اگر پرنب مکھرجی کو صدر کی جگہ وزیر اعظم بنایا جاتا تو ان کی سیاسی قابلیت 2014 میں نریندر مودی کے راستے میں رکاوٹ بنکر کھڑی ہوتی۔
کیا 2012 کی گرمیوں میں کانگریس صدر سونیا گاندھی نے منموہن سنگھ کی جگہ پرنب مکھرجی کو وزیر اعظم نہ بناکر اور بدلے میں منموہن سنگھ کو صدر کی کرسی نہ دےکر ایک بڑا سیاسی موقع گنوا دیا؟کیا اگر یو پی اے-2 کے وقت کانگریس دوسروں، خاص کر اپنے اتحاد کے معاونین کے خیالات کو لےکر زیادہ لچیلاپن دکھاتی تو وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو 2014 میں زیادہ مضبوط ٹکر دینے کی حالت میں ہوتی؟کیا 2009 میں کانگریس پارٹی کو ملیں 200 کے قریب سیٹوں کو کانگریس رہنماؤں نے 280 سیٹوں کے برابر سمجھ لیا، جس نے ان کے غرور کو آسمان میں چڑھانے کا کام کیا؟
یہسوالات سابق صدر پرنب مکھرجی کے ذریعے دئے گئے کچھ انٹرویوز سے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ انٹرویو پرنب مکھرجی کی نئی کتاب دی کولیشن ایئرس، جو ان کی یادوں کی تیسری قسط ہے، کے اشاعتی تشہیر کا حصہ ہیں۔ مکھرجی انڈین ایکسپریس کی ‘ ایکسپریس اڈہ ‘سیریز کے تحت منعقد ایک بحث سیشن میں بھی شامل ہوئے۔اس کتاب کی ہی طرح، مکھرجی ابھی تک اپنے صدارتی میعاد کے متعلق معاملات پر تبصرہ کرنے یا ان کے بارے میں کوئی کچھ بھی بولنے سے دور رہے ہیں۔ اس سال مارچ میں، انڈیا ٹوڈے کانکلیو میں مکھرجی نے اعلان کیا تھا کہ وہ آنے والے وقت میں صدر ہاؤس میں گزارے گئے سالوں کے بارے میں لکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
رائےسینا ہلس میں اپنے دور اقتدار کے بارے میں انہوں نے ابھی تک صرف یہ ایک کہا ہے کہ ان کا وزیر اعظم مودی کے ساتھ کافی کتابی قسم کا رشتہ تھا اور اس دوران ان کے درمیان عدم اتفاق کے بھی مواقع آئے۔ لیکن، دونوں کو اختلافات کے درمیان راستہ نکالنا آتا تھا۔اس بات کے مدنظر کہ ان کی یادوں کی تیسری قسط اہم سیاسی فیصلوں سے جڑے کئی حساس مسئلوں کی پرتیں کھولتا ہے، مودی کے ساتھ ان کے اختلافات کے بارے میں تفصیل سے جاننے کے لئے صدارتی دور کے سالوں پر مکھرجی کی کتاب کا انتظار شدّت سے کیا جائےگا۔
کم سے کم دو مسئلوں پر مکھرجی اور مودی کے درمیان اختلاف جگ ظاہر ہیں۔ سابق صدر نے باقاعدہ طور پر رواداری کا سبق پڑھایا اور قانون بنانے کے لئے بار بار آرڈیننس کا راستہ لینے سے بچنے کی صلاح دی۔مکھرجی کی یادداشت کے تیسرے حصہ اور اس کے بعد میڈیا کے ساتھ ان کی بات چیت میں سب سے اہم وزیر اعظم عہدے کو لےکر کیے گئے ان کے تبصرے ہیں۔ایک بار نہیں، تین بار، وزیر اعظم عہدہ ان کے ہاتھوں سے پھسل گیا-پہلی بار، 2004 میں، اس کے بعد 2009 میں جب منموہن سنگھ کا بائی پاس آپریشن ہوا تھا اور آخری بار 2012 میں، صدارتی انتخاب سے پہلے۔
مکھرجی سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا سونیا گاندھی نے منموہن سنگھ کو ‘ اعتماد ‘(ٹرسٹ فیکٹر) کی وجہ سے چنا، کیونکہ کہیں نہ کہیں یہ ڈر تھا کہ وہ پارٹی پر قبضہ کر لیںگے یا اگر انھی اعلیٰ عہدے پر بٹھایا گیا، تو وہ گاندھی کے تسلط کو چیلنج دیںگے۔مکھرجی نے اس سوال کو سونیا گاندھی کی طرف یہ کہتے ہوئے موڑ دیا کہ اس کا جواب ان کو دینا چاہیے کہ کیا (منموہن) سنگھ کا انتخاب اس لئے کیا گیا، کیونکہ وہ سابق صدر کو (انھیں) وفاداری انڈیکس میں نیچے رکھتی تھیں۔مکھرجی نے جن باتوں کا ذکر کیا، ان میں سے کافی کچھ کا تعلق ‘ کیا ہوا ہوتا اگر ‘ والی دنیا سے ہے۔ لیکن، ان پر غور کیا جانا چاہیے، کیونکہ (اگر ویسا ہوتا تو)تاریخ کی لہر الگ ہوتی اور ہمارا موجودہ وقت ڈرامائی طریقے سے الگ ہوتا۔
2004 میں بی جے پی کی ہار سونیا گاندھی اور کانگریس، دونوں کے لئے ہی کسی تعجب کی طرح تھی۔ ان کے بارے میں صرف ان کو ہی پتا ہے، سونیا گاندھی نے قیادت کے کردار کو نامنظور کر دیا اور نئی نئی بنی دوہری حکومتی نظام کے سہارے اپنا سکہ چلانے کا فیصلہ لیا۔انہوں نے کئی وجہوں سے مکھرجی کا انتخاب نہیں کیا۔ اپنی پوری زندگی راجیہ سبھا میں گزارنے کے بعد پرنب مکھرجی 2004 میں بھلے پہلی بار لوک سبھا میں چنے گئے ہوں، لیکن اس کے باوجود منموہن سنگھ کے مقابلے میں پرنب زیادہ ‘ سیاسی ‘ شخص تھے۔ اور یہی بات ان کے خلاف گئی۔
یقینی طور پر سونیا گاندھی سیاسی طور پر تیزطرّار رہنما کو وزیر اعظم کے عہدے پر نہیں بٹھانا چاہتی تھیں، جس کی سیاسی خواہشات کسی سے چھپی نہیں تھیں۔ واضح طور پر 7 ریس کورس روڈ میں ان پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا تھا۔مکھرجی کو حکومت کے باہر رکھنا بھی خطرہ کو دعوت دینے کے مانند ہو سکتا تھا-یہی وجہ ہے کہ اپنی پسند کی وزارت نہ ملنے کے باوجود ان کو ایک طرح سے حکومت کا حصہ بننے کے لئے مجبور کیا گیا۔
2004 میں بی جے پی کو 138 سیٹیں ملی تھیں اور کانگریس کی جھولی میں صرف 145 سیٹیں آئی تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کانگریس بری طرح سے علاقائی پارٹیوں پر منحصر تھی، جو ملکر تعدادی قوت میں نجی وفاداروں سے زیادہ ٹھہرتے تھے۔ان حالات میں سونیا گاندھی کسی ایسے کانگریس رہنما کو سب سے بڑے عہدے پر بٹھانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی تھیں، جن کی دوسری پارٹیوں کے اندر بھی اچھی خاصی ربط تھی اور جو درباری سیاست کا پکا ہوا کھلاڑی تھا۔
سنگھ میں یہ ہنرمندی نہیں تھی اور نہ ہی گاندھی کو یہ لگتا تھا کہ ان میں ان چالبازیوں کو سیکھنے کی خواہش تھی۔ وہ وفادار بنے رہنے کی خواہش رکھتے تھے اور تاریخ میں اپنا نام پالیسی سازفیصلوں کے ذریعے درج کرانا چاہتے تھے نہ کہ سیاسی چالاکیوں کے ذریعے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مکھرجی، سنگھ کے مقابلے میں زیادہ آزاد ثابت ہوئے ہوتے۔کتاب کے اجرا کے موقع پر، سابق وزیر اعظم نے یہ قبول بھی کیا کہ 2004 میں وزیر اعظم بننے کے لئے پرنب مکھرجی زیادہ لائق تھے، لیکن ‘اس فیصلے میں ان کارول برائے نام ‘ تھا۔
اس جواب نے بھلے سامعین کو ہنسنے کا موقع دیا ہو، لیکن تین مورتی آڈیٹوریم میں اس وقت موجود سونیا گاندھی یقینی طور پر منموہن سنگھ کی صاف گوئی سے بہت زیادہ خوش نہیں ہوئی ہوںگی۔کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ جنوری، 2009 میں مکھرجی کو غالباً ایک بار پھر اپنے لئے امید کی کرن نظر آئی، جب سنگھ کئی ہفتوں تک منظرنامہ سے باہر تھے۔اسی سال انتخاب ہونے والے تھے اور اس بات کو لےکر کوئی بھی مطمئن نہیں تھا کہ کیا سونیا گاندھی ایک بار پھر منموہن سنگھ کو یو پی اے کے وزیر اعظم عہدے کے چہرے کے طور پر آگے کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔لیکن، مکھرجی کے لئے چیزیں بہت زیادہ نہیں بدلی تھیں۔ جو بات، 2004 میں ان کے خلاف گئی تھی، وہی اس بار بھی ان کی راہ کی رکاوٹ بنکر کھڑی ہو گئی۔
یہ بات سب سے زیادہ 26/11 کے بعد دکھائی دی، جب شیوراج پاٹل کے استعفے کے بعد وزارت داخلہ، مکھرجی کی خواہش کے باوجود ان کو نہیں دیا گیا۔اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر میں مکھرجی کے ہونے کی حالت میں بھی سونیا گاندھی پارٹی اور حکومت پر اسی طرح سے پورا قابو رکھ پاتیں، جیسا انہوں نے منموہن سنگھ کے وزیر اعظم رہتے رکھا۔
ممکن ہے، مکھرجی پارٹی کے مسائل کو بھی متاثر کرنے میں اپنے کردار کی مانگ کرتے۔ خاص کر، 2009 کے پارلیمانی انتخابات کے لئے امیدواروں کے انتخاب کے سوال پر۔
سونیا گاندھی کانگریس کی صدر بنی رہتیں، لیکن ان کو مکھرجی سے مشورہ لینے کی ضرورت پڑتی۔ ممکن ہے کہ حکومت اور حکمراں جماعت کے درمیان تعلق ایسے نہیں رہتے، کیونکہ فطرت کے لحاظ سے سونیا گاندھی اور پرنب مکھرجی، دونوں ہی کافی مضبوط شخصیت والے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اپنی شخصیت کو دبنے نہیں دیتا۔لیکن، 2012 میں سونیا گاندھی نے ایک موقع گنوا دیا جب ان کے پاس تبدیلی کرنے اور یو پی اے-2 کے زوال کو روکنے کا ایک موقع تھا۔ اگر منموہن سنگھ کو ترقی دیتے ہوئے صدر بنا دیا جاتا اور پرنب مکھرجی کو وزیر اعظم، تو تاریخ کچھ اور ہی ہو سکتی تھی۔
2012 تک، یو پی اے کی ڈھلان شروع ہو گئی تھی اور سونیا گاندھی کو حالات پر قابو پانے کے لئے ڈرامائی قدم اٹھانے کی ضرورت تھی۔مکھرجی نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کو صدر عہدے کا امیدوار اس لئے بنایا گیا، کیونکہ اس وقت یو پی اے جیتکے جادوئی اعداد و شمار سے تھوڑی دور تھا۔ سونیا گاندھی نے اس امید میں ان کو آگے کیا کہ وہ اپنے ذاتی روابط سے جیتکےجادوئی اعداد و شمار کو حاصل کر لیںگے۔
لیکن، یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر مکھرجی وزیر اعظم بنے ہوتے، تو وہ صدر عہدے پر منموہن سنگھ کا انتخاب متعین کر پاتے۔وہ شاید یہ بھی متعین کر پاتے کہ ممتا بنرجی معاہدہ کے ساتھ بنی رہیں، اور کچھ نہیں، تو کم سے کم بنگالی فخر کے لئے ہی سہی۔اگر، مکھرجی کو وزیر اعظم بنایا جاتا، تو ان کی سیاسی قابلیت مودی کی آسان جیتکے راستے میں رکاوٹ بنکر کھڑی ہوتی۔ صنعتی دنیا کے اندر ان کا رشتہ مودی کو اتنی آسانی سے کارپوریٹ دنیا کی حمایت کو اپنی حمایت میں نہیں مڑنے دیتا۔اگر مکھرجی کی رہنمائی ہوتی، تو پالیسی لقوہ (پالیسی پیرالسس) کا الزام بھی اتنا اثردار نہیں رہتا۔ کانگریس کو اس وقت کسی گھاگ یا لڑائیوں میں پکے ہوئے رہنما کی ضرورت تھی، نہ کہ ایک دانشور شخصیت کی۔
مکھرجی کو صدر کے طور پر منتخب کرنا، ایک قابلیت کو برباد کرنے کی مثال تھی۔ سونیا گاندھی نے تبدیلی کرنے کی جگہ چیزوں کو اپنے ہاتھوں سے پھسل جانے کا موقع دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے تعصب کو دلیل کے اوپر ترجیح دی۔