صحیح معنوں میں ایودھیا اور یہاں رہنے والوں کی فکر کسی کو نہیں ہے۔1,71000دیوں سرکاری دیوالی مناکر یوگی حکومت صرف اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے۔
171000دیوں اور رام کی تاج پوشی والی سرکاری دیوالی والی تقریب کو گنیز بک آف ورلڈ میں شامل کرانے کی حسرت سوالوں کے گھیرے میں ہے۔الیکٹرانک میڈیا کی قصیدہ خوانی کے برعکس بھگوان رام کی اس سرزمین پر سرکاری دیوالی کودو مشکلات کامقابلہ ہے ؛پہلی یہ کہ اپنی بدحالی سے اُکتائی ایودھیا، یوگی حکومت کے ہندو ایجنڈے کو لےکر زیادہ پرجوش نہیں ہو پا رہی،اوردوسری یہ کہ دیوالی جیسےتہوار کو سیاسی رنگ دینے کی وجہ سے حزب مخالف کے علاوہ سادھو سنتوں کا ایک خیمہ بھی خاصاناراض ہے۔
یہ ناراضگی یہاں تک جا پہنچی ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کو رام مندر تحریک کے آنجہانی ہیرو پرم ہنس رام چندرداس کے دگمبر اکھاڑے میں رات کے قیام کا اپنا ارادہ بدل دینا پڑا ہے۔ کچھ سنت سختی سے ان کی مخالفت پر اتر آئے ہیں اور اکھاڑے سے گئورکشا پیٹھ ادھیشور مہنت اویدھ ناتھ کے وقت سے چلے آ رہے خوش گوارشتوں کا حوالہ دینے پر بھی پسیجنے کو تیار نہیں ہیں۔ سو اب یوگی سرکاری سرکٹ ہاؤس میں رات بسر کرے گی۔
ان کی حکومت کہہ رہی ہے کہ یہ ‘عالمی سطح ‘ کی دیوالی ہوگی لیکن ایودھیا اور ساتھ ہی اس کے جڑواں شہر فیض آباد میں عام سوال یہ ہے کہ کھنڈر ہوتے جا رہے ایودھیا کے مندروں کو یہ کچھ گھنٹوں کی تھوتھی جگرمگر کتناسہائے گی؟
فیض آباد سے شائع ہونے والے روزنامہ ‘جن مورچہ ‘کے مدیر شیتلا سنگھ بتاتے ہیں کہ ایودھیا میں ایسے مندروں کی تعداد بہت کم ہے، جن کو عقیدت مندوں اور زائرین کے نذرانوں سے کام بھر کو آمدنی ہوتی ہو۔ ان میں سے کئی اپنے مرمت کو کون کہے، رنگ و روغن کرانے کے بھی قابل نہیں ہیں۔ راجےرجواڑے اور ریاستیں اور پنچایتیں ان کا انتظام سنبھالتی اور تحفظ دیتی آ رہی تھیں، اب ان کا یا تو وجود ہی نہیں ہے یا حیثیت گھٹ گئی ہے۔
وہ آگے کہتے ہیں کہ ایک وقت ان کو بی جے پی اور وی ایچ پی کے ہندو ایجنڈے سے بڑی امید تھی، لیکن کلیان سنگھ کے دوراقتدار میں ساکشی گوپال سمیت کئی مندروں کےجبراً منہدم کر دئے جانے اور اس کے بعد سے اب تک مندروں کی حالت سدھارنے سے متعلق سوچنے کے بجائے میلوں وغیرہ کے وقت ہڑبونگوں سے ان کی حالت اور خراب کرنے کو لےکر وہ ان سے ناراض ہیں۔
شیتلا سنگھ بتاتے ہیں کہ ایودھیا میں بڑی تعداد میں ایسے مٹھ اورمندر بھی ہیں جو وہاں کے سادھوؤں اورمہنتوں کے آپسی جھگڑوں کی وجہ سے خستہ حالت میں ہیں۔
سماجوادی وچار منچ کے کنوینر اشوک شریواستو شکایت کرتے ہیں کہ اس حکومت کے ذریعے ایودھیا کے بہانے آگے کیا جا رہا نام نہاد ہندو ایجنڈہ اتنا متعصب ہے کہ اس میں سارے ہندو ہی نہیں سما سکتے تو اور کمیونٹی کی بات کیا کی جائے۔ اس کو رام جنم بھومی، ہنومان گڑھی اور دگمبر اکھاڑا سے آگے کچھ نظر ہی نہیں آتا، جبکہ ایودھیا مذہبی کٹرپن میں نہیں، ہم آہنگی میں اعتماد کرتاہے اور وہاں ہنومان مندرمیں بھی رام کا مجسمہ اس کی شان و شوکت بڑھاتا ہے۔
وہ پوچھتے ہیں کہ کیا بھرت کنڈ، لچھمن گھاٹ، چتربھجی مندر، شیش ناگ مندر اور ناگیشورناتھ مندر کی خستہ حالی پر اس لئے دھیان نہیں دیا جانا چاہیے کہ وہ ووٹ اور سیاست کرنے کا ذریعہ نہیں ہیں؟
آخر کیوں مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومت،ایودھیا سے متعلق ان کی اسکیم رام کی سیڑھی اور گپتارگھاٹ کے آرائش و زیبائش کے علاوہ دگمبر اکھاڑا میں ایک کثیر مقاصد آڈیٹوریم کی تعمیر تک ہی محدود ہے؟ کیوں ابھی تک ایودھیا میں سڑکوں کی جدید کاری، بیت الخلا اور نالیوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش اور پانی نکاسی تک کے مناسب انتظام نہیں ہیں۔
70 کی دہائی میں آندھر پردیش کے کانگریسی رہنما مدھو چیناریڈی اتر پردیش کے گورنر تھے تو انہوں نے ایودھیا آکر مشورہ دیا تھا کہ جنوبی ہندوستان کی طرح یہاں بھی مندروں کا انتظام مذہبی ٹرسٹ کو دے دیا جائے۔ لیکن کچھ لوگوں نے اس مشورے کی اتنی مخالفت کی کہ آگے کسی کواس کو دوہرانے کی بھی ہمت نہیں پڑی۔
دوسرے پہلو پر جائیں تو ایودھیا یقیناً، بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔ فطری طور پرہی وہاں رام اور سیتا کے مندروں کی تعداد زیادہ ہے۔ لیکن اس میں پانچ جین مندروں کے علاوہ مہاتما بدھ سے منسلک کئی مقامات اور 45 رجسٹرڈ مسلم مساجد بھی ہیں اور ان کی ترقی کا سوال بھی منھ کھولے کھڑا ہے۔
جین عقائد کے چار تیرتھنکر بھی یہی پیدا ہوئے تھے، گوتم بدھ نے اپنے 16 سال یہی گزارے تھے۔
بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کے سینئر رہنما سوریہ کانت سوال اٹھاتے ہیں کہ اس حکومت کو ایودھیا میں دیوالی ہی منانی تھی تو اس نے اس تقریب کے ڈھانچے میں ان سب کو شامل کیوں نہیں کیا؟ کیا اس لئے کہ وہ دیوں سے زیادہ لوگوں کے دل جلانا چاہتی ہے؟ ساتھ ہی مساوات اور سیکولرازم جیسے آئینی اقدار کو بھی؟
وہ کہتے ہیں کہ یوگی آدتیہ ناتھ میں اتنی سطحیت ہے کہ وہ بھگوان رام کے وارث ہونے کےلائق ہی نہیں۔ اس طرح دیوالی مناکر بھی وہ بھگوان رام کو چھوٹا ہی کر رہے ہیں۔ مزید کہتے ہیں، ‘ کسی کو تو یوگی کو سمجھانا چاہیے کہ بھگوان رام کو ماننے والے دنیا کے 65ملکوں میں ہیں اور ان میں کئی ہندو دھرم کے ماننے والے نہیں ہیں۔ 29 ملکوں میں رام کتھاؤں کا منچن ہوتا ہے اور رام کے بارے میں ان سب کی کہانیاں اور تصور الگ ہو سکتے ہیں۔ ‘
مؤرخ ڈاکٹر ہری پرساد دوبے پوچھتے ہیں کہ ایسے میں کسی ایک تصور کو ہی سب پر لادنے سے ایودھیا کی کشش یا اہمیت کیسے بڑھ سکتی ہے؟ اس ضد کے ساتھ اس کی سیاحتی ترقی بھی کیسے ممکن ہے؟ اس کے لئے تو ایودھیا کو ہر مذہب کے تصورات کو دھیان میں رکھنا ہوگا۔
بہر حال، آج کےایودھیا کی کڑوی سچائی یہ ہے کہ ریاست میں 1992 کے بعد جو بھی حکومت آئی، اس نے ایودھیا کی ترقی پر کوئی خاص دھیان نہ دیتے ہوئے مندر اور مسجد تنازعے کو ہی مرکز میں رکھا۔
اس کا نقصان یہ ہوا کہ آج ایودھیا میں مندر کے نام پر کھنڈر موجود ہیں اور اس کے تاریخی کھنڈر یا تالاب بنتے جا رہے ہیں۔ ان کی زمینوں پر دلالی کرنے والوں کا قبضہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
نگری میں ایسے مندروں کا ایک پورا سلسلہ ہے، جو سو سے لےکر تین سو سال تک پرانا ہے، جو ٹوٹ ہے ہیں اور جس کی مرمت کا کسی کے پاس کوئی خواب تک نہیں ہے۔ ہندو ایجنڈے پر آگے بڑھ رہی یوگی حکومت کو بھی ان کی فکر نہیں ہے۔
(مضمون نگارسینئرصحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر