے مغل مسلمان کا، تو پچھلے سات سو سال کا واقعہ لوگوں کے سامنے اچھی طرح سے آجائے گا کہ یہ ہندو اور مسلمان کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ تو ملکی و غیر ملکی کا معاملہ ہے۔ سب سے پہلے عرب کے یا اور کسی دوسری جگہ کے مسلمان آئے وہ پردیسی تھے۔ انھوں نے یہاں کے راج کو ختم کیا۔ پھر وہ دھیرے دھیرے سو پچاس سال میں دیسی بن گئے، لیکن جب وہ دیسی بن گئے تو پھر دوسری لہر پردیسیوں کی آئی جس نے ان دیسی مسلمانوں کو اسی طرح سے قتل کیا جس طرح سے ہندوؤں کو۔ پھر وہ پردیسی بھی سو پچاس سال میں دیسی بن گئے اور پھر دوسری لہر آئی۔ ہمارے ملک کی تقدیر اتنی خراب رہی ہے، پچھلے 800-700سال میں، کہ دیسی تو رہانامرد اور پردیسی رہا ہے لٹیرا یا سمجھو جنگلی ۔ یہ ہمارے سات سو سال کی تاریخ کا نتیجہ ہے۔ “(مست رام کپور، مرتبہ : رام منوہر رچناولی، جلد 8، ص: 46-144)
میرے خیال میں لوہیا کا یہ کہنا صحیح ہے کہ عہد وسطیٰ میں لڑائی اقتدار کے لیے تھی اور اسے کسی خاص مذہبی نقطہ نظر سے نہ دیکھا جائے۔ بھگوا فرقہ پرست عناصر کچھ اسی طرح کا فتنہ پھیلاتے ہیں اور عہدوسطیٰ کو مسلمانوں کی حکومت اور ہندوؤں کی غلامی اور قتل و غارت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کی فرقہ وارانہ سوچ کے پیچھے بہت سارے انگریز مؤرخوں کا ہاتھ ہے جنھوں نے مسلمان بادشاہوں کے خلاف جم کر زہر اگلا۔ اس کے پیچھے ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ استعماری انگریزی حکومت کو صحیح ٹھہرائیں اور اس طرح کے تاثرات پیدا کریں کہ انگریزوں نے ہندستان میں اقتدار حاصل کر ہندوؤں کو مسلمانوں کے ظلم و ستم سے نجات دلائی ہے۔
آگے لوہیا ہندو اور مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تاریخ کے اوراق سے اپنے مشترکہ ہیرو چنیں، انھیں اپنائیں اور متعددوسرے ویلن کو ایک ساتھ خارج کریں۔ لوہیا کی نظر میں رضیہ، سیر شاہ سوری اور جائسی ہندوستانی عوام بشمول ہندو اور مسلمانوں کے اسلاف ہیں اور غزنی، غوری اور بابر لٹیرے۔
“آج ہندو اور مسلمان دونوں کو بدلنا پڑے گا۔ دونوں کے من بگڑے ہوئے ہیں… کتنے ہندو ہیں جو کہیں گے کہ سیرشاہ ان کے باپ داداؤں میں ہیں اور کتنے مسلمان ہیں جو کہیں گے کہ غزنی، غوری لٹیرے تھے؟” (ص: 146)
کیا رضیہ، سیرشاہ، جائسی کو بطور ہیرو اور غزنی، غوری اور باہر کو بحیثیت ویلن پیش کرنا صحیح ہے؟ اس مضمون میں بھی لوہیا ان کرداروں کو اپنانے اور ترک کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ پیش نہیں کرتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آر ایس ایس اور بھگوا تنظیموں نے بابر کو نشانہ بنا کر رام مندر تحریک کی راہ ہموار کی تھی۔ بابر کی اولاد مسلمانوں کے لیے ایک گالی کے طور پر استعمال کیا جانے لگا مگر تاریخ شاہد ہے کہ ان تمام کرداروں کا تعلق اقتدار سے تھا۔ اقتدار سے استحصال اور تعصب ہمیشہ جڑا رہاہے۔ اس لیے کسی حکمران کو پوری طرح سے صحیح مان لینا اور کسی کو بالکل ہی غلط ٹھہرانا سنجیدہ رائے نہیں ہے۔آزاد ہند کے مسلمانوں کے سیاسی اور اقتصادی مسائل کے بارے میں بھی لوہیا ذکر کرتے ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کے اندر غریب اور نیچی ذات سے رکھنے والے ، محنت کش اور مزدوروں کا بھی ذکر کیا ہے۔ لوہیا کہتے ہیں
“میں مسلمانوں کو الگ سے اہمیت نہیں دیتا۔ مسلمانوں کے اندر زیادہ تر پچھڑے (پسماندہ) لوگ ہیں جیسے جلاہے، دھنیے۔ پانچ کروڑ میں یہ چار ساڑھے چار کروڑ پچھڑے مسلمان میں۔ میں ان کو اہمیت دیتا ہوں، پڑھائی لکھائی میں، غریبی میں، ہر معاملے میں۔ ” (ص: 146)
