نصرت کے فرانسیسی سوانح نگار پیئر آلیں بو کا کہنا تھا کہ نصرت کی موسیقی میں شامل صرف سات سر ہی نہیں بولتے بلکہ یہ ہماری روح کی صدا ہے جو بازگشت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
نئی دہلی : دنیا بھر میں اپنے راگ اور الاپ کی وجہ سے مشہور فن کارنصرت فتح علی خان آج ہی کے دن پیدا ہوئے تھے ۔2015 میں سرچ انجن گُوگل نےاس عالمی شہرت یافتہ آرٹسٹ کی سالگرہ پرڈوڈل بھی متعارف کرایاتھا۔انہوں نے ہالی ووڈ کے لیےالاپ اور راگ پیش کیے ۔ہندوستان میں سب سے پہلے ’’دی بینڈٹ کوئین‘‘میں ان کے نغمے کو استعمال کیا گیا،یہ فلم پھولن دیوی کی زندگی پر بنائی گئی تھی۔ نصرت نے 40 سے زائد ملکوں میں اپنے کنسرٹ کیے ۔انہوں نے 1988میں پیٹر گبریل کی فلم ’’دی لاسٹ ٹیمپ ٹیشن آف کرائسٹ‘‘کے لیے بھی اپنی آواز پیش کی اور 1995 میں ڈیڈ مین واکنگ کے لیے دو شاہکار پیش کیے،اس کے بعد پیٹرگبریل کے ساتھ قوالیوں کےالبم ریلیز کیے۔ اے آر رحمان کے ساتھ بھی ان کے کئی البم اورگانے ہیں۔
نصرت فتح علی خان کی پہلی باقاعدہ سوانح حیات فرانسیسی زبان میں لکھی گئی ،بعد میں اس کا اردو ترجمہ بھی کیا گیا تھا۔اس تعلق سے خرم سہیل نے ایک کالم لکھا تھا ،جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ استاد نصرت فتح علی خان کے فرانسیسی سوانح نگار ”پیئر آلیں بو“نےموسیقی پر ڈاکٹریٹ کی ہے ۔واضح ہو کہ 2008 میں انہوں نے فرانسیسی زبان میں استاد نصرت فتح علی خان کی سوانح حیات لکھی، جس کا اردو میں ترجمہ شوکت نیازی نے کیا۔ اس کتاب کے دیباچہ کا ذکر کرتے ہوئےخرم سہیل نے پیئر آلیں بو کے خیالات کو نقل کیا ہے: ”ٹوکیو میں نغمہ سرا مہاتما بدھ،تیونس میں انسانی سنگیت کا جوہر، لاس اینجلس میں جنت کی آواز، لندن میں اسلام کی روح، پیرس میں مشرق کا پاواروتی،اور لاہور میں شہنشاہِ قوالی کے القاب سے نوازے جانے والے، خدا کی محبت میں دیوانے، خدا کے عاشق، اس”عوامی گائیک“نے تقریباً ڈیڑھ دہائی میں ہی عالمگیر شہرت کمائی اور پھر اپنے وقت سے پہلے ہی اپنے پیچھے ہزاروں نقشِ پا چھوڑے چلا گیا۔“
اس کالم کے مطابق پیئر آلیں بوکواستاد نصرت فتح علی خان کے ساتھ کئی سال تک کام کرنے کا موقع ملا۔ پیئر آلیں بو کے نے کہا تھاکہ ”میں جنوبی ایشیا میں 35 برس سے آتا جاتا رہا اور یہاں کی روایات اور ثقافت کے ساتھ ہی میری بھی نشونما اور تربیت ہوئی۔ یہاں کی صوفی موسیقی نے مجھے اپنے لیے منتخب کیا،یہ تمام راگ،تالیں اور بندشیں میرے دل کی آواز ہیں۔ ان آوازوں سے مجھے عشق ہو گیا اور میں اب بھی اس میں گرفتار ہوں۔ اس لیے چاہے نصرت ہوں یا عابدہ پروین اور دیگر آوازیں ہوں، سب مجھے اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔ البتہ سب سے زیادہ مجھے نصرت کی شخصیت اور آواز نے اپنی جانب متوجہ کیا، کیونکہ ان کی صرف آواز میں ہی جادو نہیں تھا، بلکہ وہ اسٹیج پر گائیکی کے دوران جس اعتماد کا مظاہرہ کرتے تھے، وہ بھی قابل تحسین تھا اور صرف یہی نہیں، بلکہ اپنی عام زندگی میں بھی وہ ایک حساس دل کے مالک، سچے اور اپنے کام سے مخلص فنکار تھے۔ عاجزی ان کی شخصیت کا سرمایہ تھی۔ مجھے نصرت کی ان خوبیوں نے ان کا گرویدہ بنا دیا۔“
پیئر آلیں بو کا کہنا تھا کہ نصرت کی موسیقی میں شامل صرف سات سر ہی نہیں بولتے بلکہ یہ ہماری روح کی صدا ہے جو بازگشت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اسی لیے وہ آج بھی دنیا میں کروڑوں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ محبت کے جذبات، جدائی اوراس طرح کے دیگر احساسات ہمارے معاشرے میں بھی پائے جاتے ہیں،اس لیے وہاں بھی تخلیق ہونے والی شاعری اورموسیقی میں اس طرح کا رنگ ہے جس کو آپ صوفی طرز کا رنگ کہہ سکتے ہیں۔ یہی نصرت کی موسیقی کا بھی خاصا ہے۔“
نصرت فتح علی خان نے ایک مرتبہ ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا،’’ میرے والد کی خواہش تھی کہ میں فن موسیقی سے آگاہی تو ضرور حاصل کروں لیکن اس کو پیشے کے طور پر نہ اپناؤں، وہ مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔‘‘ان کافن مشرق و مغرب کی موسیقی کا وہ امتزاج تھا، جس میں اردواورپنجابی زبانوں کی شیرینی نے دنیا بھر کے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا یا۔ گلوگارہ لتا منگیشکر نے ان کی وفات کے فوراً بعد ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں کہا تھا،’’ میں یہ سمجھتی ہوں کہ نصرت صاحب کی موت سے دنیائے موسیقی کو بہت نقصان ہوا ہے۔ وہ اپنے ملک میں ہی نہیں ہمارے ہاں بھی بہت زیادہ مقبول تھے۔ نصرت صاحب نے ایک فلم کی موسیقی ترتیب بھی دی تھی جس کے گیت مجھے گانا تھے، لیکن میں کسی مصروفیت کی وجہ سے وہ گیت نہ گا سکی، جس کا مجھے عمر بھر افسوس رہے گا۔‘‘
ان کی مشہورقوالیوں میں میرا پیا گھر آیا، دما دم مست قلندر،یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، حق علی علی مولا علی، تو کجا من کجا۔اللہ ہو اللہ ہو شامل ہیں۔اسی طرح ان کے مقبول گیتوں میں تمہیں دل لگی ،میرے رشک قمر،آفرین آفرین شامل ہیں۔نصرت نے قومی اور بین الاقوامی متعدد ایوارڈز حاصل کئے۔اقوام متحدہ کی جانب سے انہیں میوزک پرائس بھی دیا گیا۔بالی وڈ میں ان کا گانا ‘دولہے کا سہرا سہانا لگتا ہے’ کوبے حد مقبول ہے ،اور آج بھی شادی کے موقع پر یہ نغمہ سنائی پڑتا ہے ۔
Categories: ادبستان