خیال رہے کہ ہندستان میں پسماندہ مسلمانوں کی سیاست 1990ء کی دہائی سے خاص طور سے ابھری جب منڈل کمیشن کی سفارشات لاگو ہوئیں اور پچھڑے طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما سیاست کے میدان میں بڑی تیزی سے ابھرنے شروع ہوئے۔ پچھڑے مسلمانوں کو دلت مسلمان یا پسماندہ بھی کہا جاتا ہے۔ پسماندہ فارسی کا لفظ ہے جس کے معنی پیچھے چھوٹے ہوئے۔ کچھ پسماندہ ذاتیاں ہیں، لال بیگی، حلال خور، موچی، پاسی، بھٹیارہ، پمریا، نٹ، بکھو، ڈفالی، نل بند، دھوبی، سائیں، رنگ ریز، چیک، مرسیقار، درزی وغیرہ۔ آج کے پسماندہ مسلمانوں نے صدیوں پہلے ذات پات کے ظلم سے نجات پانے کے لیے اسلام مذہب کو اپنایا مگر مذہب بدلنے کے بعد بھی ان کے ساتھ ہو رہے ذات پات پر مبنی تعصب پوری طرح سے ختم نہیں ہوا اور ان کے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام کا نظریہ مساوات، اخوت کا پیروکار ہے مگر میڈیا میں اس طرح کی خبریں آتی ہیں اور بہت سی تحقیقات اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اعلیٰ ذات کے مسلمان نچلی ذات سےتعلق رکھنے والے مسلمانوں کے ساتھ طرح طرح سے بھید بھاؤ برتتے ہیں۔ ان کے درمیان شادی بیاہ کے واقعات کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کئی بار نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو اعلیٰ ذات کی نگرانی میں بنے قبرستانوں میں بھی دفنایا نہیں جاتا۔
لوہیا کی ایک تقریر میں آزاد ہندوستان میں تعصب جھیل رہے مسلمانوں کے درد کا بھی ذکر ملتا ہے۔ خاص کر انھوں نے کانگریس پارٹی اور نہرو کی حکومت کو نشانہ بنایا ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ نہرو کو مسلمانوں کی یاد تب آتی ہے جب انتخاب کا وقت قریب آتا ہے۔
“پچھلے کچھ سالوں میں پلٹن میں اور اسی طرح کے جو دلی کے محکمے ہیں ان میں بڑی نوکریوں میں مسلمانوں کو جتنا حصہ دینا چاہیے اتنا نہیں دیا گیا ہے۔ اسے بہت کم آدمی کہتے ہیں کیونکہ سچ بولنے سے آدمی ذرا جھجکتے ہیں، لیکن یہ سچ ہے۔ نہرو جی کبھی کبھی اس بات کو ذرا کہتے ہیں لیکن ان کی بات کو پکڑ لینا، محکمہ ان کا، سرکار ان کی، دلی سرکار کے وہ خود مالک ہیں، لگاتار پونے پانچ سال تک وہ مسلمانوں کو فوج اور دوسری بڑی جگہوں سے دور رکھتے ہیں اور پھر جب مسلمان بھڑکنے لگتے ہیں تو تین مہینے کے لیے اپنا سر بدل لیتے ہیں۔ کبھی کوئی جمعیت کا اجلاس بلوا لیتے ہیں، کہیں اور مسلمانوں کو اور کہنا شروع کرتے ہیں کہ اب میں یہ برداشت نہیں کر سکوں گا۔ میرے ملک کے باشندوں کو برابری کا درجہ ملنا چاہیے۔ طرح طرح کی باتیں کرکے وہ مسلمانوں کا دل موہ لیتے ہیں۔ نہرو قینچی یا کانگریس قینچی کیا ہے؟ آپ سمجھ لینا۔” (ص: 147)
تقسیم کے بعدہندوستانی مسلمانوں کو نوکریوں میں زبردست تعصب جھیلنا پڑا۔ ان کی حالت دھیرے دھیرے خستہ ہونے لگی اور نوکریوں میں ان کی شرح کافی کم ہونے لگی۔ یہ سب سازش کے تحت کیا گیا اور سرکار اور سرکاری ادارے اس میں منسلک تھے۔ کہنے کے لیے ہمارے ملک میں سیکولر سرکاریں بنیں مگر انھوں نے پوری طرح سے مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ لوہیا کی دوراندیشی دیکھئے کہ جو بات 2005 میں سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد موضوع بحث بنی انھوں نے چار دہائی پہلے ہی کہہ دی تھی۔ انھوں نے اس وقت زیر اقتدار کانگریس حکومت کو نشانہ بنایا مگر یہ کتنی افسوس کی بات ہے کہ خود ان کے نظریے کی پیروکار سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں آئیں توانھوں نے بھی اپنی کارکردگیوں میں نفاق کا مظاہرہ کیا۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ لوہیا ہندو و مسلم تنازعہ کو لے کر کافی سنجیدہ تھے اور تاعمر انھیں ختم کرنے کی تگ و دو کرتے رہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ لوہیا جب محض 57 سال کے تھے ان کی وفات ہوگئی ۔ ان کی وفات کے بعد خاص کر دنگوں کا ایک بڑا سلسلہ شروع ہوگیا جو ابھی تک تھما نہیں ہے۔ لوہیا کے پیروکاروں کو چاہیے کہ وہ ہندو و مسلم تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے پھر سے پرعزم ہوں۔ یہ صحیح معنی میں ان کو ہماری طرف سے خراج عقیدت ہوگی۔
(ابھے کمار جے این یو کے شعبہ تاریخ میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر